مجھے بچپن سے ملتان سے پیار ہے۔اور۔اس پیار کی اکلوتی وجہ میرا
پیٹ ہے۔جسے ملتانی سوہن حلوے کی لت لگ گئی تھی۔سفر وسیلہ ظفر۔ کی مانند جب کبھی ٹرین
پر کراچی جانا ہوا۔ ملتانی سوہن حلوہ خانیوال سےخریدنا پڑا۔ سنِ بلوغت سے پیرانہ سالی کی
طرف راغب ہوئے تو ملتان میں اولیا اللہ کے
مزار۔دلی تسکین کاسبب بھی بن گئے۔تو
ملتانی عقیدت پیٹ سے دل تک پہنچ گئی۔شعور
تھوڑا۔ عالیِ مرتبت ہوا تو ملتان کی ازلی
محرومیاں دیکھ کردماغ کی بتی بھی روشن ہوئی ۔ پھر عقیدت نے دماغ کو بھی لپیٹا مارلیا۔ملتان کے ساتھ ہر دور حکومت میں وہی سلوک ہوا۔
جو پارلمیانی طرز حکومت میں صدرسے ہوتا ہے۔ بلکہ یوں کہہ لیں کہ جنوبی پنجاب کا صدر مقام ملتان باقی پنجاب کا’’ ممنون‘‘ہے۔؟۔ملتان۔ اولیا اللہ کی وجہ سےمعجزوں کاشہربھی ہے۔لیکن پچھلے دنوں یہاں ایک سیاسی معجزہ ہوا۔ جس پر سرائیکیوں کو حکومت کا ممنون ہونا چاہیے۔
’’خبر کچھ یوں ہے کہ پچھلے دنوں ملتان کے محلہ عیدگاہ چوک کا رہائشی عمران نامی
ایک شخص حالات سے دلبرداشتہ ہو کر پانی
والی ٹینکی پر چڑھ گیا۔ خودکشی کے لئے
چھلانگ لگائی لیکن بجلی کے تاروں پرآ
گرا۔ خوش قسمتی سے بجلی بند تھی۔ عمران
تقریباآدھا گھنٹہ ہائی وولٹیج تاروں پر جھولتا رہا۔جس کے بعد ریسکیو
اہلکاروں اسے زندہ نیچے اتارلیا‘‘۔اس خبر میں معجزہ۔یہ ہے کہ بجلی کےتار مضبوط
تھے۔وگرنہ بجلی تو اتنی باقاعدگی سےجاتی ہے کہ لوگ گھڑیوں کا ٹائم لوڈشیڈنگ کےساتھ سیٹ کرنے لگے ہیں۔عمران بے وقوف تھا۔اسی
لئے تو خودکشی تب کی جب بتی بندتھی۔مجھے یقین ہے کہ۔اس کی زندگی2018 تک وفا کرے
گی کیونکہ2018 میں لوڈشیڈنگ آخری سانسیں لے رہی ہوگی۔ ملکی معیشت کافی مثبت’’اشارے‘‘کر رہی ہے۔وزیر خزانہ اسحاق
ڈارکئی بار ایسا ہی کچھ کہہ بھی چکے ہیں۔ خود کشی کی۔ کوشش کو عمران کی ذاتی وجہ
سمجھاجانا ضروری ہےوگرنہ۔معیشت مستحکم ہوتو کون بےوقوف جان جوکھوں میں ڈالتا ہے۔
شوہرگھرآیا تو بیگم کمرسےپھندا۔باندھ ڈال پنکھے سےخودکشی کی کوشش کررہی تھی۔
شوہر: یہ کیا۔خودکشی کرنی ہےتو پھنداگلےمیں ڈالو۔
بیگم :پہلے پھندا گلے میں ڈالا تھا۔ تومیرا دم گھٹنے لگا
تھا۔
کہتے
ہیں کہ دنیا میں دو طرح کے لوگ ہیں۔ پہلےwise اور۔ دوسر ے otherwise۔۔دنیا پر wise کا قبضہ ہے۔ otherwiseسارے محکوم ہیں۔ لیکن
میرا۔ماننا ہے کہ سیاست دان بھی دو
طرح کے ہوتے ہیں۔ پہلےپیٹ سےسوچنے والے۔
اور دوسرے دماغ سے ۔پاکستان پیٹ والوں کا
ملک ہے۔جنہیں ملتانی حلوے کی طرح لت لگی ہے۔لیکن دماغ والے جب بھی بولتے ہیں تو۔دوسری جاتی کے
پیٹ پر لات مارتے ہیں۔حرفِ مصمم یہ ہے۔
پیٹ سے سوچنے والوں کے پیٹ ہلکے ہوتے ہیں۔اورسارے۔otherwise
کے پیٹ پر پتھر باندھے ہوتے ہیں۔ دونوں سیاسی جاتیوں میں سے
کون کسے پسند ہے یہ اپنا اپنا عقیدہ ہے۔لیکن یہاں ٹانگہ پارٹیوں اور ڈیڑھ اِٹی
مسجد والوں نےسب سے اونچا سپیکر لگا رکھا ہے۔پاکستان میں اپوزیشن کی سیاست کا مطلب ہے۔حکومت کے خاتمے کےلئے معجزوں کا انتظار
کرنا۔کیونکہ انگلی جب سے بیٹھی ہے یہاں چمتکار
ہونے بند ہو گئے ہیں۔تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے قوم کو تبدیلی کا نعرہ
دیا۔ اُس پگلے کو نہیں پتہ تھا کہ چلدی ترقی میں دھرنےدینا پاک نہیں پاپ ہوتا ہے۔تبدیلی کےنعروں سےترقیِ معکوس نے جنم لیا ہے۔ آگے بڑھنے کا عمل رک گیا ہے۔
استاد:بچو زندگی مسلسل آگے بڑھنے کانام ہے۔ اگر آپ اڑ
نہیں سکتے تو بھاگیں۔۔ بھاگ نہیں سکتے تو چلیں۔۔اورچل نہیں سکتے تورینگنا شرو ع
کر دیں۔۔
شاگرد:استاد جی۔وہ
تو ٹھیک ہے لیکن جانا کہاں ہے۔ ؟
جانا وہیں ہے جہاں اسحاق ڈارکہہ رہے ہیں۔کہ۔’’ 2050 میں پاکستان۔دنیا
کی 18ویں بڑی معیشت ہو گا۔ملکی معیشت درست
راستے پرگامزن ہے‘‘۔پولیو
زدہ معیشت عالمی امداد کی بیساکھیاں چھوڑ چکی ہے۔ دھرنوں سے لگنے والےخسارے کے دھچکے اب ختم
ہو چکے ہیں۔بیمار صنعتی یونٹس انرجی ڈرنکس پی کرتگڑے ہو گئے ہیں۔ ریلوے، واپڈا، پی آئی اے، سوئی گیس، تعلیم
اور صحت سمیت تمام بھٹکے محکمے راہ راست پرآ چکے ہیں۔نندی پور۔اور قائداعظم سولر پارک کی کرپشن کے الزامات جھوٹے نکلے ہیں۔ پنجاب کے
سارے چھوٹو گینگزختم ہو گئے ہیں۔۔چنیوٹ کے قیمتی معدنی ذخائرنے ملکی محاصل بڑھا دئیے ہیں۔احتساب
بیورو میگا کرپشن کیسز میں نیوٹرل انکوائری پر لگ گیا ہے۔میٹرو بس۔ کرپشن کے
الزامات غلط ہیں۔لاہور کی اورنج ٹرین میں باقی پنجاب کے
فنڈزجھونکنے کا دعوی غلط ہے۔غیرملکی سرمایہ کار۔ دودھ کی نہریں
لے آئے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر نفسیاتی حدود عبور کر چکےہيں۔ کیپٹل نہیں بلکہ معیشت فلائی کررہی ہے۔ملک میں گڈ گورننس کا راج
ہے۔ترقی کے ثمرات قوم کو ملنے والے ہیں۔ عمران
خان ۔ملتانی عمران کی طرح تار پر لٹکےہوئے ہیں۔ وہ ملک کو پیرس بنانے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اپوزیشن کو صراط
مستقیم نظر نہیں آ رہی۔ عوامی شعور کی بیداری میں بھی ۔ابھی وقت لگے گا۔؟
سردار:یہ کس چیز کا کھیت ہے۔
کسان:یہ کپاس کا ہےجس سے کپڑا بنتا ہے ۔
سردار:اوہ۔ اچھا۔ تو اس میں شلوار کاپودا کون سا ہے۔
ہمارا۔شعور ابھی تک سردار جی والے سٹیٹس پر ہے۔قمیض اور
شلوار کے پودے تلاش کرنے والا۔ شعور۔ لیکن امید افزا بات یہ ہے کہ معاشرہ بےفکر نہیں زندہ ہے۔ مردے سردار کی طرح سوال
کرنے کی جرات نہیں کرتے۔ کہتے ہیں کہ معاشرتی
زوال کی ابتدا فکری زوال سے ہوتی ہے۔ پنجابی معاشرہ فکری زوال کا شکار نہیں ہے
کیونکہ لاہور۔ براق جیسی رفتارسے ترقی کر
رہا ہے۔لیکن میرا دوست شیخ مرید کہتا ہے کہ جنوبی پنجاب کی ترقی کے لئے حکمرانی سوچ زوال پزیرہو چکی ہے۔اور۔لاہور میں مقروض ترقی
ہو رہی ہے ‘‘۔لیکن اسحاق ڈار کہتے ہیں ۔’’عالمی اداروں نے پاکستان کی ریٹنگ
بہتر کرنا شروع کر دی ہے‘‘ ۔شائد اب نوکریاں میرٹ پر ملتی ہیں۔کرپشن رک گئی ہے۔احتساب بام عروج پر ہے۔ چھوٹو گینگز ختم ہوگئے ہیں۔ اقربا پروری کرنے والے لاپروا ہوچکے ہیں۔آئندہ
پنجاب کے 50 ہزارگرایجوئیٹس کو ٹیکسی ڈرائیور نہیں بنایا جائےگا۔ ملکی
برآمدات سرکے اوپر سے گذر رہی ہیں۔ انڈسٹری کا پہیہ پیٹ کےمروڑکی طرح گھوم رہا ہے۔بُرا۔ہو عمران خان کا جس نے
دھرنا دے کر مزید قرضےلینے پرمجبورکر دیا۔ جس نے خزانہ لوٹنے والوں کو آڑے
ہاتھوں لیا۔ آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کا
مطالبہ کیا۔جس کی ہاہا کار۔پرحکومت۔چھوٹے
کسانوں کو20 ارب روپے دینے پرمجبور ہوئی۔ بنکوں
میں چھ فیصد ودہولڈنگ ٹیکس لگانا پڑا۔
سٹیل ملز ملازمین کوتنخواہیں دینا پڑیں۔بُرا ہو۔ عمران خان کا جس نے چار حلقے کھلوا ۔ کر لیگی وزرا کو
عدالتوں میں خوارکیا۔عمران خان تیراککھ نہ رہے۔شکر ہےسپیکر نےمیاں نواز شریف کی نااہلی کا ریفرینس روک کرعمران
خان کی نااہلی کا فیصلہ الیکشن کمیشن کےحوالے کردیا۔۔بھلا ہو۔حکومت
کا۔۔ کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کاقانون ختم ہوگیا ہے ۔
پٹھان:سر جی میری گاڑی کے کاغذات تو پورے ہیں۔پھر چالان کیوں کیا۔؟
وارڈن: سونیا۔ڈبل سواری کھل گئی ہے لیکن تم اکیلے جا رہے ہو۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں