بدھ، 23 اگست، 2017

چائے کی پیالی میں طوفان

فیصل آبادکاگھنٹہ گھرآٹھ بازاروں میں ویسےہی گھرا رہتا ہے۔جیسے رضیہ غنڈوں میں رہتی ہے۔آٹھ بازاروں میں چائے کےبہت سےڈھابے ہیں۔جن میں سےکچھ سُرخوں کےہیں۔کچھ’’سبزوں‘‘کے۔اور۔کچھ رلےملے۔ان ڈھابوں کی مشترکہ خصوصیت چائے ہے۔اعلی قسم کی چائے۔تیز دم۔ ٹھاہ کرکے لگنے والی۔ذائقہ اپنے پن کا۔۔تگڑا رنگ اورجوش۔۔جیسی کئی خصوصیات والی ڈھابہ چائے۔لیکن یہاں چائےامی بناتی ہیں اورنہ ہی امی کے گھرسےمنگوائی جاتی ہے۔اکھاڑےجب سےبندہوئےہیں۔تب سےیہ کام پہلوانوں نےسنبھال لیا ہے۔ٹھنڈی کھوئی والےپہلوانوں نے۔میں نےاندرداخل ہوتےہی آواز دی۔’’پہلوان ایک کڑک چائے۔ملائی مارکے‘‘۔

جمعرات، 3 اگست، 2017

آخری گنجے فرشتے

اردو ادب میں گنجے۔منٹو کی وجہ سے مشہور ہوئے اور سیاست میں’’ شریفوں‘‘کی وجہ سے۔منٹو نے گنجے فرشتے لکھ کر فلمی و غیر فلمی کرداروں کویوں برہنہ کیا۔گویا۔وہ میامی میں کسی نیلگوں’’ بیچ‘‘ پر لیٹے سن باتھ لے رہے ہوں ۔اُسی ساحل پر جن کے بارے میں سوچ کرہی دل کمینہ ہوجائے۔اور۔خواہ مخواہ چُٹکیاں بھرنےلگے۔گنجے فرشتے میں منٹو صاحب نے عصمت چغتائی سے لے کرفلم سٹار نسیم بانو تک۔ سارے ملائم کردارکھردرےکرچھوڑے۔۔البتہ معروف مزاح نگار عطا الحق قاسمی نے’’مزید گنجے فرشتے‘‘لکھ کر نہ صرف کھردروں کو ملائم کیا ۔بلکہ ان کرداروں کوکپڑے واپس پہنائے۔جن کےمنٹو نے اتار دئیے تھے۔’’گنجے فرشتے‘‘ کے دیباچے میں منٹو خود کہتے ہیں کہ’’میرے اصلاح خانے میں کوئی شانہ نہیں۔ میں بنائو سنگھار کرنا نہیں جانتا۔ اس کتاب میں جوفرشتہ بھی آیا اس کا مونڈن ہوا ہے اوریہ رسم میں نےبڑےسلیقے سےاداکی ہے‘‘۔