میں تو پہلے ہی شوگر کا مریض ہوں ’’فراز‘‘
اور وہ کہتی ہے۔ پیار دی گنڈیری چوپ لے
خباثت سے لبریز یہ جملے
عہد حاضر کے اُن بدذوقوں کے ہیں۔جنہوں نے ادب میں شرارتوں، خباثتوں اور حماقتوں
کو متعارف کروایا۔ ذوقِ آوارگی کی ندائی کے لئے نیا اسلوب ڈھالا۔ شعروں کی ماں
بہن ایک کی۔ فراز صاحب کی زمین چونکہ خاصی
ہموارتھی اس لئے کھیتی بھی وہیں پر اُگائی گئی۔ستم یہ کہ’’ فصل گُل‘‘
بیساکھی کے ڈھول کی طرح چرچا کرکے کاٹی گئی۔احمد فرازمحبوبی شعروں کے دیوتا ہیں۔لیکن شریروں نے تشنہ آرزوں کا
پوسٹ مارٹم کر کے چھوڑا۔حُسنِ جاناں کی چیرپھاڑ بھی ہوئی۔کچے مکان کی دیوارگرنے
پرموٹروے بنانے والے کوہ کن۔یونہی موسم کی ادا دیکھ کرتبدیلی کےخواہش مندمنچلے۔محبوب کو آنکھ بھر کے دیکھنے والے ’’شکم
سیر‘‘۔ فرازصاحب کاآہنگ رومانیت سے
لبریز ہے اورکہیں کہیں رجز۔بھی ہے۔لیکن
۔