بچپن
میں ریلوے اسٹیشن یا لاری اڈا کی طرف جب بھی جانے کا اتفاق
ہوتا۔ وہاں اکثر مداری مجمع لگا ہوتا۔
مجمعے بار بار دیکھ کرمجھےگیان ہونے لگاتھا کہ’’مداری اب کیا کرےگا‘‘۔مداری ہاتھوں کے ہنر اور زبان کے چتر سے ایساجادو کرتا کہ ’’تاثیر‘‘ روح تک اتر جاتی۔لیکن اچانک دل اچاٹ ہوگیا۔اب جستجو رہتی کہ مداری کے ہاتھ کی صفائی اور زبان کی چترائی
کا مشاہدہ کروں۔ تماشہ دیکھنےوہاں کئی اوربھی تماش بین آتے تھے۔ہمارے ہاں جب مداری
اور شعبدہ باز۔ تماش بینوں کی آنکھوں کو خیرہ کررہے تھے۔ تب پورا۔ یورپ ہپناٹزم کے سحر میں ڈوبا ہوا تھا۔ لیکن میرے فکر و خیال کےبند دریچے جب وا۔ہوئے تو مداریوں کے علاوہ بھی
کئی شعبدہ بازنظرآئے۔’’دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گرکھلا‘‘والا یک سطری شعر کئی
بار یاد آیا۔عامل اور بچہ جمورا۔ کی گفتگو دماغ کو۔ کوہلو بنائے رکھتی ۔’’ بچہ جمورا۔جی
استاد۔ تھوڑا سا گھوم جا۔تھوڑا سا جھوم جا۔جوپوچھوں گا۔بتائے گا ‘‘۔مجھے سب
ازبرتھا کہ اب کیا باتیں ہوں گی۔؟۔اچانک تماشے میں سیاست عود کر آتی۔مداری بیداری کی باتیں کرنے لگتا۔جمورے سیاسی ہو جاتے۔ اسلام
آباد کی باتیں ہونے لگتیں ۔ اور جمورا ۔ ڈُگ
ڈگ پر’’فرفر‘‘ ناچنے لگتا۔
ایک
مداری تماشہ کر رہا تھا اور اس کی بطخ
ساتھ ہی پڑی کڑاہی میں مسلسل ناچ رہی تھی۔اچانک ایک سرکس کا مالک وہاں آگیا اس نے بھاؤ تاؤ کرکے سرکس کےلئے بطخ خریدی ۔ لیکن ہزار جتن کے باوجود بطخ
نے وہاں ڈانس نہ کیا۔
سرکس
مالک: میرے پیسے واپس کرو۔ جھوٹے۔ بطخ ایک باربھی نہیں ناچی۔
مداری
: جناب ناراض نہ ہوں۔ ایک بار کڑاہی کے
نیچے آگ جلا کر دیکھ لیں۔
پاکستان
میں’’کاٹھ کی کڑاہی‘‘ کئی سالوں سے چڑھی
ہوئی ہے۔ مداری ہمیں بطخوں کی طرح نچا رہےہیں۔ ہم نےتپش سے بچنے کےلئےبندریا کی طرح پاؤں اپنے بچوں پر ہی رکھ لئے ہیں۔ سرکس والے جو ہماری آخری امید تھے
وہ بھی ’’تھیاتھیا‘‘ کرانے کو بےقرار
ہیں ۔ان مداریوں نے ہپناٹائز کا فن بھی سیکھ لیا ہے۔وہ خزانہ غائب کرچکے ہیں۔ ہم کئی دھائیوں سے ہپناٹائز ہیں۔ قومی سیاست کےعامل
بھی الگ الگ ہیں ان کےپاس’’پالتو‘‘ جمورے ہیں۔ وہ پلک جھپکنے میں۔ گھوم جا اور جھوم جا۔ کھیلنے لگتے ہیں۔ سارےجمورے جمہوری ہیں۔ وہ جمہوریت کو بچانےکے لئے جمہوریت گرانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔میاں نواز شریف، بلاول زرداری
اور عمران خان سب کے اپنے اپنے مجمعے ہیں۔ مجمعے
کافی ہٹ بھی رہے ہیں۔ قوم روزانہ تماشہ دیکھ کر واپس لوٹ آتی ہے۔ اگلے
روز بطخیں دوبارہ کڑاہی میں ناچنےکےلئے تیار ہوتی ہے۔ میرا دوست مرید کہتا ہے کہ
قوم کو مشکلات سے نکالنا ہے تو ڈورے مون جیسا لیڈر چاہیے۔
ڈورےمون بلی طرز کا 22ویں صدی کا جاپانی
ربورٹ ہے۔ جس کے پیٹ پرچارسمتی جیب ہے۔جیب میں مشکلات کے حل کےلئے کئی ٹولز(گیجٹ) ہیں۔ لیکن ڈورےمون کو 20ویں صدی میں بھیج دیا گیا تاکہ وہ نوبیتا نامی بچے کی مشکلات حل کر سکے۔ نوبیتا ایک غیر ذمہ داربچہ ہے۔جو ہر امتحان میں فیل ہوجاتا ہے۔ ہوم ورک بھی نہیں کرتا۔ماں سے ڈانٹ اور دوستوں سے مار کھاتا ہے۔ ڈورے مون اسے
ہر باربچا لیتا ہے۔ بچوں میں یہ کارٹون خاصے مقبول ہیں۔ حتی کہ بچے
کارٹون کی زبان بھی بولنےلگے ہیں ۔ ڈورےمون کہتا ہےکہ’’یہ آپ ہر منحصر ہے کہ اپنے مستقبل
کو کتنا کامیاب بنانا چاہتے ہیں۔ماضی پر رونے کےبجائے۔ مستقبل پرنظررکھنی
چاہیے‘‘۔مرید کہتا ہے کہ ڈورے مون والے گیجٹ بانکےمون کےپاس ہوتے
توآج دنیا میں امن ہوتا۔
ڈورےمون کی طرح ہر کارٹون کی اپنی زبان ہے جیسے۔ مکی ماؤس کہتا ہے
کہ’’سوری کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ
غلط ہیں۔ بلکہ سوری انا پرستی کا خاتمہ کرتی ہے‘‘۔ٹام کہتا ہے
کہ’’دوست وہ ہوتا ہےجس کی آپ کوضرورت
نہ بھی ہو تو بھی ساتھ کھڑارہا‘‘۔جیری کہتا ہے کہ’’میرا کوئی خاص رویہ نہیں لیکن میری شخصیت ایسی ہے جسے آپ ہینڈل نہیں کر سکتے‘‘۔ہیکل جیکل کہتا ہےکہ’’یہ انتخاب کرنا مشکل ہےکہ آپ کی زندگی میں کون داخل ہوسکتا ہے لیکن
آپ اُس کھڑکی کاانتخاب کر سکتے ہیں جس میں سے ناپسندیدہ شخص کو باہر پھینک دیں‘‘۔ان
تمام اقوال پر غور کریں تو یہ ہماری ذاتی، سماجی، قومی اور سیاسی زندگی پر پورا اترتے ہیں۔ ہماری سیاست تو پوری ’’کارٹون
نیٹ ورک ‘‘ہے۔ جس میں کچھ ٹام ہیں۔ کچھ
جیری۔ کچھ نوبیتا ہیں اور کچھ ڈورے مون۔کچھ مکی ماؤس۔اور کچھ ہیکل جیکل۔۔مرید تو کہتاہے کہ پیپلزپارٹی اورن لیگ کے مراسم ۔ ٹام اینڈ جیری کارٹون کی زندہ مثال ہیں جو اکھٹے رہ سکتے ہیں
اور نہ ہی الگ الگ۔
ڈورے مون کامیابی کا شارٹ کٹ ہے۔وہ دورِ حاضر کا عمر و عیار ہے۔اس
کی زنبیل میں ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔عین اس
وقت جب پی ٹی آئی چیف عمران خان نے
تحریک احتساب کی کال دے رکھی تھی۔ تحریکی ایم پی اے تیمور ملک نے ڈورے مون سے پنگا لے لیا۔پنجاب اسمبلی میں قرار داد جمع کروا دی۔ کہ کارٹون چینلز بچوں پرمنفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔وفاقی
حکومت ڈورےمون پر پابندی لگائے۔ہماری معاشرتی اقدار تباہ ہو رہی ہیں ۔ قرارداد پربحث توپتہ نہیں کب ہوگی
لیکن ’’ٹوئیٹر‘‘پر پی ٹی آئی بمقابلہ ڈورےمون کا ہیش ٹیگ ٹرینڈز میں پہلے نمبر
پر رہا۔اس سے قبل بھارت میں بھی ڈورے مون
کےخلاف احتجاج ہوچکاہے۔ کیونکہ وہاں بچے گیجٹ مانگنےلگے ہیں۔ مصر نے”ٹام اینڈ
جیری “ کو دہشت گردی میں اضافے کا ذمہ دار قرار دے کر بند کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی نےبھی حکومت سے
پہلے ڈورےمون سے ٹکر لےلی ہے۔ وہ حکومت
کو گھراور ڈورے مون کو 22 ویں صدی میں بھجوانا چاہتی ہے۔
غیر ملکی کارٹونز کے خلاف دنیا کےکئی ممالک میں تحریکیں چل رہی ہیں۔مجھے خوف ہے
کہ تحریکیں کامیاب ہوگئیں تو پاکستانی بچوں کو ’’سیاسی کارٹون‘‘دیکھنا پڑیں گے۔عمران خان کی تحریک احتساب۔ وفاق کے خلاف ہےاور تیمور ملک کی ڈورے مون کے خلاف قرارداد بھی وفاق کے خلاف۔۔۔۔ لیکن حکومت خود نوبیتا کی طرح مسلسل مشکلات میں ہے۔نیا مجمع لگنے والا ہے۔بطخیں پھر ناچنے کےلئےتیار ہیں۔ مداری اپنی اپنی پٹاری اٹھائے پھر رہے ہیں۔ جمہوریت بچانے
کےلئے جمہوریت گرانے کی نئی تیاری ہورہی ہے۔مجمعے دیکھ دیکھ کر مجھےتو گیان ہونے لگا ہے کہ پھر کچھ نہیں ہونے والا۔ویسے بھی تیمور ملک کی قرارداد کے بعد ڈورے مون۔ن لیگ میں شامل ہوچکاہے۔اوردنیا جانتی ہے کہ ڈورےمون ہر بار نوبیتا کو مشکل سے نکل لیتا ہے۔
واہ سر کمال کی تحریر ہے، اگر سنجیدہ اور تنقیدی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ڈورے مون یونیفارم میں نظر آتا ہے۔۔۔ کہانی کہنے والے نے سامعین کے ساتھ وہ سلوک کیا کہ
جواب دیںحذف کریںمدعا بیاں کر کے ہوئے مخاطب وہ ذی وقار
حیراں نہ ہو کہانی میں تو ہی ایک نقطہ ہے۔