ہفتہ، 31 دسمبر، 2016

دسمبر روٹھ کر چلا گیا۔؟

میں تو پہلے ہی شوگر کا مریض ہوں ’’فراز‘‘
اور وہ کہتی ہے۔ پیار دی گنڈیری چوپ لے
خباثت سے لبریز یہ جملے  عہد حاضر کے اُن بدذوقوں کے ہیں۔جنہوں نے ادب میں شرارتوں، خباثتوں اور حماقتوں کو متعارف کروایا۔ ذوقِ آوارگی  کی  ندائی کے لئے نیا اسلوب ڈھالا۔ شعروں کی ماں بہن ایک کی۔ فراز صاحب کی زمین چونکہ خاصی   ہموارتھی اس لئے کھیتی بھی وہیں پر اُگائی گئی۔ستم یہ کہ’’ فصل گُل‘‘ بیساکھی کے ڈھول کی طرح چرچا کرکے کاٹی  گئی۔احمد فرازمحبوبی شعروں کے دیوتا ہیں۔لیکن شریروں نے تشنہ آرزوں کا پوسٹ مارٹم کر کے چھوڑا۔حُسنِ جاناں کی چیرپھاڑ بھی ہوئی۔کچے مکان کی دیوارگرنے پرموٹروے بنانے والے کوہ کن۔یونہی موسم کی ادا دیکھ کرتبدیلی کےخواہش مندمنچلے۔محبوب کو آنکھ بھر کے دیکھنے والے ’’شکم سیر‘‘۔فرازصاحب کاآہنگ رومانیت سے لبریز ہے اورکہیں کہیں رجز۔بھی ہے۔لیکن ۔

ہفتہ، 24 دسمبر، 2016

کتے کی پریس کانفرنس ۔!

شعلےفلم میں ویروچیختا رہا کہ بسنتی،ان کُتوں کےسامنے مت ناچنا۔۔ لیکن بسنتی ناچ کے ہٹی۔ فلم  گھاتک میں سنی دیول چنگھاڑا ’’مرد بننے کا اتنا ہی شوق ہے تو کتوں کا سہارا لینا چھوڑدے‘‘۔لیکن کاتیا۔کتوں کا سہارالے کر ہٹا۔اور۔فلم خوددار میں گوندا نے کہا ’’جب دس کمینے مرتے ہیں۔توایک کتا پیدا ہوتا ہے۔‘‘ اور وہ  دس کمینے مار کے ہٹا۔ہرفلمی  ڈائیلاگ  نےثابت  کیا ہےکہ   کُتوں کی کئی خصلتیں انسانوں میں پائی جاتی ہیں۔حتی کہ  طبعیت بھی کُتی ہوسکتی ہے۔وگرنہ بسنتی کئی بار۔ ویرو کے سامنے  ناچی تھی۔اسے کُتوں کے سامنے ٹھمکنے میں بھی کوئی پرابلم نہیں ہونا چاہیے تھا اورہوا بھی نہیں۔ویرو روکتا بھی رہا لیکن بسنتی  کی اپنی طبعیت بھی مجرے پرمائل تھی۔

ہفتہ، 17 دسمبر، 2016

عامر خان بھی رن مرید نکلے ۔؟

بچپن  بھی کیا خوب تھا۔کسی دوست سے کچی  ہوجاتی تو چھوٹی انگلی بھڑا کرقطع تعلق کرلیتے اورپکی کرنی ہوتی  تو شہادت  کی انگلی ملا لیتے۔کچی  کھلے عام ہوتی توچھپ کر ہونےوالی پکی۔جھوٹی سمجھی جاتی  تھی۔بچپن کی لڑائیوں کا مشہور جملہ ہوتا تھا۔’’ جوکہتا ہے وہی ہوتا ہے‘‘۔ لیکن تب دوستیاں اُتنی ہی   پکی ہوتی تھیں۔جتنی آج کل پاکستان اورچین کی دوستی ہے۔سمندر سے گہری، ہمالےسےاونچی اورشہد سےمیٹھی۔ بچپن  کی  لڑائیاں اس  اضطراب سے پاک تھیں۔ جن میں   معروف ناٹک نگا رشیکسپیر کےاکثر   کردارمبتلا  رہتے ہیں۔شیکسپیرشائد پہلا  ناٹک نگار تھا جس نے  ڈراموں میں کرداروں سے خود کلامی کروائی۔ جسےانگریزی میں Soliloquy  کہتے ہیں۔ جیسے۔
To be or not to be, that is the question

ہفتہ، 10 دسمبر، 2016

بلاول بنتِ زرداری

بلو ہماری  فلمی سیاست اورغیر فلمی ثقافت   کا  ایسا کردار ہے ۔جوگانوں میں ہٹ اور سیاست میں فِٹ  ہے۔مجھے جب بھی بلویاد آتی ہے۔ تو۔شیخ رشیداور۔ ابرارالحق کی یاد ساتھ لاتی ہے۔دونوں غیر فلمی ہیں۔ لیکن پوری فلم ہیں۔ابرار الحق  موسیقی کے ایفل ٹاور ہوں گے ۔ لیکن میں ان کی  سیاسی بصیرت کاقائل ہوں۔انہوں نے سالوں پہلے ہی گانوں میں بِلو کو متعارف  کروا یا تھا۔جس معراج پر شیخ رشیدتقریبا ایک  دھائی بعدپہنچے۔ابرار الحق۔اچانک بِلو کوچھوڑ گئے اوربلے سےمنسلک ہوکرسیاست میں شیخ رشید کے پیچھے چل پڑے۔ شیخ رشید پاکستانی سیاست کے پِیسا ٹاورہیں۔تھوڑےٹیرےسے۔ابرار کی بِلو آج کل شیخ رشید کے پاس ہے۔اور خاصی پاپولر بھی ہے۔ لیکن میرا دوست شیخ مریدکہتا ہےکہ بِلو ایسا مرد ہے۔جس کی عوامی مقبولیت بطور  عورت ہے۔ہارمونل تبدیلی کے بغیر۔

ہفتہ، 3 دسمبر، 2016

سیاست میں گالیوں کااستعمال

اندرون شہروں کے بل کھاتے محلوں میں اکثر  پھپھے کُٹن  ماسیاں ہوتی ہیں ۔جو کیبل کی طرح ہر گھر میں جاتی ہیں ۔ جنہیں گھریلو راز۔وائی فائی کے  سگنل کی طرح  با آسانی مل جاتےہیں۔زچگی سے بچگی تک۔ دن رکھنے سےدن پھرنے تک کے سگنل۔۔ وہ رشتے ایلفی کی طرح جوڑنے اور شیشے کی طرح توڑنے کی ماہر ہوتی ہیں۔محلوں کی لڑائیوں اور شناسائیوں ۔سمیت کئی سماجی خدمات ماسیوں کے دم سے قائم  ہیں۔ہمارے محلے کے لونڈوں، لفینٹروں نے  ماسی کانام  گوگل  رکھا ہوا ہے۔اورسوشل  سروس کے اعتراف میں ماسی کے چاروں  بچوں کےنام بھی سوشل میڈیا سے منسوب  ہیں۔  بڑی بیٹی ’’وٹس ایپ‘‘ہے۔منجھلی۔ ماں کی کاپی ہےاسے ’’گوگل پلس‘‘کہتے ہیں۔چھوٹی ’’ یوٹیوب ‘‘ہے اور بیٹا ٹوئیٹر۔

ہفتہ، 26 نومبر، 2016

مٹھائی والا ۔ایم پی اے

ہا۔ ہائے۔ یہ نگوڑ ی تو کل  پی ٹی آئی  والوں  سے مٹھائیاں  کھا رہی  تھی۔ا ٓج ن لیگ سے۔ اس  کم بخت ،  ناٹھی  کو  لت لگ گئی ہے۔ست ربٹی گیند کی طرح تھاں تھاں ٹھپے کھانے کی۔ویلی۔ناٹنکی ۔ چلو وہ تومٹھائی کی شوقن تھی۔ اِس ایم پی اے کو کیا ہوا  ۔ چور اچکا چوہدری تے لنڈی رن پر دھان ۔ ساری خواتین کو یہی کیوں مٹھائی کھلا رہا ہے۔ارے ۔چائے والا تو سنا تھا۔مٹھائی والا  بھی دیکھ لیا۔مجھے تو ایسے مرد ’’راجہ گدھ ‘‘کے قیوم لگتے ہیں۔ تمہیں یاد نہیں  آپا بانو  نےکہا تھا ۔’’محبت کی اصل حقیقت بڑی مشکل سے سمجھ آتی ہے ۔ کچھ لوگ جو آپ سے اظہار محبت کرتے ہیں اتصال جسم کے خواہاں ہوتے ہیں۔ اورکچھ آپ کی روح کے لیے تڑپتے ہیں ‘‘۔

ہفتہ، 19 نومبر، 2016

خورشید شاہ بیوٹی سیلون

یہ ان دنوں کی بات ہے جب سکولوں میں ملیشیا یونیفارم ہوتا تھا۔بال بھی کالے، جوتے اور کپڑے بھی۔تپتی دوپہروں میں سکول سے واپسی پرجسم کی ہر وہ چیزتوے کی طرح تپنے لگتی جوکالی ہوتی۔تالو۔ ڈبی دار یاسرعرفاتی رومال میں لپٹاہوتا لیکن بندہوجانے والےبھٹہ خشت کی طرح گھنٹوں تپتا رہتا۔پاؤں بوٹوں کےاندرمونگ پھلی کی طرح گرم ہورہتے۔گھرپہنچتے تواتنےضعیف ہوتے۔جسے افطاری سےقبل روزہ دار۔اماں کےپاس ساری تکلیفوں کاایک ہی تریاق تھا۔مہندی۔۔تب عام گھروں میں پلنگ کی جگہ منجھے ہوتےتھے۔اماں رات کوادوائن سے اوڑھنی ہٹاکرپیروں پراُتنی مہندی چڑھا دیتی۔جتنی چاچےجانے کے پیروں پرمٹی لگی ہوتی جب وہ کچی دیواریں لیپنےکےلئےپیروں سےگوندھتا تھا۔مہندی راتوں رات خشک سالی کا شکار زمین کی طرح پھٹ جاتی۔اگلی صبح پاؤں تربوزکی طرح سوئے لال ملتے۔کسی روزیونہی سربھی لال ہوجاتا۔

ہفتہ، 12 نومبر، 2016

راجہ ریاض تھک چکے ہیں۔ ؟

آج کل مردوں  و خواتین میں جو درد سب سے زیادہ اِن ہیں ۔وہ دردِ شقیقہ اور۔ ریح  کے درد ہیں۔ ریح  کا درد۔  کمر سے شروع ہوکرکولہے ۔اورپھرٹانگ تک جاتا ہے۔درد کا تعلق کسی  قبیلے سےنہیں  ہوتا۔لیکن بعض عمرانی ناقدین نے برگر نام  سےایک نیا قبیلہ  بنا دیا ہے۔جو دردِشقیقہ کومیگرین ۔اور۔ ریح کو شیاٹیکا کہتا ہے۔اگرچے۔برگرہردرد کوسردرد۔بنا چھوڑتے ہیں لیکن ہم کسی برگر کا دردمحسوس نہیں کر سکتے۔سالوں پہلے خواتین  درد شقیقہ  ہونےپر ڈوپٹے سےسر۔کس لیا کرتی تھیں۔بُورے( آٹے) کا سوپ پی کر گھریلو ٹوٹکے بھی آزماتیں تھیں۔شقیقہ  آدھےسر  کا دردہے۔جو رُک رُک کرہوتا ہے  اورچند روزہ وقفےکے بعدپھرہوتا ہے۔میرا دوست شیخ مرید کہتا ہے کہ  دردِشقیقہ۔سیاسی دردہے۔یہ انقلاب کی طرح کئی بار رُکتا ہےاوردھرنے کی طرح پھر ہوجاتاہے۔

ہفتہ، 5 نومبر، 2016

گل سُن ڈھولنا۔

ہمارے ہاں تفریح کےمواقعے کم ہیں۔ اسی لئے بچوں کی پیدائش کی شرح  زیادہ ہے۔اسے یوں بھی کہا جا سکتا ہےکہ تفریح کے محدود مواقعوں کی وجہ سے۔ اکثر ازدواجی  لڑائیاں صلح پر ختم ہوتی ہیں۔یوں بچوں کی پیدائش کی شرح بڑھ جاتی ہے۔مردشادی اس لئے کرتا ہے کیونکہ گھرپہنچتے ہی تنہائی کاٹ کھاتی ہے اور شادی کے بعدیہی کام بیوی بھی کرنےلگتی ہے۔شادی کےابتدائی دنوں میں جو شوہر بھاگم بھاگ بیوی کی ہر فرمائش پوری کرتے ہیں۔وہ جلد ہی فرمائش سن کر بھاگنے لگتے ہیں۔یوں لڑائی وٹ پر پڑی ہوتی ہے۔

ہفتہ، 29 اکتوبر، 2016

گھنٹہ گھر کس کا ہے۔؟

سالوں پہلے کی بات ہے ہماری نانیاں ، دادیاں سرپر لئےڈوپٹے کےایک سرے پر گرہ۔لگالیا کرتی تھیں۔ جس کا مقصد ہوتا تھا کہ کام کاج کے دوران اگربھول بھی جائیں تو گرہ کو ہاتھ لگتےہی یاد آجائے کہ فلاں کام ابھی کرنا ہے۔صبح سویرے دہی بلونےسے لے کر رات گئے دودھ کوجاگ لگانے تک خواتین کوجتنی باتیں یاد آتیں۔ڈوپٹے کی گرہیں کم۔ زیادہ ہوتی رہتی۔اور اگر کبھی وہ بھول جاتیں تو گرہ بندھی رہ جاتی۔ یہی ڈوپٹہ خواتین کا بہی کھاتہ ہوتا تھا۔کبھی کبھاراس میں سے آنہ اور۔دوآنے بھی نکل آتے۔جوسامنے کھڑے بچوں کو تب ملتے جب دادی کاموڈ ہوتا۔

ہفتہ، 22 اکتوبر، 2016

نواز شریف تلاشی دو۔

ایک وقت تھا جب انگلی  غیر سیاسی ہوا کرتی تھی  تب اس  کا ا ستعمال  صرف  ادب میں ہوتا  تھا ۔یعنی  انگلی کی ترویج  میں  ادب کا  ہاتھ تھا۔ پھر  کچھ بے ادب ۔ادب سے  ہاتھ کرنے لگے۔اسی دوران  انگلی سے بھی ہاتھ ہو گیا۔میں نےسالوں پہلے اردو ادب میں پڑھا تھا۔’’سیدھی انگلیوں سے گھی نہیں نکلتا‘‘۔ہم بے ادبوں نےتشریح کے دوران اس محاورے کی  ساخت ہی تبدیل کر ڈالی۔ آج وہی محاورہ ۔’’گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو  انگلی ٹیڑھی کر لینی چاہیے‘‘۔میں بدل چکا ہے۔اگر مزید تبدیلی نہ ہوئی تو ہم  کہہ سکتے ہیں کہ ’’انگلی وہاں پہنچ چکی ہے جہاں اسے ہونا چاہیے‘‘۔یوں انگلی کا وہ سفرجو۔ادب سے شروع ہوا تھا ۔2014 میں اسلام آباد پہنچ کرتھم گیا ۔ لیکن انگلی اُٹھی نہیں۔اسلام آباد پاکستان کا سیاسی مرکز ہے  یوں ہم  کہہ سکتے ہیں کہ انگلی سیاسی ہو گئی۔

ہفتہ، 15 اکتوبر، 2016

ایوان صدر کا اصطبل

دو گھوڑا بوسکی کریم رنگ کا  کپڑا ہے۔جس  کی قمیض لٹھے کی  شلوارکے ساتھ پہنی جاتی ہے۔یہ لباس عموما تہواروں پر زعفرانی اور کیسری پگڑی کے ساتھ پہنا جاتا ہے۔لیکن میرا دوست شیخ مرید کہتا ہےکہ’’دو گھوڑا بوسکی سے قمیض  کے بجائےشلوار  بنانی چاہیے کیونکہ ٹانگیں بھی دو ہوتی ہیں۔ بوسکی  کی شلوارپہن کرمردکی چال بھی دُلکی(دوٹانگوں) سے سرپٹ (چار ٹانگوں والی)ہوسکتی ہے‘‘ ۔میں تانگے کے علاوہ  جب بھی گھوڑ ے کا سوچتا ہوں تو  میرے دماغ میں پہلے گھوڑا گلی آتی ہے اوربعد میں  دو گھوڑا بوسکی۔بوسکی اور گلی  کی درمیانی  مسافت میں  ایوانِ صدر،ایوب خان،آصف   زرداری  اورسرتاج عزیز  ویسے ہی نظر آتے ہیں۔ جیسے کچے بھنے قیمے میں موٹا موٹا ادرک نظر آتا ہے۔گھوڑا گلی کوشہرت تب ملی جب کشمیر جاتے ہوئے انگریز فوجیوں کے گھوڑے یہاں تازہ دم ہونے لگے لیکن یہ گلی بدنام تب سے ہے ۔ جب سے اسلامی جمہوریہ پاکستان  کی ’’حلال‘‘شراب  یہاں  بنتی ہے ۔ انگریز کے باقیات پر آج ہمارا قبضہ ہے۔

ہفتہ، 8 اکتوبر، 2016

موٹاپا سرجیکل سٹرائیک کا سبب بنتا ہے.!

کہتے ہیں کہ خواتین پارٹی میں جانےسے پہلے۔تیارہوکرخود پرجوآخری نظر ڈالتی ہیں۔وہ۔نظرمردانہ ہوتی ہے۔اور یہ نظر  دانستہ ہوتی ہے اتفاقیہ  نہیں۔کیونکہ اتفاقیہ  واقعات میں نظراچانک اٹھتی ہے ۔ڈالی نہیں جاتی۔ہاں۔اسے بالغ نظری ضرورکہا جا سکتا ہے کیونکہ اسی دوران نظرکےٹکنے یا پھسلنے کا جائزہ لیا جاتا ہے۔اورخاتون  خانہ یہ طےکرتی ہے   کہ  اب پارٹی میں چلی جاؤں یامزیدمحنت دکار ہے۔یوں خواتین نے اپنی محنت سےخوبصورتی کا لوہا منوایا ہے۔یہ سچ ہےکہ ایک سو خواتین میں سےدس  قدرتی طورپراورنوے اپنی محنت سےحسین ہوتی ہیں۔مردچونکہ محنتی نہیں ہوتے۔اسی لئے  اُن کا چہرہ اورلباس  کام چور ہونے کی گواہی دیتے ہیں ۔ وہ صوفےپر پڑے پڑے ایک دن صوفے کا حصہ لگنےلگتے ہیں۔

پیر، 26 ستمبر، 2016

رائے ونڈ مارچ۔۔۔ اور انڈا فورس

یہ ان دنوں کی بات ہے جب  گھر سےبھی انڈا ملتا تھا اور سکول سےبھی۔۔فرق صرف اتنا تھا کہ استاد جی ڈنڈے کے ساتھ انڈا دیتے تھے اور اماں جی بریڈ کےساتھ۔۔میں نے تب  گھرمیں مرغ پال رکھا تھا۔کیونکہ انڈےسکول سے مل جاتےتھے۔ہم نالائقوں نےمشہورکر رکھا تھا۔کہ استاد جی انڈے دیتے ہیں۔ اللہ جانے یہ آف شور کمپنی  کس نے  لیک کر دی۔پھراستاد جی نے سزا بدل دی ۔وہ پہلے مرغا بناتے۔اور پھر کہتے نالائقو اٹھو۔اپنی اپنی کاپی پر انڈےبھی خود بناؤ۔یوں استاد جی کی جگہ انڈےہم دینے لگے۔اور  آفاقی  تنازعہ بھی حل ہو گیا کہ دنیا میں مرغی پہلے آئی تھی یا انڈا۔؟۔ استاد جی۔

ہفتہ، 17 ستمبر، 2016

شیطان سے مک مکا ہو چکا ہے۔؟

اظہار عشق کے کئی طریقے ہیں ۔لیکن میرا ۔وسوسہ ہے کہ عشق مجازی ۔کا اظہار۔جانوروں کی جبلت، خصلت  اورعادات کی تشبیہ سے بڑھ کرکسی طریقے سےنہیں ہو سکتا۔وسوسہ ایسےخیالات اورشکوک وشبہات کا نام ہے جو شیطان دل میں ڈالتا ہے۔ممکن ہے عشق مجازی کی بنیاد کسی شیطانی خیال پرہی رکھی گئی  ہو۔کیونکہ عشق۔دل میں مروڑکی طرح اٹھتا ہے۔اور۔رقیب ۔وسوسہ کی زندہ مثال ہے۔۔بلکہ رقیب تو ایسا سرکشگھوڑا ہے جومنزل مراد پر پہنچنےسےپہلے ہی عاشق کو تھکا مارتاہے۔فریب ِنظرتواسےکہا نہیں جاسکتا۔وسوسہ ہیہوگا۔کہ محبوبہ ہمیں مورنی لگتی ہے۔

ہفتہ، 10 ستمبر، 2016

عمران خان تیرا ککھ نہ رہے۔!

مجھے بچپن سے ملتان سے پیار ہے۔اور۔اس پیار کی اکلوتی وجہ میرا پیٹ ہے۔جسے ملتانی سوہن حلوے کی لت لگ گئی تھی۔سفر وسیلہ ظفر۔ کی مانند جب کبھی ٹرین پر کراچی جانا ہوا۔ ملتانی سوہن حلوہ  خانیوال سےخریدنا پڑا۔ سنِ بلوغت سے پیرانہ سالی کی طرف راغب ہوئے تو ملتان میں اولیا اللہ کے مزار۔دلی تسکین  کاسبب بھی بن گئے۔تو ملتانی عقیدت پیٹ سے دل تک پہنچ گئی۔شعور تھوڑا۔ عالیِ مرتبت ہوا تو ملتان کی ازلی محرومیاں دیکھ کردماغ کی بتی بھی روشن ہوئی ۔ پھر عقیدت نے دماغ کو بھی لپیٹا مارلیا۔ملتان کے ساتھ ہر دور حکومت میں وہی سلوک ہوا۔ جو پارلمیانی طرز حکومت میں صدرسے ہوتا ہے۔ بلکہ یوں کہہ لیں کہ جنوبی پنجاب کا صدر مقام ملتان باقی پنجاب کا’’ ممنون‘‘ہے۔؟۔ملتان۔ اولیا اللہ کی وجہ سےمعجزوں کاشہربھی ہے۔لیکن پچھلے دنوں یہاں ایک سیاسی معجزہ ہوا۔ جس پر سرائیکیوں کو حکومت کا ممنون ہونا چاہیے۔

ہفتہ، 3 ستمبر، 2016

بکرا عید اور ۔ازدواجی ٹوٹکے

میرے دوست شیخ مرید نے پچھلے سال  ہی سوچ لیا تھا کہ وہ ازدواجی  مراسم کوملحوظ خاطررکھتے ہوئےاگلی عیدپرٹوڈ مارنے والا بکراخریدےگا۔ازدواجی خوشحالی کےلئے وہ سال بھرخود قربانی کابکرابنا تھا۔قربانی سے پہلے کئی بار قربانی دی تھی۔مریداورنصیبو تھےتومیاں بیوی لیکن ان میں سوکنوں والا پیار تھا۔وہی پیارجو۔بھیڑاور بھیڑئیے میں ہوتاہے۔ڈوئی، کڑچھی ، بیلنا، چمٹا، کفگیر وغیرہ۔اکثر شیخ ہاوس میں اڑن کھٹولےبنے رہتے۔محلےداربھی اکثر  اُن کی لڑائی میں ٹپک پڑتے کیونکہ ’’چل دی لڑائی پاک ہوندی اے‘‘۔ نصیبو شادی  کےبعد کافی موٹی ہوگئی تھی۔اورمریدکی صحت پرویز خٹکی تھی۔ چونکہ وہ اچانک اینمل لورتھا۔وہ جانتا تھاکہ جانورپالنےوالےلوگ لِسے (کمزور) ہی ہوتے ہیں۔بیوی اوربچے ہی اس کی دنیا تھے۔لیکن دنیا میں سکون نہ تھا۔اُس کا عقیدہ۔ان شاستروں جیساتھا جوسمجھتے ہیں دنیا گائےکےسینگوں پر قائم ہے۔وہ سرہلاتی ہے تو بھونچال آتے ہیں۔گھرمیں کئی زلزلےآچکےتھے۔

ہفتہ، 27 اگست، 2016

طلال چوہدری ۔ پٹھہ ن لیگ ۔

پپو:میں پریشان ہوں۔وہ لڑکی مجھےدیکھ کرہنسے جا رہی ہے۔
دوست:پریشان نہ  ہو۔جب پہلی بارمیں نےتمہیں دیکھا تھا تو۔تین دن  تک ہنسی   نہیں رکی تھی۔
میرےدوست  شیخ مرید نے جب پوچھا ’’ایم این اے طلال چوہدری  جانگیہ پہنے کیسا لگے گا‘‘؟۔میری ہنسی بھی تین روز نہیں رکی۔مجھے جون ایلیاکا قول یادآگیاکہ ’’وجود۔خیال کا زوال ہے‘‘۔مریدکا سوال جانگیہ پہنےکھڑاتھا۔ طلال چوہدری  کاوجود۔ڈنڈ۔ بیٹھک مار۔رہاتھا۔کیونکہ وزیرکھیل  سندھ محمدبخش مہر نےپنجابی وزرا  کوپش آپس کا چیلنج دیا تھا۔ڈنڈ مارنے کی  ویڈیو سوشل  میڈیا پروائریل ہوچکی تھی۔سندھی وزیرکی پکارپر۔کئی پنجابی’’محمدبن قاسم‘‘بننےکوتیارتھے۔طلال نےچیلنج قبول کر لیاتھا۔خیال مسلسل محوپروازتھا۔محمدبخش   بھی لنگوٹ  پہن چکےتھے۔سیاست کےنوآموز پٹھوں کوکڑِکی کےسواکوئی داؤ نہیں آتا تھا لیکن۔وہ۔بھولو کی طرح رستم پاکستان اورگامےجیسے    رستم زمان بننا چاہتے تھے۔

پیر، 15 اگست، 2016

حلال ڈیٹنگ

اللہ کا لاکھ  لاکھ شکر ہے کہ دنیانے ہمارا حلال اور حرام کا تصور مان لیا ہے۔ گورے آج  مسلمانوں کے کھانے پینے، اوڑھنے اوربچھونے کی اشیا پرحلال کا لال ٹھپہ مار کرمارکیٹنگ کر رہے ہیں۔حلال فوڈ ، ڈرنک، ادویات  اورحلال میک اپ   سمیت کئی چیزیں حرام مارکیٹوں میں بک رہی  ہیں ۔حرام جانور کے اعضا اور الکوحل سے پاک اشیا۔گویا۔سُپرسٹورز  میں پڑی جس چیز پرٹھپہ نہیں لگا وہ حرام ہے۔انہیں کوئی ’’حرامی‘‘ نہیں خریدتا۔ اوراللہ کا کروڑہا شکر ہے کہ حلال رشتے بھی عالمی منڈی میں دستیاب ہیں۔لال ٹھپے والے۔حلال رشتےملنے کی وجہ سے وہاں  بیٹھے  تمام رشتہ دار’’غیر حلال‘‘ ہوگئے  ہیں۔وہ اچھے خاصے سالانہ دورےپرپاکستان آتے اور۔درختوںپرپکے ہوئےڈالراورپاؤنڈتوڑکرہمارےلئے تحفے لاتے تھے۔ اب اُن کی ’’گاٹی‘‘کی گُنجلیں وہیں کھلنے والی ہے۔اللہ کا شکرہےکہ مسلمانوں کے لئے شادی سےقبل حلال ڈیٹنگ متعارف ہو چکی ہے۔لال ٹھپہ لگی لال ڈیٹنگ۔شادی سے پہلےحلالملاقات ۔والدین کی فکرسےآزاد۔

ہفتہ، 6 اگست، 2016

ڈورے مون۔ ن لیگی ہے ۔؟

بچپن میں ریلوے اسٹیشن یا لاری اڈا کی طرف جب بھی جانے کا اتفاق ہوتا۔ وہاں  اکثر مداری مجمع لگا ہوتا۔ مجمعے بار بار دیکھ کرمجھےگیان ہونے لگاتھا کہ’’مداری اب  کیا کرےگا‘‘۔مداری ہاتھوں کے ہنر اور زبان کے چتر سے ایساجادو کرتا کہ ’’تاثیر‘‘ روح تک اتر جاتی۔لیکن اچانک دل اچاٹ  ہوگیا۔اب جستجو رہتی کہ مداری کے ہاتھ  کی صفائی اور زبان کی  چترائی  کا مشاہدہ کروں۔ تماشہ دیکھنےوہاں کئی اوربھی تماش بین آتے تھے۔ہمارے ہاں جب مداری اور شعبدہ باز۔ تماش بینوں کی آنکھوں کو خیرہ کررہے تھے۔ تب پورا۔ یورپ  ہپناٹزم کے سحر میں ڈوبا ہوا تھا۔ لیکن میرے فکر و خیال  کےبند دریچے جب وا۔ہوئے تو مداریوں کے علاوہ بھی کئی شعبدہ بازنظرآئے۔’’دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گرکھلا‘‘والا یک سطری شعر کئی بار یاد آیا۔عامل اور بچہ جمورا۔ کی گفتگو دماغ  کو۔ کوہلو بنائے رکھتی ۔’’ بچہ جمورا۔جی استاد۔ تھوڑا سا گھوم جا۔تھوڑا سا جھوم جا۔جوپوچھوں گا۔بتائے گا ‘‘۔مجھے سب ازبرتھا کہ اب کیا باتیں ہوں گی۔؟۔اچانک تماشے میں سیاست عود کر آتی۔مداری بیداری کی باتیں کرنے لگتا۔جمورے سیاسی ہو جاتے۔ اسلام آباد کی باتیں ہونے لگتیں ۔ اور جمورا ۔ ڈُگ ڈگ پر’’فرفر‘‘ ناچنے لگتا۔

ہفتہ، 30 جولائی، 2016

دوسری بیوی پرٹیکس نافذ

مریدنے جب بھری محفل میں دوسری شادی کرنے کااعلان کیا تو ہم ہکا بکا تھے کہ یہ  کنجوس۔دو خرچے کیسےاٹھائےگا۔ ؟اوپر سےتھا بھی شیخ ۔مکھی چوس۔آخر حالات نےثابت کیاکہ وہ پیدائشی شیخ تھا کیونکہ  وہ پہلی بیوی سےہی دوسرا بیاہ کررہا تھا۔ حالانکہ طلاق بھی نہیں ہوئی تھی۔یہ تھلے لگنےکی انتہا تھی۔ نصیبو ڈھیروں جہیز لائی تھی اور وہ اُس  پرکُنڈلی مارے بیٹھا تھا۔اُس شیخ دے پترکےپاس۔ پرانی بیوی سےنئی شادی کا جواز بھی تھا۔کہتا تھاکہ نصیبو۔لاج کی وجہ سے پچھلی بار ٹھمک نہیں سکی تھی۔اُسی رِیجھ کو پورا کرنےکےلئے نئی شادی کررہے ہیں۔یہ کلیہ شادی بٹا شادی برابرایک شادی جیسا تھا۔تاریخ پکی ہوتےہی وہ چھم چھم ناچتی پھرتی۔ گانوں کی نئی سی ڈی تیار کروائی۔ مرید کو’’بسمہ اللہ کراں‘‘پسند تھااور نصیبو نے’’شیلا کی جوانی‘‘پر پاؤں سیدھے کئے تھے۔

ہفتہ، 23 جولائی، 2016

آل پاکستان رن مرید ایسوسی ایشن

یہ سائنسی دور ہے اور ہر چیز کو ماپنے کا پیمانہ بھی سائنسی ہے۔حتی کہ پیار کی پیمائش بھی لو (love) کیلکولیٹر سے ہوتی  ہے۔مُحب اور محبوب کا نام  فیڈ کریں تو کلیکولیٹر فٹ بتائے گا کہ شرحِ پیار کتنی ہے۔؟۔سائنسی شرح نمو کم رہےتو فہرستِ عاشقاں سے مزیدنام کیلکولیٹر میں فیڈ کرتے جائیں۔حتی کہ معاملہ نوے، پچانوے  تک نہ پہنچ جائے۔پھر زبردستی کے ’’تعلقات‘‘ استوارکر لیں۔ویسے بھی ماڈرن عشق چائنا کے مال کی طرح غیر معیاری اور ناقابل بھروسہ ہو چکاہے۔۔گئے وقتوں میں عاشق پھول کی پتی پتی توڑ کرhe love me and he love me not سےوفا جانچتے تھے۔

ہفتہ، 16 جولائی، 2016

سوال 700 کروڑ ڈالر کا۔۔۔ ؟

عید الفطر پر پاکستان میں ایک فلم ریلیز ہوئی ۔’’ سوال سات سو کروڑ ڈالر کا‘‘۔ فلم کی کہانی  دو پروفیشنل چوروں کے متعلق ہے جن میں سے ایک  کمپیوٹر چپ چوری کرتے پکڑا جاتا ہے۔چور کی  جیل منتقلی کے دوران وین دریا میں گرجاتی ہے۔ پولیس اسے مردہ سمجھنے لگتی ہے۔ دوسرا چور  ایک سمگلر کا قیمتی ہیرا۔اور 700 کروڑ ڈالر چرانےکا منصوبہ بناتا ہے۔سمگلر نےساری دولت بینکاک میں چھپا رکھی  ہے۔خان۔نام کا ایک  پولیس آفیسرچورکوپکڑلیتا ہے۔ ڈرامہ، ڈانس اور عشق کےعلاوہ فلم کی ٹوٹل کہانی اتنی ہی ہے۔ملک میں جن دنوں’’سوال سات سو کروڑ ڈالر کا‘‘ ریلیز ہوئی اس کےچنددن بعدایک اور سوال اٹھا’’30 کروڑ روپے کا‘‘۔یہ کہانی بھی کافی فلمی ہے۔اور سوال پورے سرکٹ میں کھڑکی توڑ جا رہا ہے۔بلکہ یوں لگتا ہے ۔سوال سات سو کروڑ ڈالر کا۔پولیس آفسیر’’خان ‘‘۔اور 30 کروڑ روپے کا حساب  مانگنے والا خان ایک ہی  شخص ہے۔ سوشل میڈیا پرآج کل ایک سیاسی لطیفہ کافی ہٹ ہے کہ۔

جمعہ، 8 جولائی، 2016

قدم بڑھاؤ۔قندیل بلوچ

مسلم لیگ ن کا ایم پی اے میاں طاہر جمیل میرا پکا دوست ہے۔ اتنا پکا جتنا جھولی میں گرنے والا پھل ہوتا ہے۔پکا ہوا پھل ہمیشہ ٹوٹ کر گرتا ہے ہماری یاری بھی کئی بار  پک کر ٹوٹی۔ تب میں اس کے  لئے’’ہوئے تم دوست جس کے‘‘ والا شعرباربارپڑھتا ہوں۔ہماری دوستی میں کئی نشیب آئے لیکن ’’فراز‘‘سارے طاہر جمیل کے حصے میں آئے۔دوستی کی پگ ہمیشہ اس کےسرپررہی اوردشمنی میں بھی اسی  کا شملہ اونچا  رہا۔آسان لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ وزیرمملکت پانی و بجلی عابدشیرعلی اس کی پگ ہےاور صوبائی وزیرقانون رانا ثنااللہ ’’شملہ‘‘۔اسی لئے پگ اورشملے کوچھوڑکرجب قندیل بلوچ نےمفتی قوی کی ٹوپی پہنی تواسےبرا لگا اورجب مولانا فضل الرحمن نےپنجاب اسمبلی کو زن مریدکہا تومیاں طاہر جمیل نےقرارداد جمع کروا کرثابت کیا تھاکہ وہ حقوق مرداں کاعلم برداربھی ہے۔

منگل، 5 جولائی، 2016

کوئی شرم ہوتی ہے ۔۔؟

دودھ میں مینگنیاں ڈالنا ۔۔ بظاہر بہت بھدی سی  کہاوت  ہے ۔ لیکن  معنی کے اعتبارسےاس کہاوت نے کوزے میں دریا قیدکر رکھا  ہے۔یعنی ’’کسی کام کو بدنیتی سے کرنا‘‘۔ہمارے گھروں  کی خادمہ ہو یا سرکاری  خدام بلکہ سیاسی   خادم اعلی تک ۔بہت سے لوگ اکثر کام مینگنیاں ڈال کر تے ہیں ۔احساس ندامت چھپانے کا ڈھنگ بھی اسی محاورے میں مدفن ہے۔ دودھ میں مینگنیاں ڈالنا دانستہ فعل  ہے۔ وگرنہ دودھ تو ایسا جنتی میوہہےجس میں دوزخی  مینگنیوں کی ملاوٹ  ممکن ہی نہیں۔دودھ پینے کا ایک شوقین  منڈی پہنچا اورپوچھا:یہ بھینس کتنے کی ہے۔ ؟
کسان:1 لاکھ کی ۔روزانہ 10 لیٹر دودھ  دیتی ہے اورکٹا بھی ساتھ ہے۔
گاہک:اور یہ والی۔؟

پیر، 6 جون، 2016

سندھ فوت ہو جائے گا ۔؟

زبان معلومات کے تبادلے کا ایسا ذریعہ ہےجو کانوں کے بغیر اھورا ہے۔کیونکہ زبان اورکان مل کرگفتگو مکمل کرتے ہیں۔ کچھ لوگ کانوں کےباوجود۔روڈے  اور کچھ زبان کے باوجود ڈورےہوتےہیں۔زبان ہمارے زبانی جذبات کی ترجمان ہے۔ہم ’’سُنی ان سُنی ‘‘والے معاشرے کے باسی ہیں۔یہاں   کان ’’گونگے‘‘اور زبانیں ’’بہری‘‘بھی ہوتی ہیں۔دنیا کی آسان ترین زبان مادری زبان  ہے۔ ہم جبلی طور پر  آسانی پسند ہیں اس لئے گالی بھی مادری زبان میں ہی  دیتے ہیں۔ حتی کہ  ہم اسی زبان میں سوچتے اور خواب دیکھتے ہیں۔
بیوی  :تم  سوتے  ہوئے  مجھے گالیاں دے رہے تھے
شوہر:یہ تمہاری غلط فہمی ہے
بیوی: کیا غلط فہمی ہے۔؟
شوہر :یہی کہ میں سو رہا تھا

ہفتہ، 28 مئی، 2016

سیاست کا شیخ چلی

پروڈیوسر ہمیشہ نئی فلم کے لئےکاسٹ کاانتخاب یہ سوچ کے کر تے ہیں کہ فنکاروں کے پردہ سکرین  پرآتے ہی ہر طرح کےفلم بینوں کےذوق کی تسکین ہو جائے۔ یعنی  گلیمر۔ ڈانس ۔ایکشن ۔اور۔کامیڈی۔فلم میں ہر فلیورکا تڑکہ برابر لگتا ہے جیسے۔دال کو بھگار لگتا ہے۔فلم جتنی بھی رنگین اورتڑکہ جتنا بھی چٹخارے دارہو۔ڈائیلاگ خواہ کتنے ہی اوپن ہوں۔اور سنسر کتنا ہی نرم کیوں نہ ہو۔ کامیڈین کےبغیرفلمیں سنجیدہ رہتی ہیں۔2008سے 2013 تک ملک میں جوفلم چلی وہ انتہائی سنجیدہ سی تھی۔کیونکہ شیخ رشید’’اسمبلی کاسٹ‘‘سے باہر تھے۔فرزندانِ راولپنڈی  نے ناقابل شکست فرزندِ راولپنڈی کو 2008اور2010 میں جاوید ہاشمی اور شکیل اعوان سےشکست دلوادی تھی۔

ہفتہ، 21 مئی، 2016

راجہ ریاض نا منظور

تاریخ ہند کی بیشتر کتب مہاراجوں کے تذکروں سے بھری پڑی ہیں ۔ان میں کچھ راجے بھی تھے۔ایام جہل  کی بات ہے جب گاؤں میں کِکر کی ٹھنڈی چھاؤں تلے پڑی  کرسی پر بیٹھتے ہی کہا کرتے تھے۔ راجہ۔آگےسے سیٹ کر دو۔اور پیچھے سےباریک ۔اور وہ کنگھا۔ قینچی پکڑکر شروع ہو جاتا۔راجہ سرسے جُڑا رہتا اور میری نظریں شیشے سے۔ویسے یہ شیشےاتنےجھوٹے ہوتے ہیں کہ کوجھے سے کوجھا۔گاہک۔بھی خود فریبی میں مبتلا  ہوجائے۔شیشہ اگر۔کوجھا ہو تو گاہک شیشے میں نقص نکالتااورکٹنگ کوجھی ہو جائےتونقائص  کی گردان راجےکی گردن پرمنتقل ہوجاتی ۔کوسنے کا سلسلہ اگلی حجامت تک جاری رہتا۔نومولود بچوں کےختنوں سےلےکربال کاٹنےکے دوران سراورکان پرٹک لگنے تک کی جراحت بھی اُسی کےذمہ ہوتی۔

ہفتہ، 14 مئی، 2016

سیاسی جلسے ہیں یا انار کلی۔؟

ہمارے  ہاں صحت کی بنیادی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے ٹُونے ۔ٹوٹکے کا بہت رواج ہے۔لیکن  شکر ہے کہ  ہر گھر میں ایک زبیدہ آپا   ہوتی ہے۔جس کے طبی مشورے کبھی تو انرجی ڈرنک لگتے ہیں  اورکبھی کبھارہمیں   وائبریشن پرلگادیتے ہیں۔یہاں مردانہ  بیماری کی تشخیص ایکسرے سےہوتی ہےاور زنانہ بیماری  الٹرا ساؤنڈ سےپہچانی جاتی ہے۔بلکہ یوں کہہ لیں کہ   الٹرا ساونڈ جوانی   کی بیماری  ہےاورایکسرے بڑھاپے کی۔ لیکن کچھ  ایکسرےہسپتالوں کےبجائے انار کلی میں ہوتے ہیں۔ بیمار شہزادوں کی بڑی تعدادوہاں ایکسرےخودکرتی پھرتی ہے۔انار کلی شہنشاہ اکبرکی اُس ضد کانام ہے۔جودیوارمیں چنوا کرپوری ہوئی۔عہدمغل سےعہدچغل تک۔کے سارےسلیم انار کلیوں میں پھرتے ہیں۔پس دیوار ایکسرےکی  خواہش  والےسلیم۔

ہفتہ، 7 مئی، 2016

تیرا کیا بنے گا۔کالیا۔؟

اگر میں  یہ کہوں کہ سیاستدان جوکام اقتدار میں آکر۔کرتے ہیں وہ  ہم بچپن میں کرتے تھے۔توغلط نہ ہوگا۔میں چھوٹاپے ۔میں  کافی  لالچی تھا۔اماں کچھ لینے بھیجتی تو ریزگاری  مارلیتا۔ کبھی کبھار مکھن ٹافی کھالیتااورکبھی ٹیڈی بسکٹ ۔گچک اور مرتبان میں رکھی برفی دیکھ کرمُنہ سیلابی ہوجاتا۔میرا بھی ایک آف شورگُلک تھا۔تب  بوتلیں گھروں میں مہمان کے آنےپرآتی تھیں۔گھرمیں چابی نہیں ہوتی تھی۔دکانداربوتل کھول کر تھما  دیتا۔ واپسی پر  چُسکی تو مسٹ ہوجاتی۔مہمان جتنے زیادہ آتے  چُسکیاں  اُتنی ہی بڑھ جاتی تھیں۔تب  ایک سے زائدبوتلیں چھکُو  میں لاتے تھے۔بڑے پارکس میں جائیں تو وہاں مالشیے۔مختلف رنگ و قسم کے تیل سٹینڈ میں  لگا کرگھومتے ہوتے ہیں۔ناں۔؟۔بالکل ویسا ہی چھکُو۔زمانہ بدلا  تو چابی ۔

ہفتہ، 30 اپریل، 2016

فلمی وزیراعظم ۔۔!

سالوں پہلے میرے بڑے جب بھی حج پر جاتے توواپسی پر بہت سےتحائف لاتے۔کچھرکھ لیتے اورکچھ دان کردیتے ۔اُسی ’’مال غنم‘‘ میں سےریڈیو ٹیپ ریکارڈر  میرے ہاتھ  لگ گیا۔تب ریڈیو پرآڈیوفلمیں چلتی تھیں۔زبان کےصوتی اثرات زلزلےبرپا کردیتے تھے۔فلموں کا مجھےزیادہ شوق  کبھی نہیں رہا۔البتہ گانےبہت بھاتے تھے۔بناکا گیت مالا کی کیسٹ ہزاروں بارسنی اور باربارسنی۔اس شوکےمیزبان  امین سیانی کی۔مدھُرآوازگانوں سےبھی زیادہ بھانے لگی۔امین سیانی ہرگانے سے پہلے تذکرہ چھیڑتے کہ اس کاموسیقار،سنگیت کاراور گلوکار کون ہے۔؟مجھے ان’’ کاروں‘‘سےبھی زیادہ دلچسپی آواز میں تھی۔اب کون گنے کہ وہ آوازکتنی بارسُنی تھی۔لیکن میں گن کر بتا سکتا ہوں کہ تحریک انصاف کےسربراہ عمران خان کومیں نےامین سیانی سےزیادہ سن لیا ہے۔آٹھ ،دس سال پہلے انہوں نے جوکیسٹ چلائی تھی۔مسلسل چل رہی ہے۔

ہفتہ، 23 اپریل، 2016

شہزادےجھوٹےہیں۔ ۔؟

پیارے بچو۔!
ایک بادشاہ تھا۔وسیع و عریض سلطنت کا مالک۔خزانوں سے بھری ہوئی سلطنت۔لیکن سارے خزانےمدفن تھے۔’’زندہ‘‘ خزانے  حواری کھاپی چکےتھے۔ بادشاہ۔تیسری۔رسم تخت پوشی سےقبل مدفن خزانوں کونکالنے کی باتیں  اکثرکرتا تھا۔تخت طاؤس پربیٹھتے ہی۔سب کچھ بھول گیا۔خزانہ یوں دفن  رہ گیا  تھا گویا تجہیز وتکفین کرکےدبایا گیا ہو۔بادشاہ کی یاداشت ’’گجنی‘‘فلم  کےہیروعامرخان کی طرح شارٹ ہوگئی تھی۔اس کےپاس ایک کیمرہ تھا۔جو۔نو۔رتنوں کی تصویریں کھینچ کربند ہو گیا تھا۔دربار میں کوئی اورداخل نہ ہوسکتا تھا۔زنجیر عدل ٹوٹ چکی تھی۔قانون گھرکی لونڈی تھا۔انصاف وہاں کی   مہنگی ترین جنس تھی۔خزانہ طوائف کی طرح مسلسل  اُجڑ۔رہا  تھا۔گِدھ آج بھی لاشےپر اڈاریاں مار ۔رہے تھے۔ راجہ  ٹوڈر مل کی بصیرت خزانہ۔جواب دے چکی تھی۔

ہفتہ، 16 اپریل، 2016

پاجامہ لیکس ۔۔!

ہر سال موسم برسات میں طفیل کے گھر کی چھت یوں ٹپکتی گویاساری بارش  یہیں ہورہی ہو۔طفیل وغیرہ سات بہن بھائی تھے۔بارش ہوتے ہی سارے کچن میں بھاگ  جاتے کیونکہ پکوڑے چھت سےنہیں ٹپکتے۔ لیکن کچن سے نکلتے تو برساتی پکوڑوں کےبجائے ہاتھوں میں ۔دیگچیاں، بالٹیاں، ہانڈیاں، کٹوریاں اور جگ  وغیرہ  ہوتے۔سارا خانگی اسلحہ وہاں نصب کر دیا جاتا جہاں چھت لیکتی۔اورخودکونے کھدروں میں مورچہ  زن ہوجاتے۔پانامہ  لیکس  بھی طفیل کی چھت کی طرح  برسی ہیں۔لیگی وزر ا۔دیگچیاں، بالٹیاں اور ہانڈیاں پکڑے پھر رہے ہیں۔


ہفتہ، 9 اپریل، 2016

پشاور میں چوہا سیاست

مرید کے نصیب میں جب سےنصیبو لکھی گئی تھی۔ اس کی زندگی  میں ڈر اُتر آیا تھا۔ گھر لوٹتے ہی  اپنے بِل میں گھس جاتا۔رسوئی سے چُمٹےکی آوازبھی آتی تو اسُے اپنی شامت محسوس ہوتی۔وہ شروع سےتوچوہانہیں تھا لیکن  نصیبو  پکی۔ پیدائشی بلی تھی۔کٹورا منہ کو لگا کردودھ غڑپ کرنے والی۔گول آنکھوں،تاؤ بھری مونچھوں  اور  نوکیلے پنجوں والی۔ بلی کے  خوف  سے مرید کی بھوک مر چکی تھی۔ پلیٹ میں پڑی روٹی اُسےکڑِکی میں لگی نظرآتی۔گھنٹی باندھنے کی تواس میں  ہمت نہ تھی۔لیکن وہ  ماہرین  ازدواجیات مرید کی آخری اُمید تھے۔جوسوچتے ہیں کہ بیوی  شوہرکی نسبت چوہے سےزیادہ  ڈرتی ہے۔تبھی وہ چوہے پر ہی پکا ہو گیا تھا۔

ہفتہ، 2 اپریل، 2016

غیر آئینی ڈکار۔۔۔ !

ڈکار دراصل ہاضمے کی ایسی کیفیت کو بیان کرتا ہے۔جس میں لنگوٹ فیلوزاور رشتہ دارتُکا لگاتےہیں کہ آپ کےمعدےمیں کتنا تیز دھار گرائینڈر فٹ ہے۔؟ہاضمےکی اہمیت وہ لوگ زیادہ جانتے ہیں جن کا ڈھکار پھنس جاتاہے۔ڈکارآنا،لینااورپھنسنا۔تینوں حالتوں میں بسیارخور کا منہ پیدائشی سانچےکے بجائےنئی ساخت میں ڈھل جاتاہے۔مشاہدہ تو یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ ڈکاربھی نہیں لیتے۔سیاستدان،دھنوان اور افسران اس  مشاہدےکی تجربہ گاہیں ہیں۔یہاں سیاسی اور معاشی کئی ڈکار رائج ہیں۔ان ڈکارئیوں کو نہ تو اپھارا ہوتا ہے اور نہ ہی طبیعت سیر۔انہیں تبخیرمعدہ کی شکایت ہوتی ہے نہ ہی السرکی۔ان کے شکم سےگڑوم گڑوم کی آوازیں کبھی نہیں آتیں۔زبان کوچسکااور چٹخارہ لگا ہوتاہےیہ ضروری نہیں کہ ان کی توندیں دریائی گھوڑے جیسی ہوں لیکن ان کے ضمیر اور معدےلکڑاور پتھر ہضم ہوتے ہیں۔ہائی سپیڈ گرائینڈر والے۔انہیں سیاسی اور انتظامی۔بدہضمی کی شکایت کبھی نہیں ہوتی۔

منگل، 22 مارچ، 2016

اللہ کے بندے۔

میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں ۔
یہ شعر جانےکس کا ہے لیکن ملکی سیاست کی حقیقی تشریح ہے۔حرام کی کمائی  کا مقدرپہلے نالی پھرگٹر ہوتا ہے۔سیاست  کا’’طوائف‘‘سے دامنی تعلق ہے۔طوائف چولی ہے ۔کیونکہ طوائف جب رقاصہ  تھی تب سیاست  درباروں میں تھی۔1857کےبعد’’حضوروالا‘‘درباروں سےایوانوں میں توآگئے لیکن اقبا ل  اُن کا بلند ہی رہا۔زنجیر عدل کا شوشہ ٹوٹا تورعایا اورفریادی  مزیدکھجل  ہوئے لیکن طوائف۔نادھن۔دھنا پرتھرکتی ہوئی   حضور والاکے پیچھے ہی رہی۔طوائفوں کو ایوانوں میں جگہ نہ ملی تومنڈیاں آبادہو گئیں۔حضوروالا آج بھی  چم کی چلا رہے ہیں۔وہ مالک بننےکےلئے نوکرکا پارٹ پلےکر رہے ہیں۔ایسے نوکر۔جنہیں اپنا شجرہ  نسب   بنانے کی مہلت بھی نہیں۔انہیں پتہ ہے یہ کام سیاسی مخالفین کا ہے۔یہاں جھوٹ کا ڈھنڈورا۔اتنا  پیٹا جاتاہےکہ سچ  لگے۔جھوٹےہرچارپانچ سال بعدہمیں ملتے ہیں۔ہم ان کا مان سمان کرکےسچا  مان لیتے ہیں۔

ہفتہ، 12 مارچ، 2016

بھاڑمیں جائیں۔۔بلدیاتی نمائندے۔

پچھلے دنوں سوشل میڈیا پرایک لطیفہ کئی بارزیرنگا ہ رہا ۔ بظاہرتویہلطیفہ کسی دل جلے کی حالات حاضرہ پر جلی کُٹی جیسا ہے۔کیونکہ طعنےمارنا، جملےکسنا اور انگلی اٹھانا بہت ہی آسان ہے۔ پہلے لطیفہ ۔اردوپڑھاتے ہوئے استادشاگردوں سے: میں رو رہا ہوں۔تم رو رہے ہو۔ہم رو رہے ہیں۔؟گرائمر کی رو سے  بتائیں یہ کونسا زمانہ ہے۔ ؟
بچہ : جناب ! یہ  ن لیگ کا زمانہ ہے
واقعی آج کل  ن لیگ کا زمانہ ہے۔وفاق میں  تیسرا زمانہ  جبکہ پنجاب میں تو ن  لیگی زمانہ ٹھہر ہی گیا ہے۔ استاد جی نے  گرائمر  کا سوال  توایک بار ہی  پوچھا تھا لیکن  لاہو رچھوڑ کر سارے پنجابیوں  کا جواب وہی ہے جو شاگردوں کا تھا۔میں رو رہا ہوں۔تم رو رہے ہو۔ہم رو رہے ہیں۔؟

پیر، 7 مارچ، 2016

زن مرید اسمبلی۔۔ !

مریدنےدفتر سے اپنی دلہن کو فون کیا :سنو امی آ رہی ہیں۔ کچھ بنا لینا۔ دلہن نے منہ بنا لیا۔مریددفترسےگھرپہنچا توامی کا منہ بھی بنا ہوا تھا۔ہوٹل سےکھانا منگوایا۔ماں کورسوئی میں اور دلہن  کوبیڈروم میں  پیش کیا۔رات بھرامی سےباتیں کیں ۔تازہ صبح بیدارتوہوئی لیکن دلہن کا منہ رات سےباسی  تھا۔مریداپناسامنہ لےکردفترچلا گیا۔پنجاب حکومت کانصابی نعرہ ’’مار نہیں پیار‘‘مرید نے اپنے گھرپرلاگو  کررکھا تھا کیونکہ گھرانسان کی پہلی درس گاہ ہوتا ہے۔

ہفتہ، 27 فروری، 2016

’’بندر پبلک سکول‘‘

’’ط‘‘جب بھی  بیڈ پرتنہاسونا چاہتا۔ اپنی بیوی سےلڑائی کرلیتا اوربسترپریوںرات بھرلیٹنیاں لیتاجس طرح  مال بردار جانور دن بھرکی تھکان کھلےمیدان میں پشت رگڑکراتارتے ہیں۔ ’’ط‘‘ کی بیوی دوسرےکمرے میں سورہتی لیکن حیلے بہانے جب بھی حجلہ عروسی  میں آتی۔ کانی آنکھ شوہرپرضرورڈالتی۔جانےکیوں’’ط‘‘ کی لیٹنیاں اسےبندرکی ٹپوسیاں لگتیں۔ہرصلح کے بعد بھابھی’’ط‘‘ کوضروربتاتی کہ’’تم سوتے ہوئے بندرکی طرح ٹپوس رہےتھےاورڈبل بیڈکوبندرگاہ سمجھ رکھا تھا‘‘۔ہمارے ہاں بندروں کی دونسلیں ہیں۔پہلی  جنگلی یا۔چڑیا گھری۔اوردوسری گھریلو بندر۔گھریلو بندرقابوکرنا ہوتو’’طویلے کی بلا بندرکےسر‘‘ڈالی جاتی ہے اورجنگلی بندر کابہترین توڑ۔لنگورہے۔ہندوستان میں ہنومان  سےمشابہت  کی وجہ سے  بندربہت سر چڑھےہیں اسی لئےوہاں بندروں سے نمٹنےکےلئےلنگو رکرائے پردستیاب ہیں بلکہ بلدیہ نےلنگوربھرتی بھی کررکھےہیں۔

ہفتہ، 20 فروری، 2016

دیوارمہربانی ۔تیرا شکریہ

دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے
ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے
یہ غزل  جانےنذیر قیصر کی ہے یا قیصر الجعفری کی۔پہلاشعر میں نے کئی بار سنا اورہربارسوچا  کہ دیواروں سے باتیں کیسے کی جاسکتی ہیں  اورپھر  یہ اچھی  کیسے لگ سکتی ہیں۔اس قبیل کے لوگو ں پر مجھے پاگل والا دوسرا مصرعہ زیادہ فٹ ہوتا نظر آتا تھا۔دیواروں کے کان ہوتے ہیں یہ مفروضہ اگر درست مان  لیا جائے توغزل کا پہلامصرعہ لغوی معنی میں سچا ہوسکتاہےلیکن سوال یہ ہےکہ  کیاسنتی دیواریں۔گونگی ہوتی ہیں۔حواس خمسہ کےباقی خواص ان  کےپاس کیوں نہیں  ہوتے ۔؟