ہفتہ، 19 نومبر، 2016

خورشید شاہ بیوٹی سیلون

یہ ان دنوں کی بات ہے جب سکولوں میں ملیشیا یونیفارم ہوتا تھا۔بال بھی کالے، جوتے اور کپڑے بھی۔تپتی دوپہروں میں سکول سے واپسی پرجسم کی ہر وہ چیزتوے کی طرح تپنے لگتی جوکالی ہوتی۔تالو۔ ڈبی دار یاسرعرفاتی رومال میں لپٹاہوتا لیکن بندہوجانے والےبھٹہ خشت کی طرح گھنٹوں تپتا رہتا۔پاؤں بوٹوں کےاندرمونگ پھلی کی طرح گرم ہورہتے۔گھرپہنچتے تواتنےضعیف ہوتے۔جسے افطاری سےقبل روزہ دار۔اماں کےپاس ساری تکلیفوں کاایک ہی تریاق تھا۔مہندی۔۔تب عام گھروں میں پلنگ کی جگہ منجھے ہوتےتھے۔اماں رات کوادوائن سے اوڑھنی ہٹاکرپیروں پراُتنی مہندی چڑھا دیتی۔جتنی چاچےجانے کے پیروں پرمٹی لگی ہوتی جب وہ کچی دیواریں لیپنےکےلئےپیروں سےگوندھتا تھا۔مہندی راتوں رات خشک سالی کا شکار زمین کی طرح پھٹ جاتی۔اگلی صبح پاؤں تربوزکی طرح سوئے لال ملتے۔کسی روزیونہی سربھی لال ہوجاتا۔
اماں کاعلم خاصا  الہامی تھا ہمیشہ اکثیر ثابت ہوتا۔بلکہ کئی بار شادیوں، شودیوں پر اماں ہاتھ پر مہندی لگاتی تو ہم سمجھتے اماں کو لُو لگ گئی ہے۔اماںسکھی پھول (دلہن کےسرکا زیور)کی طرح ہتھیلی کے بیچ بڑا سا دائرہ  بناتی ۔اوراطراف میں بانسی جھاڑو کی تِیلی سےچھوٹےچھوٹے ٹمکنے بناتی۔انگلیوں کے ناخن والےپوربھی مہندی سجاتی ۔اخروٹ کی چھال چار پانچ منٹ چبا کر داتن کرتی یوں ہونٹ نارنجی شیڈدینے لگتے۔لیکن اب ایسا نہیں ہوتا۔
لڑکی:میری سالگرہ کا تحفہ لائے ہو۔؟
لڑکا:وہ سامنے کھڑی سرخ رنگ کی گاڑی دیکھ رہی ہو ۔؟
لڑکی: واہ ۔ مجھے یقین نہیں ہو رہا۔
لڑکا:اُس رنگ کی نیل پالش لایا ہوں۔
اس نگوڑی سالگرہ نے  نیل پالش اتنی مشہور کردی ہے  کہ لڑکے سال میں  دس بارہ  ہدیہ کر ہی دیتے ہیں۔ہم اس عہد میں زندہ ہیں جہاں خواتین  ناخن نہیں بال کٹواتی ہیں۔ مہندی ۔اب دلیر مہندی  کی طرح  مقبول نہیں رہی۔ نیل پالش میکا سنگھ جیسی نکلی۔ جو مرضی کرو۔فرینچ مینی کیور، نیل آرٹ، تھری ڈی، میگنیٹک ، ویلوٹ  آرٹ وغیرہ ۔بیوٹی سیلون پر اب  منہ سے زیادہ ٹائم ناخن پر لگنے لگا ہے۔نیل آرٹ کے بعد  خواتین کی باڈی لینگوئج بدل  رہی ہے ۔پارٹیوں میں ’’حُسن دی کلاشنکوف‘‘  بن کرآنےوالی ماڈلز ’’عدوالمبین ‘‘ بن گئی ہیں۔جنہیں نیل  آرٹ  کیل کی طرح چھبنے لگا ہے۔کیل ۔ لڑائی کے لئےسِیل کُکڑ کے پنجوں پر چڑھائے جانے والے  ناخن کو بھی کہتے ہیں ۔جوڈیزی کٹر کی طرح  چیر ڈالتے ہیں۔ میرا دوست شیخ مرید تو کہتا ہے کہ شادیاں دفاعی سازو سامان کی تین روزہ نمائش کامرکز ہوتی ہیں۔ جہاں دشمن کا اسلحہ چیک کیاجاتا ہے۔ایسی نمائشیں خواتین میں خانگی جنگی جرائم کوبڑھاوا دیتی ہیں۔
بیٹی:مما۔ڈیڈ نے کہا ہے کہ اس بار اگر امتحان پاس نہ ہوا تو میری شادی کر دیں گے۔
ماں:تو تم نے کتنی تیار ی کی ہے؟۔
بیٹی:بس پارلر کی بکنگ رہ گئی ہے۔
پارلر کی بُکنگ کروانا مشکل بھی ہے اور مہنگا بھی۔اسی لئےپیپلزپارٹی کے رہنما سیدخورشید شاہ نے بیوٹیشن کورس خود کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔تاکہ بیوی کاٹائم بھی بچے اور خرچہ بھی۔۔بیوٹیشن میک اپ کرکےلڑکی کوشادی کے لئے قابل قبول بناتی ہیں اورمرد’’بناؤ سنگھار‘‘ کرانےمطب جاتے ہیں۔شادی کی ابتدا مہندی کے ریڈ سگنل سے ہوتی ہےاوراکثر جوڑے سگنل توڑنا برا سمجھتے ہیں۔البتہ شادی کے ابتدائی سالوں میں جوڑے ڈبے والے ٹشوپیپر کی طرح فولڈہوتے ہیں اورجلد ہی ٹائلٹ رول کی طرح اُدھڑنےلگتے ہیں۔ شادی کےچند سال بعد ہی شوہر۔ ارتقا کی وہ منزل  پالیتا ہے جس کا تذکرہ ڈارون نے( Evolution theory) میں کیا تھا۔اسی لئے شادی مرد کی ہیئت کو بدل ڈالتی ہے۔
شوہر:بیگم اگر میں مرگیا تو تم دوسری شادی کر لو گی۔؟
بیوی(جذباتی ہوکر): نہیں میں اپنی بہن کے ساتھ رہ لوں گی۔
بیوی: اور اگر میں مر گئی تو۔۔؟
شوہر:میں بھی تمہاری بہن کے ساتھ رہ لوں گا۔
ہمارے ہاں  ننانوے فیصد شوہر مائنس ون اور سو فیصد  پلس ون  کےشوقین  ہیں۔ اور خورشید شاہ بھی پلس ون کےقائل نکلے۔دوسری شادی عموما چوری  چھپے ہوتی ہےاور۔دوسری بیوی آف شور کمپنی کی طرح مخفی رکھی جاتی ہے۔  دوسری شادی نہ  بھی ہو تو   بھی ’’آف شور بیوی‘‘ کی گُنجائش  موجود رہتی ہے۔پاکستان میں آف شور کمپنیوں کا شور مچا توپی ٹی آئی چیف عمران خان نےخورشید شاہ کو ڈبل شاہ  کہہ ڈالا۔اس لقب پرمیں خاصا پریشان تھا۔ حاجت تب رفع ہوئی جب شاہ  جی نے اقبالی بیان دیا  کہ’’ میں نے دو شادیاں کر رکھی ہیں‘‘۔ملکی سیاست میں یہ عمران خان کی پہلی فتح ہے۔ مرید کہتا ہے کہ دوسری شادی۔دوسرا ہوائی قلعہ  ہے۔اورمرد۔سکاٹ لینڈ کے رابرٹ دی بروس کی طرح قلعے فتح کرنے میں لگے رہتے ہیں۔وہ تو کہتا ہے کہ کنوارے جل جل کر مر تے ہیں اور شوہر لڑ لڑ کر ۔اسی لئے سیاسی کنوارے شیخ رشید کی  آگ نہیں بجھ رہی ۔ البتہ سیاستدان اور شوہر میں  فرق یہ ہے کہ سیاستدان سے مذاکرات ہو سکتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ غصہ آنا مرد کی نشانی ہے اور غصہ پی جانا۔ شادی شدہ مرد کی نشانی۔لیکن ڈبل شاہ  غصے میں ہیں۔ بولے ’’ میری دو بیگمات ہیں۔ میں نے پوچھا کہ نیل پالش کا کتنا خرچہ آتا ہے توایک بولی۔ پانچ ہزار  ماہانہ۔میں نے کہا  یہ کام میں سیکھ لیتا ہوں ۔میرے دس ہزار بھی بچیں گے۔اور سات پشتیں مزے کریں گی‘‘ ۔مریدکہتا ہے کہ نیل پالش کی مد میں شوہرجتنی زیادہ بچت چاہتے ہیں انہیں اتنی ہی۔ زیادہ شادیاں کرلینی چاہیں۔بیوی شاپنگ کرکے گھر آئی۔
 شوہر:نیل پالش خرید لی۔ ؟
بیوی :بازارمیں اتنی اتنی پیاری  نیل پالش  تھیں۔آرٹ  والےمصنوعی ناخن بھی تھے۔مجھے توہینڈ بیگ بھی اچھے لگے لیکن میں نے سوٹ خرید لیا۔
دنیا کے ہر گھر میں شاپنگ ایسی ہی ہوتی ہے۔ شاہ جی   پتہ نہیں کس  دنیا میں رہتے ہیں۔یقیننا ہر ماہ دو۔دو سوٹ خریدے جا رہے ہیں۔کیونکہ خوبصورت دِکھنا خواتین کی ضرورت نہیں حق ہے۔اوراس حق کو بعض لڑکے بھی ناحق جتلانے لگے ہیں۔شاہ جی مردانہ بیوٹی سیلون بنا لیں تووہ چل سکتےہیں۔ویسے بھی مرداپنی وجاہت کے بجائے شباہت کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔
ناخن اُس لباسِ فاخرہ کی باقیات ہیں۔جوآدم کےفردوسی جرم کی پاداش میں خُلدمیں اتارلیاگیا تھا۔اسی لئے  ناخن آج بڑھ  بڑھ کرہمیں’’نکلناخلد سے آدم کا‘‘ یاد دلا رہے ہیں۔شاہ جی کی طرح میرا بیوٹیشن کورس  کا کوئی ارادہ نہیں البتہ  یہ خواہش ہے کہ خواتین  گھر پر ہی نیل پالش  لگائیں۔ کیونکہ  جونہی وہ نیل پالش نکالتی ہیں۔  گھر کے سارے کام  انہیں یاد آنے لگتے ہیں۔انگریزی محاورا ہے کہ  مرد کے دل تک پہنچنے کا راستہ معدے سے ہو کر گزرتا ہے۔شاہ جی کو شائد اچھے کھابے نہیں مل رہے۔ اور نیل پالش پر خرچہ بہت آ رہا ہے۔گدی نشینوں کی  سکیورٹی سخت ہے۔ چڑھاوے کہیں راستے میں ہی  چڑھ جاتے ہیں۔اسی لئے شاہ جی نے میک اپ کےڈبل اخراجات پر کٹ لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی کا سیشن  شروع ہو گیا تو  میک اپ کون کرے گا۔سوکنیں بھی ایک دوسرا کا سنگھار نہیں کر سکتیں۔شائدمہندی کلچر  دوبارہ شروع کرنا پڑے۔سندھ  کے  ضلع دادو کی مہندی  دنیا بھر میں مشہور ہے۔اس سے بال بھی رنگ  سکتے ہیں۔شاہ جی کو تو ضرورت بھی ہے ۔سندھ میں  توگرمی میں بہت پڑتی ہے۔اوپر سے وہ ڈبل  شاہ ہیں۔آزمائش شر ط ہے ۔ممکن ہے خرچے کی  کھپ  کھپ میں  مہندی کھپے کھپے  ہونے لگے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں