اندرون شہروں کے بل کھاتے محلوں میں اکثر پھپھے کُٹن
ماسیاں ہوتی ہیں ۔جو کیبل کی طرح ہر گھر میں جاتی ہیں ۔ جنہیں گھریلو راز۔وائی
فائی کے سگنل کی طرح با آسانی مل جاتےہیں۔زچگی سے بچگی تک۔ دن رکھنے
سےدن پھرنے تک کے سگنل۔۔ وہ رشتے ایلفی کی طرح جوڑنے اور شیشے کی طرح توڑنے کی
ماہر ہوتی ہیں۔محلوں کی لڑائیوں اور شناسائیوں ۔سمیت کئی سماجی خدمات ماسیوں کے دم
سے قائم ہیں۔ہمارے محلے کے لونڈوں،
لفینٹروں نے ماسی کانام گوگل
رکھا ہوا ہے۔اورسوشل سروس کے
اعتراف میں ماسی کے چاروں بچوں کےنام بھی سوشل میڈیا سے منسوب ہیں۔ بڑی بیٹی ’’وٹس ایپ‘‘ہے۔منجھلی۔ ماں کی کاپی ہےاسے ’’گوگل
پلس‘‘کہتے ہیں۔چھوٹی ’’ یوٹیوب ‘‘ہے اور بیٹا ٹوئیٹر۔
فرصت کے لمحوں میں ماسی۔بیچ
چوراہے پڑے منجھے پر بیٹھ کر منگ پتہ بھی کھیل لیتی ۔اسی بیٹھک میں کئی کوڑے۔ بابے بھی ہوتے ہیں۔جنہوں نے
ماسی کی گالیوں کو ریفائن کردیا ہے ۔پنجابی۔سخن
وری کے دوران ماسی کا جہاں سانس ٹوٹتا۔ کچھ جانے پہچانے اعضا سنائی دیتے ۔وگرنہ
ماسی تو ۔
چُولے وچ پینا۔ گولی لگنا۔ٹوٹ پینااور کھسماں نوں کھانا جیسی گالیاں تہذیبی
پیرہن میں لپیٹ کردیا کرتی تھی۔اب تووہ شہاب نامےکی خانم بن چکی
ہے۔’’ملکہ دشنام‘‘۔جس کے شوہر( آغا صاحب) کواپنی بیوی کی گالیوں پرفخر تھا ۔
’’آغا صاحب بولے۔ایک بار سر ی مہاراجہ
بہادر نے چشمہ شاہی پر گالی گلوچ کا بڑا شاندار ٹورنامنٹ کرایا۔ مہاراجہ پٹیالہ،
مہاراجہ الور
، نواب آف پالن
پور، مہاراناجھالا دار سب موجود تھے۔
گالیوں کا مقابلہ شروع ہوا۔ سب نے اپنے اپنے جوہر دکھائے ۔ لیکن ٹرافی ہماری خانم
نے جیتی۔ گالی پوری ڈیڑھ منٹ دراز تھی‘‘۔نندہ
بس سروس۔شہاب نامہ سے اقتباس ۔
گالی وہ مافی الضمیر ہے جو خبث کو۔قے (الٹی)کی طرح باہر
نکال پھینکتی ہے۔گالی ۔انسانی تربیت،سماجی میلاپ اورانفرادی ذوق کا عملی ثبوت ہوتی ہے ۔خواہ تہذیبی پیرہن میں ہی لپٹی کیوں نہ ہو۔ کامل اسے سمجھا جاتا ہے جومہاراجہ پٹیالہ
اورنواب آف پالن پور کے سامنے ڈیڑھ منٹ دراز ’’قے ‘‘کرلے۔بقول مشتاق احمد یوسفی
صاحب’’ گالی مادری زبان میں ہی لطف دیتی ہے‘‘۔ممکن ہے خانم اسی وجہ سے جیتی ہو۔لیکن میرا
دوست شیخ مرید کہتا ہے کہ ہم سوچتے بھی مادری
زبان میں ہیں اور خواب بھی اِسی زبان دیکھتے ہیں۔
بیوی :تم سوتے
ہوئے مجھے گالیاں دے رہے تھے۔
شوہر:یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔
بیوی: کیا غلط فہمی ۔؟
شوہر :یہی کہ میں سو رہا تھا
گالیاں۔ مادری زبان میں ہوں یافارمی۔ ادب سے
گہرا تعلق ہے۔اسی لئے گالیاں بکنے والے کو بے ادب کہا جاتا ہے ۔لیکن شیخ مرید کہتا
ہے کہ گالیاں ایسی ہونی چاہیں جنہیں سن کر
دماغ کی بتی۔ہنگامی الارم کی طرح بجنے
لگے۔ کان سُرخوں کے جھنڈے جیسے لال ہو جائیں۔جنہیں مکھن میں بال کی طرح لاشعور سےنکال کر شعورمیں لایا جا سکے۔سعادت
حسن منٹو کے افسانے ٹھنڈا گوشت میں ایشر سنگھ
کی اردوگالیاں اسی لئے ٹھنڈی ٹھنڈی تھیں کیونکہ سکھ پنجابی میں
سوچتے ہیں۔یہ دشنام طرازی تو ہے۔ لیکن لطفِ
خانم کہاں۔ ؟ اب دیکھو بھلا ۔’’تین غنڈے
‘‘میں کرشن چندر کے کردار عبدالصمدنےجو گالی دی ہے۔’’تیری ماں کے دودھ میں حکم کا اِکا‘‘ ۔ بالکل
ہی بے سرو پا ہے۔عبدالصمدسے توبانو قدسیہ کا عزیز گاتن اچھا نکلا۔ ماسی الفت کا
بیٹا۔۔جس کی باتیں سن کر کان سرخوں کا جھنڈا بن جاتے۔اوردماغ کی بتی ٹمٹمانے لگتی۔
’’عزیز
گاتن کا اوپر والا ہونٹ پیدائشی کٹا ہوا تھا۔ اسی لئے وہ ہمیشہ ہنستا دکھائی دیتا۔
وہ چھوٹی عمر سے ہی غلیظ باتیں سننے کا عادی تھا۔ پرانے بھٹے کے پاس جہاں مائی
توبہ توبہ کی جھونپڑی تھی۔ وہاں مجھے لے کر وہ ایسی ایسی گالیاں سکھاتا کہ ان کے
معنی نہ سمجھتے ہوئے بھی کان جلنے لگتے‘‘۔ راجہ گدھ سے اقتباس
گالی
عداوت اور بے تکلفی کے اظہار کا یکساں ذریعہ
ہے۔ حتی کہ ایک ہی گالی دوالگ الگ لہجوں میں الگ الگ پیغام دیتی ہے۔ لیکن عداوتی گالیاں خانم جتنی لمبی اور۔بے تکلف
گالیاں ماسی گوگل جتنی مختصربھی ہو سکتی
ہیں۔کان جلانے والی۔ایسی گالیوں کا مرکزی خیال رشتہ دار ہو تے ہیں۔شاعری
کے دیوتا مرزا غالب کو کسی نے خط میں ماں
کی گالی لکھ کر بھیجی تو مرزا بہت ہنسے اور بولے’’ اس بیوقوف کو گالی دینے کا بھی
شعور نہیں۔ بوڑھے کو بیٹی کی گالی دینی چاہیے تاکہ غیرت آئے۔ جوان کو ۔ جورو کی
گالی دو کیونکہ اسے جورو سے لگاؤ ہوتا ہے اور بچہ ماں سے مانوس ہوتا ہے اسےماں کی گالی دیتے ہیں اور مجھ جیسے بوڑھے کو
ماں کی گالی دینے والا پاگل ہی ہوگا‘‘۔مرزا نے گالی کا جونصاب مقرر کیا ہے۔وزیر
مملکت عابد شیر علی بھی اسی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔
ایک چور کی بیوی سے اس کی سہیلی نے پوچھا:تمہارے خاوند نے اس بار شادی کی سالگرہ پر کیا تحفہ دیا۔؟
بیوی: خاک بھی نہیں دی۔وہ تحفہ لا رہے تھے کہ راستے میں ہی پکڑے گئے۔
بیوی: خاک بھی نہیں دی۔وہ تحفہ لا رہے تھے کہ راستے میں ہی پکڑے گئے۔
ایان
علی بھی راستے میں ہی پکڑی گئی تھی۔وہ تقریبا ڈیڑھ سال سے ’’مائی توبہ توبہ کی جھونپڑی‘‘ میں ہے۔دبئی میں آج بھی تحفوں کا انتظار ہے۔لیکن عابد شیر
علی نےاچانک عزیز گاتن جیسی باتیں شروع کر دی ہیں۔جنہیں سن کر سرخوں کے ’’سُرخیل‘‘
بلاول زرداری سمیت ساری پیپلزپارٹی کے کان جلنے لگے ہیں۔عجب مخمصہ سا ہے کہ گالیوں کی طرح ملکی سیاست کا مرکزی خیال بھی اب رشہ داریاں
ہیں۔لیکن منہ بولی ۔سیاست میں رشتوں کی ابتدا بلاول زرداری نے کی ۔جسے۔کوڑے بابے ’’عابدشیرعلی
‘‘نے انتہا تک پہنچایا۔ بلاول نے چا چا عمران، انکل الطاف، انکل پا شا جیسے رشتہ دار بنائے۔لیکن ۔چاچا عمران کو کہا
سیاست اور عقل عمر کی قیدسے آزاد ہوتی ہے۔انکل الطاف کو غدار کہا۔انکل
پاشا پرچچا عمران کی مدد کا الزام لگایا اور انکل
نوازشریف کو مودی کا یار کہا۔بھائی عابد شیر علی کو’’وزیربد اخلاقی ‘‘ قرار دیا اور کہا گیا کہ وہ اپنی ’’ماسی ‘‘کی بیٹی کی آف
شور کمپنیوں بچانےکو بےقرار ہیں۔’’ خانم‘‘ مقابلہ
جیتنے کی پوزیشن میں آ رہی تھی۔اورمخالفین کےکان سرخ ہو رہے تھے۔
’’ڈاکٹر
صاحب! آپ نے مجھے ڈائٹنگ پلان دیا ہے کافی
سخت ہے ۔میں غصیلی اور چڑچڑی ہو گئی ہوں ۔ کل میری اپنی شوہر سے لڑائی ہو گئی۔ اور میں نے ان
کا کان کاٹ کھایا ‘‘۔
ڈاکٹر:فکر کی کوئی بات نہیں۔ محترمہ۔’’ایک
کان میں سو حرارے ہوتے ہیں۔
عابد
شیرعلی کوبھی حراروں کی ضرورت ہے۔بلاول نے توچاچا عمران۔ تایا فضل
الرحمن، انٹی۔کشمالہ۔اور ملالہ۔ کےرشتے گنوائے تھے۔ جن میں عابدشیرعلی نے انٹی
ایان۔انٹی فریال۔انکل ٹپی اورانکل
شرجیل کا اضافہ کیا ہے۔سری مہاراجہ بہادرکا گالی گلوچ ٹورنامنٹ ابھی تک جاری ہے۔خانم بننے
کی دوڑلگی ہے۔سیاسی استعاروں میں ہمدردی جتائی جا رہی ہےبلاول کوشادی کرکے اپنے گھرسدھارنے کامشورہ دیا جا رہا ہے۔ملکی
سیاست چوراہے میں پڑے منجے کی طرح ہے۔ جہاں سارے بے ادب سیاستدان انجانے میں ادبی
گفتگو کرتے ہیں۔سعادت حسن منٹو کے ایشر سنگھ، بانوقدسیہ کےعزیز گاتن اورکرشن
چندر کےعبدالصمدوالی زبان میں گفتگو۔بے
سرو پا سیاست۔پھپھے کٹن سیاست۔ماسی گوگل والی زبان میں جو۔مسلسل ریفائن ہورہی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں