تاریخ ہند کی بیشتر کتب مہاراجوں کے تذکروں سے بھری پڑی ہیں ۔ان
میں کچھ راجے بھی تھے۔ایام جہل کی بات ہے جب گاؤں
میں کِکر کی ٹھنڈی چھاؤں تلے پڑی کرسی پر
بیٹھتے ہی کہا کرتے تھے۔ راجہ۔آگےسے سیٹ کر دو۔اور پیچھے سےباریک ۔اور وہ
کنگھا۔ قینچی پکڑکر شروع ہو جاتا۔راجہ سرسے جُڑا رہتا اور میری نظریں شیشے سے۔ویسے یہ شیشےاتنےجھوٹے
ہوتے ہیں کہ کوجھے سے کوجھا۔گاہک۔بھی خود
فریبی میں مبتلا ہوجائے۔شیشہ اگر۔کوجھا
ہو تو گاہک شیشے میں نقص نکالتااورکٹنگ کوجھی ہو جائےتونقائص کی گردان راجےکی گردن پرمنتقل ہوجاتی ۔کوسنے کا
سلسلہ اگلی حجامت تک جاری رہتا۔نومولود بچوں کےختنوں سےلےکربال کاٹنےکے
دوران سراورکان پرٹک لگنے تک کی جراحت بھی اُسی کےذمہ ہوتی۔
حجام کے قریب کھڑا کُتادیکھا کرگاہک بولا: لگتا ہے کُتے کو تمہارا۔ فنِ گیسو آرائی بہت پسند ہے۔؟
حجام: پسندتو نہیں جناب۔!کُتا تو گاہک کا کان کٹنے کا انتظار کرتا ہے۔
حجام: پسندتو نہیں جناب۔!کُتا تو گاہک کا کان کٹنے کا انتظار کرتا ہے۔
جہالت کے بادل چھٹےتو راجہ
کی نئی قسم سامنے آئی۔معاشرتی ترقی کےنقش پا۔پر چلتے ہوئےدیہاتوں سے شہروں میں آبسنے والے راجے۔۔۔کِکر کی ٹھنڈی چھاؤں سے
اے سی کی چِل ہواؤں میں شفٹ ہونے کے
باوجود۔پرانی شناسائی نےحجاموں کو سیلون کہنے کاحوصلہ نہ دیا۔ جب جی چاہتا کہہ
دیتے۔ راجہ۔! ایک دیگ لوُنی پکا دےایک میٹھی لیکن میرا موضوع یہ راجے
بھی نہیں۔میرے راجوں کاتصور بچپن کی یک سطری نظم والا ہے۔’’راجے راجے کھاندے ،بلیاں، بلیاں ۔چاکدیاں‘‘۔اس تصور کی
تعبیر فیصل آباد کی ر اجے والا کالونی ہے۔ پیپلز پارٹی کےسابق رہنما راجہ ریاض اس راج نگر کےگھنٹہ گھر ہیں۔اپنی ریاست خود
کاٹ کھانے والے راجے۔ راجہ صاحب کا گھرانہ کھاتا پیتا ہے۔ ہم اس ریاست کی بلیاں ہیں۔اقتدار مخالف کئی تحریکیں ان کے گھر
سے اٹھیں۔رقیبان راجہ تو کہتے ہیں کہ بھٹو کی
پھانسی پر دیگیں پکانے کے علاوہ انہوں نے کبھی پیپلز پارٹی کے خلاف بات تک نہیں کی۔ترنگا جھنڈا کبھی سرنگوں نہ ہوا ۔بلکہ 7 مئی 2016 کوجب وہ پی ٹی
آئی چیف عمران خان سے ملے تھےتب بھی نہیں۔۔۔انہیں اچانک عمران خان میں بھٹو نظر
آنے لگاتھا۔ایک سردار ریلوے لائن پر
لیٹا ہوا تھا۔
دوسرا۔سردار:۔۔سردارجی یہاں
کیوں لیٹے ہو۔؟
سردار:خود کُشی کے لئے ۔
دوسرا۔سردار۔لیکن یہ لنچ
باکس کیوں ساتھ رکھا ہے۔؟
سردار:اگر ٹرین لیٹ آئی تو۔میں تو بھوک سے مر جاؤں گا۔
راج نگر میں تو بھوک والا معاملہ بھی نہ تھا لیکن راجہ ریاض
نےجونیاراستہ ناپ لیا تھا ۔وہاں لنچ باکس کےسوا۔ساتھ کچھ بھی نہ تھا۔
پی ٹی آئی میں شمولیت کےاعلان پر کھلاڑیوں نے احتجاج کیااور۔ راجہ ریاض نا منظورکے بینرز لگادئیے۔ایسی ناانصافی تو دشمن لیگ نے بھی نہ کی تھی جو انصافیوں نے کر
ڈالی ۔جبکہ جیالوں نے یو م تشکر منایا۔ڈانس، جھومر، ڈھول اور مٹھائی بہت کچھ ہوا۔ پی پی قیادت سے راجہ ریاض کو جو شکوے تھے۔وہ صرف شاہ محمود قریشی جانتے تھے۔اب اللہ ہی جانے راجہ صاحب کا آخری شکوہ۔پی ٹی
آئی کوپیشگی اطلاع تھی یا پھرپی پی کو آخری اطلاع ۔جس کے بعد عمران۔ راجہ۔
ملاقات ہو گئی۔شکوہ یہ تھا کہ’’ پیپلز پارٹی
مجھےدیوار سے لگا رہی ہے‘‘۔لیکن نوشتہ
دیوارتو کچھ اورہی تھا۔ایک پریشان حال۔ خبطی گھر
پہنچا۔لیکن تالا کھولنے میں ناکام رہا۔
ہمسایہ:بھائی صاحب تالا مجھے پکڑا دیں ۔آپ چابی پکڑ کر کھول لیں۔
خبطی: تالا تو میں بھی پکڑلوں گا۔ تم ذرا دیوار کو پکڑ لو۔
راجہ ریاض نےپیپلزپارٹی کادروازہ خود پربند کرلیا تھا۔دیوار پکڑنے والا کوئی تھا
نہیں۔چابی فٹ نہ بیٹھی اورتالا پکڑنے کو
ئی کھلاڑی نہ آیا۔ پی ٹی آئی کے دروازے تو
اونچے نہیں ہو ئے تھے لیکن قد چھوٹے ہو گئے تھے۔20 مئی کو دھوبی گھاٹ گراونڈ
فیصل آباد میں عمران خان نے جلسہ کرنا
تھا۔ 19 مئی کوپنڈال میں لگے راجہ ریاض کے
بینرز۔نامعلوم افراد نے’’پاڑ دئیے۔ راجہ ریاض نے کبھی کہا تھا ’’ن لیگ نے ہمارے
بینرز پاڑے ہیں۔ہم ان کے پاڑیں گے‘‘۔پی ٹی آئی کےنامعلوم افرادکےبارے میں وہ تو اتنا بھی نہ کہہ سکے تھے۔
ایک کنگلا حجام کے پاس پہنچا۔ بال کٹوائے،رنگ لگوایا۔ شیو بنوائی،غسل
کیا پھر بچے کو کرسی پر بیٹھا کر حجام سے کہا:منُے کے بال کاٹو ،میں ابھی آتا ہوں۔
حجام بال کاٹ کرانتظار کرکرکے تھک گیا تو بولا:بیٹے تمہارے ابا کہاں چلے گئے۔؟
مُنا:وہ۔ میرے ابا۔تو نہیں تھے۔میں تو گلی میں کھیل رہا تھا۔ انہوں نےکہا آؤ تمہارے بال مفت میں کٹوا دوں۔
حجام بال کاٹ کرانتظار کرکرکے تھک گیا تو بولا:بیٹے تمہارے ابا کہاں چلے گئے۔؟
مُنا:وہ۔ میرے ابا۔تو نہیں تھے۔میں تو گلی میں کھیل رہا تھا۔ انہوں نےکہا آؤ تمہارے بال مفت میں کٹوا دوں۔
راجہ ریاض کو’’راجے‘‘کی کرسی پر بٹھانے والا غائب ہو چکا تھا۔حجامت مکمل ہو چکی تھی۔’’نامعلوم
افراد‘‘بیڑیوں میں بٹے ڈال رہے تھے۔ راجہ
مخالف’’ریاض‘‘ مسلسل جاری تھا۔پی ٹی
آئی میں انہیں ویلکم کرنے والے وہی تھے
جوراجہ صاحب کی وجہ سےپی پی چھوڑ چکے تھے۔تبھی
تو دھوبی گھاٹ سٹیج پر انہیں پزیرائی نہ ملی۔ سٹیج پر
پہنچے تو بینرز پہلے ہی پاڑے پڑے تھے۔ تحریک
انصاف میں شمولیت کے لئے بلایا گیا تو انہیں صرف ہاتھ ہلانے کی اجازت ملی۔تقریر کے
لئے عینک ناک پر رکھی لیکن موقع نہ ملا۔
راجہ صاحب پچھلی سیٹوں پرواپس لوٹ گئے۔ان کے خلاف نعرہ بازی ہوئی اور عمران
خان نے پورے خطاب میں ان کا نام تک نہ لیا۔ البتہ رات
کاکھانا ’’راج نگر‘‘سے کھایا۔
2013 کےالیکشن سے قبل ن لیگ کو۔ووننگ ہارسسز کی ضرورت تھی سو۔ چھان
بورا اکھٹا کر لیا گیا۔ تحریک انصاف بھی بڑے چھیدوں والی چھننی لے کر نکل آئی ہے۔نظرئیے کا قتل کرکے۔ نظام زر کو دوام بخش
کر۔ بُورا الگ کیا جا رہا ہے۔آج کی تحریک انصاف پرپیپلزپارٹی، ن لیگ اور ق لیگ کا قبضہ ہے۔راجہ نادر پرویز، فیض اللہ، اسد معظم، جہانزیب امتیاز گل، فواد چیمہ، کیپٹن
نثار اکبر، خالد امیتاز بلوچ، علی اختر، میجر عبدالرحمن رانا، رانا جاوید اشرف،
طارق چوہدری، جاوید نیاز منج، پیر زادہ
اشرف ضیا، رانا آصف توصیف اور ممتاز علی
چیمہ کوئی بھی بنیادی کھلاڑی نہیں۔نیا اضافہ راجہ ریاض ہیں۔وہی راجہ ریاض جو 2008میں ن لیگ سے صرف 6 ہزار
کی لیڈ سےجیتے تھے اور2013 میں ن لیگ سے ہی تقریبا 47 ہزار سے ہار گئے۔پی ٹی آئی میں شمولیت
اگلے الیکشن کی پلاننگ ہے۔راجہ ۔عمران ملاقات میں بھی این اے 82 ہی زیر بحث تھا۔ اگلے الیکشن میں اگر
این اے 82 پھر سنی اتحاد کونسل کو مل گیا تو راجہ صاحب کیا کریں گے۔؟ پتہ نہیں۔۔
شائد وہی ۔پرانی تنخواہ۔۔؟میرا دوست مرید کہتا ہے کہ راجہ ریاض نے پی ٹی آئی۔
رانا ثنا اللہ کا حدف تنقید بننے کے لئے جوائن کی ہے۔ کیونکہ رانا ثنا اللہ آج کل پی پی پی کے بجائے ۔پی ٹی آئی پر تنقید
کر رہے ہیں ۔
تحریک انصاف تیزی سے مخالفین کی وکٹیں گرا رہی ہے۔دوسری جماعتوں کے کئی ناپسندیدہ رہنما۔پی ٹی آئی میں شامل ہوکر ’’پاوتر‘‘ہو چکے ہیں ۔کھلاڑیوں کے خواب مسلسل ٹوٹ
رہے ہیں۔ جن لیڈروں کو مسترد کرکےکھلاڑی عمران
خان کے ساتھ چلے تھے وہی لیڈر پی ٹی آئی سے آن ملےہیں۔تاریخ میں ایسے راجوں کو
جانے کس طرح یاد کیا جائے گا۔
چار افیمی نشے میں دھت تھے۔ اتنے میں ایک افیمی
نے ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اندر سے عورت نے پوچھا’’کون ؟‘‘
افیمی:ذرا باہر آکر
اپنے شوہر کو پہچان کر لے جائیں تاکہ باقی لوگ بھی اپنے اپنے گھر جا سکیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں