ہفتہ، 30 جولائی، 2016

دوسری بیوی پرٹیکس نافذ

مریدنے جب بھری محفل میں دوسری شادی کرنے کااعلان کیا تو ہم ہکا بکا تھے کہ یہ  کنجوس۔دو خرچے کیسےاٹھائےگا۔ ؟اوپر سےتھا بھی شیخ ۔مکھی چوس۔آخر حالات نےثابت کیاکہ وہ پیدائشی شیخ تھا کیونکہ  وہ پہلی بیوی سےہی دوسرا بیاہ کررہا تھا۔ حالانکہ طلاق بھی نہیں ہوئی تھی۔یہ تھلے لگنےکی انتہا تھی۔ نصیبو ڈھیروں جہیز لائی تھی اور وہ اُس  پرکُنڈلی مارے بیٹھا تھا۔اُس شیخ دے پترکےپاس۔ پرانی بیوی سےنئی شادی کا جواز بھی تھا۔کہتا تھاکہ نصیبو۔لاج کی وجہ سے پچھلی بار ٹھمک نہیں سکی تھی۔اُسی رِیجھ کو پورا کرنےکےلئے نئی شادی کررہے ہیں۔یہ کلیہ شادی بٹا شادی برابرایک شادی جیسا تھا۔تاریخ پکی ہوتےہی وہ چھم چھم ناچتی پھرتی۔ گانوں کی نئی سی ڈی تیار کروائی۔ مرید کو’’بسمہ اللہ کراں‘‘پسند تھااور نصیبو نے’’شیلا کی جوانی‘‘پر پاؤں سیدھے کئے تھے۔

ہفتہ، 23 جولائی، 2016

آل پاکستان رن مرید ایسوسی ایشن

یہ سائنسی دور ہے اور ہر چیز کو ماپنے کا پیمانہ بھی سائنسی ہے۔حتی کہ پیار کی پیمائش بھی لو (love) کیلکولیٹر سے ہوتی  ہے۔مُحب اور محبوب کا نام  فیڈ کریں تو کلیکولیٹر فٹ بتائے گا کہ شرحِ پیار کتنی ہے۔؟۔سائنسی شرح نمو کم رہےتو فہرستِ عاشقاں سے مزیدنام کیلکولیٹر میں فیڈ کرتے جائیں۔حتی کہ معاملہ نوے، پچانوے  تک نہ پہنچ جائے۔پھر زبردستی کے ’’تعلقات‘‘ استوارکر لیں۔ویسے بھی ماڈرن عشق چائنا کے مال کی طرح غیر معیاری اور ناقابل بھروسہ ہو چکاہے۔۔گئے وقتوں میں عاشق پھول کی پتی پتی توڑ کرhe love me and he love me not سےوفا جانچتے تھے۔

ہفتہ، 16 جولائی، 2016

سوال 700 کروڑ ڈالر کا۔۔۔ ؟

عید الفطر پر پاکستان میں ایک فلم ریلیز ہوئی ۔’’ سوال سات سو کروڑ ڈالر کا‘‘۔ فلم کی کہانی  دو پروفیشنل چوروں کے متعلق ہے جن میں سے ایک  کمپیوٹر چپ چوری کرتے پکڑا جاتا ہے۔چور کی  جیل منتقلی کے دوران وین دریا میں گرجاتی ہے۔ پولیس اسے مردہ سمجھنے لگتی ہے۔ دوسرا چور  ایک سمگلر کا قیمتی ہیرا۔اور 700 کروڑ ڈالر چرانےکا منصوبہ بناتا ہے۔سمگلر نےساری دولت بینکاک میں چھپا رکھی  ہے۔خان۔نام کا ایک  پولیس آفیسرچورکوپکڑلیتا ہے۔ ڈرامہ، ڈانس اور عشق کےعلاوہ فلم کی ٹوٹل کہانی اتنی ہی ہے۔ملک میں جن دنوں’’سوال سات سو کروڑ ڈالر کا‘‘ ریلیز ہوئی اس کےچنددن بعدایک اور سوال اٹھا’’30 کروڑ روپے کا‘‘۔یہ کہانی بھی کافی فلمی ہے۔اور سوال پورے سرکٹ میں کھڑکی توڑ جا رہا ہے۔بلکہ یوں لگتا ہے ۔سوال سات سو کروڑ ڈالر کا۔پولیس آفسیر’’خان ‘‘۔اور 30 کروڑ روپے کا حساب  مانگنے والا خان ایک ہی  شخص ہے۔ سوشل میڈیا پرآج کل ایک سیاسی لطیفہ کافی ہٹ ہے کہ۔

جمعہ، 8 جولائی، 2016

قدم بڑھاؤ۔قندیل بلوچ

مسلم لیگ ن کا ایم پی اے میاں طاہر جمیل میرا پکا دوست ہے۔ اتنا پکا جتنا جھولی میں گرنے والا پھل ہوتا ہے۔پکا ہوا پھل ہمیشہ ٹوٹ کر گرتا ہے ہماری یاری بھی کئی بار  پک کر ٹوٹی۔ تب میں اس کے  لئے’’ہوئے تم دوست جس کے‘‘ والا شعرباربارپڑھتا ہوں۔ہماری دوستی میں کئی نشیب آئے لیکن ’’فراز‘‘سارے طاہر جمیل کے حصے میں آئے۔دوستی کی پگ ہمیشہ اس کےسرپررہی اوردشمنی میں بھی اسی  کا شملہ اونچا  رہا۔آسان لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ وزیرمملکت پانی و بجلی عابدشیرعلی اس کی پگ ہےاور صوبائی وزیرقانون رانا ثنااللہ ’’شملہ‘‘۔اسی لئے پگ اورشملے کوچھوڑکرجب قندیل بلوچ نےمفتی قوی کی ٹوپی پہنی تواسےبرا لگا اورجب مولانا فضل الرحمن نےپنجاب اسمبلی کو زن مریدکہا تومیاں طاہر جمیل نےقرارداد جمع کروا کرثابت کیا تھاکہ وہ حقوق مرداں کاعلم برداربھی ہے۔

منگل، 5 جولائی، 2016

کوئی شرم ہوتی ہے ۔۔؟

دودھ میں مینگنیاں ڈالنا ۔۔ بظاہر بہت بھدی سی  کہاوت  ہے ۔ لیکن  معنی کے اعتبارسےاس کہاوت نے کوزے میں دریا قیدکر رکھا  ہے۔یعنی ’’کسی کام کو بدنیتی سے کرنا‘‘۔ہمارے گھروں  کی خادمہ ہو یا سرکاری  خدام بلکہ سیاسی   خادم اعلی تک ۔بہت سے لوگ اکثر کام مینگنیاں ڈال کر تے ہیں ۔احساس ندامت چھپانے کا ڈھنگ بھی اسی محاورے میں مدفن ہے۔ دودھ میں مینگنیاں ڈالنا دانستہ فعل  ہے۔ وگرنہ دودھ تو ایسا جنتی میوہہےجس میں دوزخی  مینگنیوں کی ملاوٹ  ممکن ہی نہیں۔دودھ پینے کا ایک شوقین  منڈی پہنچا اورپوچھا:یہ بھینس کتنے کی ہے۔ ؟
کسان:1 لاکھ کی ۔روزانہ 10 لیٹر دودھ  دیتی ہے اورکٹا بھی ساتھ ہے۔
گاہک:اور یہ والی۔؟