میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں ۔
یہ
شعر جانےکس کا ہے لیکن ملکی سیاست کی حقیقی تشریح ہے۔حرام کی کمائی کا مقدرپہلے نالی پھرگٹر ہوتا ہے۔سیاست کا’’طوائف‘‘سے دامنی تعلق ہے۔طوائف چولی ہے ۔کیونکہ
طوائف جب رقاصہ تھی تب سیاست درباروں میں تھی۔1857کےبعد’’حضوروالا‘‘درباروں سےایوانوں
میں توآگئے لیکن اقبا ل اُن کا بلند ہی
رہا۔زنجیر عدل کا شوشہ ٹوٹا تورعایا اورفریادی مزیدکھجل ہوئے لیکن طوائف۔نادھن۔دھنا پرتھرکتی
ہوئی حضور والاکے پیچھے ہی رہی۔طوائفوں
کو ایوانوں میں جگہ نہ ملی تومنڈیاں آبادہو
گئیں۔حضوروالا آج بھی چم کی چلا رہے ہیں۔وہ
مالک بننےکےلئے نوکرکا پارٹ پلےکر
رہے ہیں۔ایسے نوکر۔جنہیں اپنا شجرہ نسب بنانے کی مہلت بھی نہیں۔انہیں پتہ ہے یہ کام
سیاسی مخالفین کا ہے۔یہاں جھوٹ کا ڈھنڈورا۔اتنا پیٹا جاتاہےکہ سچ لگے۔جھوٹےہرچارپانچ سال بعدہمیں ملتے ہیں۔ہم
ان کا مان سمان کرکےسچا مان لیتے ہیں۔
منیجر( امیدوار
سے):مجھے پتہ ہے کہ تمہارے سی وی پرلکھی ہوئی ہر بات جھوٹی ہے ۔اس لئے میں تمہیں سیلز مین کی نوکری پر رکھتاہوں ۔
پاکستان کے بیشتر سیاستدانوں کی سی وی۔سیلز مین جیسی ہے۔جھوٹی۔سیاست
گر۔وفا کی منڈی کے’وڈے‘بیوپاری ہیں اورہم بے وفائی جنس ہیں۔دنیا میں کئی معاشرےمعاشی کرپٹ ہیں۔ہم سیاسی کرپٹ بھی ہے۔یہاں جرم کی نشاندہی کرنا کےجرم برابر ہے۔ٹیکس
چور۔بلکہ این آراو زدہ معاشرہ۔یہاں مَجھ۔دوسری مَجھ کی بہن ہے۔لٹیرے۔لٹیروں کے
ساتھی۔رشوت لے کر رشوتی مقدمات دبانےوالے اجرتی۔قرضے معاف کرا۔کےمزیدقرضےلینے والےرسہ گیر۔بےکس مقروضوں کی جائیداد
قُرقنے والے گروپ۔یہاں لاٹھی اوربھینس والا قانون ہے۔میں بھی اسی معاشرے کی جنس ہوں۔میں نے کئی
بار دوستوں کی آواز پرلبیک کہہ کےووٹ ڈالا۔پھرجیتنے والوں نے گھاس بھی نہ
ڈالا۔اجناس پھر پک کرتیار ہیں بس سوداگروں
کاانتظارہے۔
یہاں
جس کاہاتھ نہیں پڑا وہ شریف ہےاورجوبچ گیاوہ بے گناہ ہے۔یہ بستی جھوٹ پرقائم ہےلیکن سیاست دان سارے پاوتر ہیں۔دوزخ
خالی پڑی ہے کیونکہ شیطان ابھی زندہ ہیں۔ہم ابلیسی بستی کے باسی ہیں۔جماعت اسلامی
کہتی ہے امریکہ شیطان اعظم ہے۔لیکن
امریکی کہتے ہیں’’ سیاستدان اور
ڈائپرز ایک ہی وجہ سےبروقت تبدل کرلینے چاہیں‘‘۔ امریکہ ہمارے جوتے کی نوک پر۔ہم اسلامی پاکستان کےباسی ہیں۔کلمےکےنام پربننےوالی دنیا کی دوسری اسلامی ریاست کےباسی۔لا الہ اللہ کی بازگشت
سننے کےخواہش مندپاکستانی۔یہاں بننے والی شراب’’اسلامی‘‘ہےاورجُوابھی۔یہاں
اسلامی سود،حلال رشوت اور شرعی کمیشن بھی چلتا ہے۔یہاں ناجائز کوجائز کہنے کامذہبی جوازبھی موجود ہے۔ایک سیاسی دعوت میں اچانک ہنگامہ ہوگیا کیونکہ وزیر صاحب لیگ پیس اٹھا کر
کھاگئے۔
دوسراوزیر:یہ آپ نےکیا۔کِیا؟
وزیر:مرغے کی ٹانگ قبلہ رخ پڑی تھی ۔
’’اسلامی کرپشن نے ہماری خوشحالی کوگروی رکھ چھوڑا ہے۔سیاستدانوں
کےسالانہ گوشواروں میں کرپشن کا خانہ بھی شامل ہو جائےتوبھلا ہوگا۔یہاں کے
لٹیرے اسلامی قزاق ہیں۔قومی سلامتی کےدشمن۔احتساب بیوروکی ’’150میگا کرپشن کیسز
‘‘نامی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع ہو چکی ہے۔وزیراعظم نواز شریف، شہبازشریف،
زرداری،گیلانی، ڈار، پرویز اشرف،شجاعت اورپرویز الٰہی سمیت بڑے بڑےحضوروں کی رپورٹ۔لیکن وہی بے ڈھنگی چال جو
پہلےتھی سو۔اب بھی ہے۔حضوروں کا اقبال
ابھی بلندہے۔چئیرمین نیب کہتےہیں کہ یہاں سالانہ 4380ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہےاورہمارا قرض صرف 70 ارب ڈالرہے۔’’حضوروں‘‘نےخزانہ لوٹ کر375
ارب ڈالر بیرونی بنکوں میں چھپارکھے ہیں۔ثبوت بھی موجودہیں لیکن بلی بغیر گھنٹی
کےپھررہی ہے۔
پاکستان میں ہزاروں
سرکاری وغیرسرکاری سرکھڑکیوں میں پڑے ہیں۔شائد
کھوپڑیوں سےتین چارباربر ج
الخلیفہ تعمیر ہو جائے ۔پاکستان بچپن سے ہی سیاسی اورمذہبی سیاسی تحریکوں کی آماجگاہ ہے۔کارخیرمیں سب کا حصہ حسبِ توفیق ہے۔کچھ
تحریکیں تو منہ کے بل گر یں اور کچھ
کامیاب بھی ہوئیں لیکن انقلاب فرانس نہ آیا۔خربوزوں کی
راکھی گیدڑہم نےخودبٹھائے۔مذہبی سیاست
کرنے والے وزارتیں لے بیٹھے اورسیاست کو مذہب کہنے والےوراثتیں لے کر
بیٹھے۔یہاں کے بلال ہمیشہ حبشی غلام رہیں گے۔یہاں شریف ابن شریف اوربھٹو ابن بھٹو
کا دور ہے،تحریک انصاف اورجماعت اسلامی تو بانجھ نکلیں۔وارث بھی نہ دے سکیں۔
جماعت اسلامی واحد
جماعت ہے جو’’ڈائپرز‘‘والی امریکی
مثال مانتی ہے۔جماعت کی شوری نے ابن مودودی(
حیدرفاروق) کے بجائے پہلاقرعہ میاں طفیل
محمدکے نام نکالا۔پھرقاضی حسین احمد۔سید منورحسن اوراب سراج
الحق ۔جماعت اسلامی کےامیر ہیں
اور دل کےامیربھی۔اتنا بڑا دل کہ ڈاکٹرز
بیماری سمجھنے لگیں۔امیر کا گھرغریب کا ٹھکانہ ہے۔گھرکےگیٹ سےپانی کی بوتل ٹنگی ہے
تاکہ وہ خودبندہوجائے۔سراج الحق 1989میں اسلامی جمعیت طلبہ کےناظم اعلی منتخب ہوئے۔حلف اٹھانےکی باری آئی تو ذمہ
داری کےخوف سے رو۔روکرنہال ہو گئے۔پروفیسر
خورشید اور سیدمنورحسن نے حوصلہ دیا۔وہی
سراج الحق آج جماعت کے امیرہیں۔آج بھی وہ۔ جی تھری نہیں
تھری جی کی بات کرتے ہیں۔انہوں نےپڑھائی کا خرچہ چرواہا بن کراٹھایا اورہوسٹل کی فیس مزدوری کرکے
ادا کی۔کئی بارالیکشن جیتا ۔وزیر خزانہ بھی رہے۔غیرملکی دوروں پرمہنگے ہوٹلوں کے
بجائے مساجد میں سورہے۔فٹ پاتھ پر بیٹھ کر نان چنے کھانے والے امیر۔سراج
پاکستانی سسٹم
میں سب سے شفاف دِکھنےوالی چیز کرپشن ہے۔اور یہ پوشیدہ نہیں برہنہ ہے۔برہنگی کا راستہ جماعت اسلامی روکنا چاہتی ہے۔سراج
الحق نے یکم مارچ 2016سےکرپشن فری پاکستان
مہم شروع کررکھی ہے۔وہ کہتے ہیں حکومت
مالی، اخلاقی اور نظریاتی ساری کرپشن میں
ملوث ہے۔نیب کےپر اور ناخن نہ کاٹے
جائیں۔ مہم کا ہدف کرپٹ نظام اور کرپٹ اشرافیہ
کا خاتمہ ہے۔وہ بھی اربوں لوٹنے کی بات کرتے ہیں۔کہتے ہیں قومی ادارے یوں بکے جیسے
کمہارگدھےبھی نہیں بیچتا۔ کرپشن مخالف
مہم31مارچ تک جاری رہے گی۔آگاہی واک اورموٹرسائیکل ریلیاں ہوں گی۔ کیمپس بھی
لگائے جائیں گے۔ایک کروڑ افراد سے دستخط
لئے جائیں گے۔
استاد:پاکستان ایک دن کرپشن فری ہو
جائے گا ۔ یہ کون سا Tense ہے۔؟
طالبعلم: Future
impossible tense.
طالب علم کاجواب اپنی جگہ۔لیکن مولانا رومی کہتے ہیں کہ’’میں نے بہت سے انسان
دیکھے ہیں جن کےبدن پرلباس نہیں ہوتا اوربہت سےلباس دیکھے ہیں جن کےاندرانسان
نہیں ہوتا‘‘۔ہمارے ہاں بھی لباس کی بہتات
اورانسانوں کا انحطاط ہے۔میری آواز جماعت اسلامی کی آوازمیں شامل ہے۔انسدادکرپشن مہم کا میں ادنیٰ
مجاہدہوں۔لیکن احتساب کا
بِیڑاصرف جماعت کیوں اٹھائے۔حضورِوالا کا
اقبال سر نگوں کرنے کا قلعہ صرف سراج کیوں
سرکرے۔؟جماعت اسلامی کی ڈیڑھ اِٹی مسجد
میں توسیع کب ہو گی۔؟ایک کروڑدستخط جانے کب
پورے ہوں گے؟۔میں نےتودستخط کر دئیے ہیں۔ضمیر فروشوں کی
منڈی سے ایک جنس کم ہوگئی ہے۔طوائف بھی تماش بینوں کےچُنگل سےنکل آئے تو سوادآجائے۔!
بجا فرمایا حضور
جواب دیںحذف کریںاحتساب کا بِیڑاصرف جماعت کیوں اٹھائے
کرپشن نے اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کردیں صرف صفائی نہیں بلکہ نحل صفائی ہو تو کام بنے
*بھل صفائی
جواب دیںحذف کریں