ہفتہ، 29 اکتوبر، 2016

گھنٹہ گھر کس کا ہے۔؟

سالوں پہلے کی بات ہے ہماری نانیاں ، دادیاں سرپر لئےڈوپٹے کےایک سرے پر گرہ۔لگالیا کرتی تھیں۔ جس کا مقصد ہوتا تھا کہ کام کاج کے دوران اگربھول بھی جائیں تو گرہ کو ہاتھ لگتےہی یاد آجائے کہ فلاں کام ابھی کرنا ہے۔صبح سویرے دہی بلونےسے لے کر رات گئے دودھ کوجاگ لگانے تک خواتین کوجتنی باتیں یاد آتیں۔ڈوپٹے کی گرہیں کم۔ زیادہ ہوتی رہتی۔اور اگر کبھی وہ بھول جاتیں تو گرہ بندھی رہ جاتی۔ یہی ڈوپٹہ خواتین کا بہی کھاتہ ہوتا تھا۔کبھی کبھاراس میں سے آنہ اور۔دوآنے بھی نکل آتے۔جوسامنے کھڑے بچوں کو تب ملتے جب دادی کاموڈ ہوتا۔
 مالک نےاچھے موڈمیں۔ملازمین سےپوچھا: کالی رات ہے،بارش بھی ہےاوربجلی بندہے۔بتاؤ میری عمرکیا ہوئی۔؟ 
ملازمین کافی دیرخاموش رہےآخر ایک بولا۔40 سال
مالک:تمہیں کیسےپتہ چلا۔؟ 
ملازم:ہمارےمحلے میں ایک لڑکا ہے اس کی عمر 20سال ہے وہ آدھا پاگل ہے۔
اکتوبر2015 میں پنجاب سے جیتنے والےتمام بلدیاتی نمائندوں کی عمر چالیس سال ہے۔جنہیں بار بار شیڈول دے کر پاگل بنایا گیا لیکن مخصوص سیٹوں پر الیکشن نہیں ہوسکے۔ پاگل خانے میں نئی تاریخ 15نومبر2016آئی ہے۔البتہ  فیصل آباد کےنمائندے دوہرے پاگل ہیں۔کیونکہ یہاں چوہدری شیرعلی اور رانا ثنا اللہ کے نام پر دھڑے بھی بنائے گئے ہیں۔اکتوبر 2015 میں الیکشن جیتنے والے نمائندوں نے اکتوبر 2016 میں  بے اختیار۔ رہنے کی برسی منائی ہے۔بلکہ  بلدیاتی نمائندے ایسے مرد ہیں جو2015 سے ہیجڑے بن  گئے ہیں۔حکومت کاموڈ ابھی تک  ٹھیک نہیں ہے۔موڈ پیدائش سے موت تک  انسان کے ساتھ رہتا ہے۔سننے، دیکھنے،چکھنے، چھونے اورمحسوس کرنے کو حواس خمسہ کہتے ہیں۔لیکن  موڈ حواس ’’سِتعہ‘‘ہے ایسا اکلوتا حواس  ہے جو نظربھی آتا ہے اور نظر تو یہی آ رہا ہے کہ  ہیجڑے بے اختیارہی رہیں گے۔15 نومبر کو الیکشن ہو بھی گئے تو راویت کےمطابق مئیر اور چئیرمین ضلع کونسل کےالیکشن 2017 میں  دوسری برسی پرہوں گے۔حکومتی موڈ دیکھ کر فیصل آباد کے24آزاد چئیرمین، وائس چئیرمین اور کونسلرز پی ٹی آئی میں جا چکے ہیں۔ جنرل کونسلرز نے ضلع  کونسل چوک میں احتجاج کرکےمزاحمت کی ابتدا کردی ہے۔لیکن مریدکہتا ہے ملک پرشیر کا راج ہے۔ یہاں جنگل کا قانون ہی رہےگا۔
شیر کےشکارپر جانے والے شکاریوں نےایک خاتون کو اطلاع دی کہ آپ کےشوہر خود شیرکا شکارہو گئے ہیں۔
خاتون: افسوس ہوا۔ان کی لاش بھجوا دیں۔چند دنوں بعدخاتون کو ایک شیر کی لاش ملی۔ساتھ خط بھی تھا جس پر لکھا تھا:آپ کے شوہر شیر کے پیٹ میں ہیں۔
پنجاب کے بلدیاتی ادارے بھی ایک سال سے شیر کے پیٹ میں ہیں۔ شیرادھ مُوا۔ہو چکا ہے کیونکہ شیر علی۔ خود بلدیاتی مہم کے دوران شیرکی دم اور کان کاٹ چکے ہیں۔2015 میں شیر علی اور ثنا اللہ یو نین کونسلز میں مشترکہ امیدوار نہیں دے سکے تھے ۔شیر علی نےمئیر گروپ بناکرانتخابی نشان بالٹی لیا تھا اور۔رانا ثنااللہ کے حمایت یافتہ امیدوارہیرا کے نشان پرلڑے تھے۔ مئیر گروپ نے کئی جگہ پر شیرکی دم اور کان کاٹ کربالٹی بھری تھی۔ شیرعلی تو کہتے تھے ۔ کہ شیر کی کھال اتاریں تو اندر سے گدھا نکلے گا۔ مجھےتو مشتاق یوسفی یاد آ گئے۔وہ کہتے ہیں ’’کُتااپنی گلی میں شیرہوتا ہے اور شیر دوسرے کی گلی میں کُتا‘‘۔لیکن مرید تو شیر علی کو سچا سمجھتا ہے کیونکہ شیرکی کھال اتر  چکی ہےاندر سے واقعی گدھا نکلا ہے۔آئین کے آرٹیکل 62 اور63 کی خلاف ورزی ہو چکی ہے۔اثاثےچھپائے گئےتھے۔ مریدکا مطالبہ ہے کہ اس جرم میں انتخابی نشانات کی فہرست سےشیر نکال کر گدھا شامل کیا جائے۔
یہ سچ ہے کہ اگر شیرعلی نہ ہوتے تو فیصل آبادآج ن لیگ کارائے ونڈ کے بجائے پیپلز پارٹی کا لاڑکانہ ہوتا بلکہ مئیرگروپ نہ بنتا تو تحریک انصاف کا بنی گالہ بھی ہو سکتا تھا۔وہ شہر کے مقبول ترین سیاستدان ہیں۔اور وجہ شہرت وہ بازاری باتیں ہیں۔ جو پارٹی قیادت کو بری لگتی ہے اور ورکرز کو اچھی۔ وہ سستی تفریح کا بڑا ذریعہ ہیں۔ لوگ ان  کی باتیں سن کر محظوظ ہوتے ہیں۔اُن کے جلسے کھڑکی توڑ ہوتے ہیں اورگفتگو ’’شرم‘‘ توڑ۔ انہیں لائل پور کا امام دین گجراتی کہا جا سکتا ہے۔لیگی رہنما رانا ثنا اللہ۔۔شیرعلی کےقریبی دشمن ہیں۔
پٹھان کے گھر مہمان آیا توبولا:باہر نہ نکلنا۔تمہاری جان کو خطرہ ہے۔
مہمان :لیکن میری تو کسی سے دشمنی نہیں ۔
پٹھان:چند روزقبل ہم نے ان کا مہمان مارا ہے۔
ن لیگ فیصل آباد کی خاندانی دشمنیاں’’ مہمانوں‘‘ کے سرپرچلتی ہیں۔شیر علی اور۔ ثنا اللہ ایک دوسرے کے سامنے ویسے ہی کھڑے ہیں۔جیسے اسلام آباد دھرنےمیں جانے والےپی ٹی آئی کےقافلوں کے راستے میں کنٹینرز کھڑے ہیں۔مخصوص نشستوں پر امیدواروں کو ٹکٹ دینے کی باری آئی تو کنٹینرز پھر کھڑے ہو گئے۔ صوبائی الیکشن کمیٹی کے ممبران منشا اللہ بٹ، سعود مجید، سمیع اللہ اورعطا اللہ تارڑ نےاتفاق رائے نہ ہونے پر فیصل آباد شہراورمیونسپل کمیٹیوں کی تقریبا تمام نشستیں اوپن چھوڑدی ہیں۔ ضلع کونسل  کی نشستوں پر چوہدری زاہد نزیر اور میاں قاسم فاروق کنٹینرز کے آر پار ہیں۔ یوں یہ سیٹیں  بھی اوپن رہ گئیں۔امیدواروں کے ہاتھ سے شیر کا نشان پھرنکل گیا۔ اب وہ۔بالٹی، گلاس ، جگ ، چولہے اور بوتل لئے پھر رہے ہیں۔
شیرعلی ہوں یا ثنا اللہ آپس میں لاکھ اختلاف سہی ۔دونوں میاں نواز شریف کے پٹھانے خان ہیں۔بظاہر یوں لگتا ہے کہ لیگی قیادت نے فیصل آبادکے مئیر اور چئیرمین ضلع کونسل کی سیٹیں بانٹ دی ہیں۔اس ونڈ میں شیر علی کو مئیر اور رانا ثنا اللہ کو ضلع کونسل ملا ہے۔مرید تو کہتا ہے کہ رانا ثنا اللہ نےسارا وزن چوہدری زاہدنزیر کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔زاہد عمران گجر اور کرنل آصف  کا آپشن بھی ہے۔قاسم فاروق کو وہ اس قابل نہیں سمجھتے ۔حتمی فیصلہ لیگی قیادت کے ہاتھ میں ہےکہ زاہد نزیرکس قابل ہیں؟۔شہر اگر شیر علی کومل گیا تو ان کے سامنے عبدالحفیظ باوا، شیخ زوالفقار، کہیں کہیں رانا رزاق۔اور ملک ساجد سہیل لائن بنا کر کھڑےہیں۔مئیر جو بھی بنے گا۔ گھنٹہ گھر اس کا ہوگا۔ لڑائی ابھی تک جاری ہے۔شیر علی کا بھی کوئی پتہ نہیں کہ وہ لائن توڑ کر چاولوں کی دیگ پیچھے سے کھول دیں۔
کہتے ہیں کہ پنجابی کی زبان نہ چلتی ہو تو وہ گونگا ہوگااور ہاتھ  نہ چلتے ہوں تو بیمار۔ پنجاب کےنمائندے بیماربھی ہیں اور گونگے بھی۔انہیں عوامی خدمت سے دوررکھا جا رہا ہے کیونکہ سارا بوجھ خادم اعلی نےاٹھا رکھا ہے۔  شائد بلدیاتی نمائندے اورنج ٹرین میں بیٹھ کرآئیں۔ لیکن مرید کہتا ہے کہ نانی کی طرح حکومت ڈوپٹے کو گرہیں لگا کر بھول گئی ہے۔اور ڈوپٹہ کسی آف شور کمپنی کی فائلوں تلے دب گیا ہے۔ 

1 تبصرہ:

  1. بہت خوب سر ، خوبصورت طرز بیاں ، بہت اچھا سمجھایا فصیل آباد کی سیاست :)

    جواب دیںحذف کریں