مریدنےدفتر سے اپنی دلہن کو فون کیا :سنو امی آ رہی ہیں۔
کچھ بنا لینا۔ دلہن نے منہ بنا لیا۔مریددفترسےگھرپہنچا توامی کا منہ بھی بنا ہوا
تھا۔ہوٹل سےکھانا منگوایا۔ماں کورسوئی میں اور دلہن کوبیڈروم میں
پیش کیا۔رات بھرامی سےباتیں کیں ۔تازہ صبح بیدارتوہوئی لیکن دلہن کا منہ
رات سےباسی تھا۔مریداپناسامنہ لےکردفترچلا
گیا۔پنجاب حکومت کانصابی نعرہ ’’مار نہیں پیار‘‘مرید نے اپنے گھرپرلاگو کررکھا تھا کیونکہ گھرانسان کی پہلی درس گاہ ہوتا
ہے۔
مغل شہنشاہ اکبرکےنورتن میں سے سرفہرست ابوالفضل تھا۔جس
نے اکبرکویقین دلایا کہ آپ علما سے زیادہ بہترمذہب
جانتے ہیں۔اسی خوش فہمی میں اکبر نے دین الٰہی متعارف کروادیا ۔سورج، گائے، آگ اورپانی کی پوجاکرنا،ماتھے پرقشقہ (زعفران یا صندل
سےدو نشان) بنانا،سود،جوااورشراب نوشی کی اجازت ،داڑھی پرپابندی ،بادشاہ کوسجدہ تعظیم،شیطان پورہ(
بازارحسن)کا قیام اورختنہ پرپابندی جیسی رسومات دین الہی کا حصہ تھیں۔اکبرکا خیال
تھا کہ روح کھوپڑی کے درمیان سےنکلتی ہے اسی لئے وہ صرف سرکے درمیانی بال کٹواتا
تھا۔
کھوپڑیاں انسانوں کومیٹرکردیتی ہیں۔مرید نےیوم تولیدسےشب
عروس تک ہرسبق ماں سےسیکھا تھا۔وہ رونے کاہنرلےکر پیدا ہوا اور بولنا سیکھنے تک
صرفرو،
روکرہی بات کرتا تھا۔شادی ہوئی توگونگابھی ہوگیااور۔روہانسابھی۔نصیبوجس روزحجلہ
عروسی میں آئی۔توماں۔مریدکی زندگی سے نکل گئی۔وہ شوہرگریزعورت شادی کی انگوٹھی غلط(درمیانی)انگلی میں اس لئےپہنتی
تھی کیونکہ شادی غلط آدمی سے ہوگئی تھی۔مریدکوجگ راتا تھا۔دفترمیں جلد ہی سوگیا۔اچانک باس آگئے۔ڈانٹ ڈپٹ کی اور بولےجہنم
میں جاؤ۔مرید گھرچلاآیا۔
نصیبو:اگرمیں تین چار دن تمہیں نظرنہ آؤں تو کیسا لگے گا۔؟
مرید: بہت اچھا ۔J
نصیبو پھرہفتہ سے منگل تک نظر نہیں آئی۔ بدھ کومرید کی آنکھوں
کی سوجن اتری تو تھوڑی تھوڑی نظر آئی۔
یہ لطیفہ نہیں حقیقت ہے۔مردجانتے ہیں کہ شوہراوربیوی پربننے
والےلطیفے۔لطیفےنہیں ہوتے۔شوہروں کی زندگی بالکل راحت کے گانے’’تیری آنکھوں کےدریا کا اترنا بھی
ضروری تھا ۔محبت بھی ضروری تھی بچھڑا بھی ضروری تھا ‘‘۔جیسی ہوتی ہے۔کہتے ہیں کہ جورن مریدنہیں۔ یا تووہ
جھوٹا ہے یا پھرشوہرنہیں۔شادی ایسی ورکشاپ ہےجہاں شوہرورک پرہوتے ہیں اوربیوی
شاپ پر۔شادی خواہ کزن سےہی ہوجائے۔بلڈ کا رشتہ بھی بلڈ پریشربن جاتا ہے۔پھرڈسپرین کی ٹی وی کمرشل
کی طرح بیوی کی ہربات ’’سردرد۔سردرد‘‘سنائی دیتی ہے۔ایسےشوہرنام کےمریدنہ بھی ہوں
کام کےمریدضرورہوتے ہیں۔جبری مرید۔جو شادی کےخرکارکیمپ میں جبری مشقت کرتےہیں۔شوہرکہیں شیخ مریدہیں،کہیں میاں مرید،کہیں مریدجٹ اورکہیں
رانا مرید۔
بیوی :شکر ہےآپ گھرآگئے
شوہر:کیوں۔کیا ہوا۔؟
بیوی :باہرگلی میں بہت شورتھا کہ کوئی رن مرید گڑمیں گرگیا
ہے
شوہر:فٹےمنہ تیرا۔ رن مرید نہیں۔ لوگ رانا مرید کہہ رہے
تھے۔
کہتے ہیں کہ خواتین کو رنگ نکھارنے والی کریم اور شیمپوبیچنے
والوں کےعلاوہ کوئی بیوقوف نہیں بنا سکتا۔نصیبوبھی اتنی ہے بے وقوف تھی۔ شوہر کی کمائی کا زیادہ حصہ فضول خرچی میں اڑا دیتی تاکہ وہ دوسری
عورت کا سوچے بھی ناں۔نصیبو کی یہ دانائی ایسی آرزوکو
توڑنے کےلئےتھی جومریدنےکبھی باندھی
بھی نہ تھی۔بالکل گانے کے دوسرےشعر’’ضروری تھا کہ ہم طواف
آرزو کرتے۔مگرپھرآرزوں کا بکھرنا بھی ضروری تھا‘‘۔کی طرح ۔۔مرید سماج میں عورتوں
کی برابری کا علمبردارتھا کیونکہ اس کی عورت بہت آگےنکل چکی تھی۔ساس آتی توجی جی کرتا پھرتا۔وہ جنمی ماں کوامی اورساس کو
امی جی کہتا۔ابا اورسسرپر بھی یہی فارمولہ ایپلائی کرتا۔بیوی مرشدکےمرتبے پرفائزتھی ۔تبھی تووہ اپنے مرید کواے جی کہہ کربلاتی’’ابھے گدھے۔‘‘
مرید ایک باراونٹ کا گوشت لایا۔خود پکایاتو اچانک بچے ضد
پکڑگئے:ابا یہ کس جانورکا گوشت ہے۔؟
باپ نے بہت ٹالا آخربولا۔ یہ اس جانورکا ہے جوکبھی
کبھارآپ کی امی مجھے کہہ کربلاتی ہے۔J
بچے چیخ اٹھے۔اوئے نہ کھانا۔ گدھے کا ہے۔
ایسےبےبس مریدوں کےلئےقانون سازی درکارتھی لیکن پنجاب اسمبلی بھی پوری نصیبو نکلی۔تحفط
حقوق مرداں کے بجائے۔حقوق نسواں کابل پاس کردیا۔اب پنجابی
خواتین پرتشدد، نفسیاتی وجذباتی دباؤاورمعاشی استحصال نہیں ہوسکے گا۔تشددپسندوں کوعدالت
خواتین سے دوررکھ سکے گی۔انہیں جی پی ایس ٹریکنگ بریسلٹ پہنا کر دو دن گھرسےنکالاجاسکے گا ۔’’کڑا‘‘ اتارنے پرمزید ایک سال سزا ہو گی۔مرد۔خاتون کو بے گھربھی نہیں کرسکے گا۔
دین اکبری کاخالق ۔۔ابوالفضل قتل ہوگیاتھا۔علما نے شہنشاہ
کومرتدقراردے دیا ۔دین اکبری ۔اکبر کے ساتھ ہی چل بسا۔ آج اسلامی نظریاتی کونسل
کےسربراہ مولانا شیرانی اورجے یو آئی ف کےسربراہ مولانا فضل الرحمن۔خواتین
بل کی مخالفت کر چکے ہیں۔مولانا فضل
الرحمن ’’1973کےآئین کے تناظر میں‘‘عمران خان کوووٹ دینا بھی حرام کہہ چکےہیں اور
مولانا شیرانی تو پہلی بیوی کی اجازت کےبغیردوسری شادی کے حامی ہیں۔مجھ کُندذہن
کوتو ایسے بیانات ۔سےسعادت حسن منٹو کا
افسانہ’’نیا قانون‘‘یادآتا ہے۔
مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ ’’پنجاب اسمبلی زن مریدوں کا گھرہے۔ پنجابی شوہر مظلوم اوران کامستقبل خوفناک نظرآ رہا
ہے۔وزیراعلی پنجاب۔ خادم اعلی اس لئےہیں کیونکہ وہ اپنے گھرکے خادم اعلیٰ ہیں۔ایسے
بل کوہماری
زبان میں زن مرید کہتے ہیں۔ممبران اسمبلی اگر سیدھا سیدھا مرد کوعورت اورعورت کومرد
کہہ دیتے تو زیادہ اچھا ہوتا۔
آج کل مولانا اوربعض لیگی وزرا بیانات سے انتاکشاری کھیل
رہے ہیں۔لیکن مجھے لگتا ہے کہ 1973 کےآئین کے تناظر میں پنجاب کا ہرایم پی اے اب ممبر آف زن مرید اسمبلی ہے۔لیگی ایم
پی اے میاں طاہر جمیل زنانہ بل پر
مولانا کے ردعمل کا ۔مردانہ واردفاع کر
رہے ہیں۔انہوں نےزن مرید کہنےپرتحریک استحقاق جمع کرادی ہے اور مولانا سے معافی
کا مطالبہ بھی کیا ہے۔دعوی ہے کہ پورے ایوان کا استحقاق مجروح
ہواہے۔اسلامی نظریاتی کونسل نےحقوق نسواں بل کو مستردکر کےپنجاب اسمبلی کوکفارہ ادا کرنےکی ہدایت کی ہے۔صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ نےاس بل میں اپنا حصہ یوں
ڈالا ہےکہ’’قانون پہلے پاس ہوجاتا توعمران خان کوکڑابھی لگ سکتا تھا‘‘۔مجھے
توگانےکے اگلےمصرعے یادآ رہےہیں۔’’مگر
اب یادآتا ہےوہ باتیں تھیں محض باتیں۔۔کہیں باتوں ہی باتوں میں مکرنابھی
ضروری تھا‘‘۔
پنجاب میں جانے کون ساابوالفضل تھا۔جس نے شہنشاہ کو تحفظ
حقوق نسواں کا مشورہ دیا۔حالانکہ ضرورت تو’’ تحفظ حقوق مرداں‘‘بل کی تھی۔وہی مرد
جوعورت پرہاتھ اٹھائے تو ظالم ۔پٹ جائےتو بزدل۔عورت کےسامنے بولےتوبدزبان۔چپ رہے تو بےغیرت۔گھر سےباہررہےتوآوراہ۔گھرمیں رہےتوناکارہ۔ماں کی
مانے تو چمچہ اوربیوی کی مانے تو جورو کا غلام۔آخری اطلاع تو یہ ہے کہ مولانا
کےخلاف تحریک استحقاق کوحکومتی سطح پر دبا دیا گیا ہے کیونکہ مولانا کی حکومت
کو ضرورت ہے۔ پنجاب اسمبلی شائد اب زن مرید ہی رہےگی۔زن مریداسمبلی کےممبران استحقاق بھی
مجروح رہے گا اورجذبات بھی۔جبکہ گانےکےآخری بول ہیں۔’’تیرے دل کے نکالے ہم، کہاں
بھٹکے ، کہاں پہنچے۔۔مگربھٹکےتویادآیا بھٹکنا بھی ضروری تھا‘‘۔
کہتے ہیں کہ جورن مریدنہیں۔ یا تووہ جھوٹا ہے یا پھرشوہرنہیں۔شادی ایسی ورکشاپ ہےجہاں شوہرورک پرہوتے ہیں اوربیوی شاپ پر۔شادی خواہ کزن سےہی ہوجائے۔بلڈ کا رشتہ بھی بلڈ پریشربن جاتا ہے۔پھرڈسپرین کی ٹی وی کمرشل کی طرح بیوی کی ہربات ’’سردرد۔سردرد‘‘سنائی دیتی ہے۔ایسےشوہرنام کےمریدنہ بھی ہوں کام کےمریدضرورہوتے ہیں ، بہت کمال لکھتے ہیں آپ ، کیا کہنے ، پہلی نظر میں ہی آپ کی تحریر سے محبت ہو جاتی ہے
جواب دیںحذف کریںبہت شکریہ رمضان بھائی ۔۔۔ میں اس سے بھی زیادہ اچھا لکھنے کی کوشش کروں گا
حذف کریںاللہ کرے زور قلم اور زیادہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب دیںحذف کریںکمال کر دیا ملک جی
بہت شکریہ۔۔۔ دیکھ لیں آپ کا لگایا ہوا پودا ہے۔۔۔ اور رفتہ رفتہ تناوری کی طرف بڑھ رہا ہے۔۔ شکریہ
حذف کریںایک اچھی تحریر
جواب دیںحذف کریںچھوٹے منہہ سے ایک مشورہ ہے ۔۔۔۔ تہمید باندھنے کی بجائے تھوڑے الفاظوں میں مطلب بیان کرنا بلاگنگ کی اصل روح ہے ۔۔۔۔
ایک اور چیز جو بڑی اہم ہے کہ ایک موضوع کے درمیان دوسرے موضوعات کو اس جیسا بنا کر بیچ میں نہ گھسیڑا جائے ۔۔۔ ٹو دی پوائنٹ اور کھلی ڈُلی بات کی جائے ۔۔۔۔۔ میری ذاتی رائے میں اس تحریر کو میں ایک اچھا مضمون تو کہہ سکتا ہوں مگر بلاگ کی تحریر نہیں ۔۔۔
شائد بلاگنگ کا کوئی اسلوب اور طرز بیان بھی ہو گا۔۔۔ مجھے تو ہر لکھاری کی اپنی اپنی اختراح نظر آتی ہے۔۔۔ آپ نے جو کہا وہ یقیننا اہم ہے۔۔۔ میں کوشش کروں گا آئندہ سے ویسا ہی ہو۔۔ جیسا آپ کی رائے ہے۔۔ شکریہ۔۔۔
حذف کریںبہت بہتر کہا سر آپ نے۔۔۔۔ خصوصاً سعادت حسن منٹو کے "نیا قانون" کا ذکر کر کے آپ نے حقوق نسواں بل کا مستقبل بھی سب کے سامنے رکھ دیا۔ کیونکہ قانون بنانے والوں کے گھروں میں تو یہ قانون پہلے سے ہی نافذ ہے لیکن عام عوام کے لیے اس قانون پر عملدرآمد تو قانون و انصاف کے انہی اداروں نے کروانا ہے جو پہلے ہی ایک تماشائی کی حیثیت سے ہمارے ساتھ ہی اگلی سیٹوں پر بیٹھ کر ہر "نئی معاشرتی فلم" سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔محمد امین ۔۔۔۔۔۔
جواب دیںحذف کریںواہ محمد امین مجھے کسی بھی پڑھنے والے سے ایسے تجزئیے کا انتظار تھا جو آپ نے لکھ بھیجا ہے۔۔۔ پڑھ کے اچھا لگا کہ آپ کو اچھا لگا
حذف کریںتبصرے کو تجزئیے کا درجہ دینے کے لیے بہت شکریہ سر۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کے اگلے شاہکار کا انتظار رہے گا۔
جواب دیںحذف کریں