ہفتہ، 30 اپریل، 2016

فلمی وزیراعظم ۔۔!

سالوں پہلے میرے بڑے جب بھی حج پر جاتے توواپسی پر بہت سےتحائف لاتے۔کچھرکھ لیتے اورکچھ دان کردیتے ۔اُسی ’’مال غنم‘‘ میں سےریڈیو ٹیپ ریکارڈر  میرے ہاتھ  لگ گیا۔تب ریڈیو پرآڈیوفلمیں چلتی تھیں۔زبان کےصوتی اثرات زلزلےبرپا کردیتے تھے۔فلموں کا مجھےزیادہ شوق  کبھی نہیں رہا۔البتہ گانےبہت بھاتے تھے۔بناکا گیت مالا کی کیسٹ ہزاروں بارسنی اور باربارسنی۔اس شوکےمیزبان  امین سیانی کی۔مدھُرآوازگانوں سےبھی زیادہ بھانے لگی۔امین سیانی ہرگانے سے پہلے تذکرہ چھیڑتے کہ اس کاموسیقار،سنگیت کاراور گلوکار کون ہے۔؟مجھے ان’’ کاروں‘‘سےبھی زیادہ دلچسپی آواز میں تھی۔اب کون گنے کہ وہ آوازکتنی بارسُنی تھی۔لیکن میں گن کر بتا سکتا ہوں کہ تحریک انصاف کےسربراہ عمران خان کومیں نےامین سیانی سےزیادہ سن لیا ہے۔آٹھ ،دس سال پہلے انہوں نے جوکیسٹ چلائی تھی۔مسلسل چل رہی ہے۔

ہفتہ، 23 اپریل، 2016

شہزادےجھوٹےہیں۔ ۔؟

پیارے بچو۔!
ایک بادشاہ تھا۔وسیع و عریض سلطنت کا مالک۔خزانوں سے بھری ہوئی سلطنت۔لیکن سارے خزانےمدفن تھے۔’’زندہ‘‘ خزانے  حواری کھاپی چکےتھے۔ بادشاہ۔تیسری۔رسم تخت پوشی سےقبل مدفن خزانوں کونکالنے کی باتیں  اکثرکرتا تھا۔تخت طاؤس پربیٹھتے ہی۔سب کچھ بھول گیا۔خزانہ یوں دفن  رہ گیا  تھا گویا تجہیز وتکفین کرکےدبایا گیا ہو۔بادشاہ کی یاداشت ’’گجنی‘‘فلم  کےہیروعامرخان کی طرح شارٹ ہوگئی تھی۔اس کےپاس ایک کیمرہ تھا۔جو۔نو۔رتنوں کی تصویریں کھینچ کربند ہو گیا تھا۔دربار میں کوئی اورداخل نہ ہوسکتا تھا۔زنجیر عدل ٹوٹ چکی تھی۔قانون گھرکی لونڈی تھا۔انصاف وہاں کی   مہنگی ترین جنس تھی۔خزانہ طوائف کی طرح مسلسل  اُجڑ۔رہا  تھا۔گِدھ آج بھی لاشےپر اڈاریاں مار ۔رہے تھے۔ راجہ  ٹوڈر مل کی بصیرت خزانہ۔جواب دے چکی تھی۔

ہفتہ، 16 اپریل، 2016

پاجامہ لیکس ۔۔!

ہر سال موسم برسات میں طفیل کے گھر کی چھت یوں ٹپکتی گویاساری بارش  یہیں ہورہی ہو۔طفیل وغیرہ سات بہن بھائی تھے۔بارش ہوتے ہی سارے کچن میں بھاگ  جاتے کیونکہ پکوڑے چھت سےنہیں ٹپکتے۔ لیکن کچن سے نکلتے تو برساتی پکوڑوں کےبجائے ہاتھوں میں ۔دیگچیاں، بالٹیاں، ہانڈیاں، کٹوریاں اور جگ  وغیرہ  ہوتے۔سارا خانگی اسلحہ وہاں نصب کر دیا جاتا جہاں چھت لیکتی۔اورخودکونے کھدروں میں مورچہ  زن ہوجاتے۔پانامہ  لیکس  بھی طفیل کی چھت کی طرح  برسی ہیں۔لیگی وزر ا۔دیگچیاں، بالٹیاں اور ہانڈیاں پکڑے پھر رہے ہیں۔


ہفتہ، 9 اپریل، 2016

پشاور میں چوہا سیاست

مرید کے نصیب میں جب سےنصیبو لکھی گئی تھی۔ اس کی زندگی  میں ڈر اُتر آیا تھا۔ گھر لوٹتے ہی  اپنے بِل میں گھس جاتا۔رسوئی سے چُمٹےکی آوازبھی آتی تو اسُے اپنی شامت محسوس ہوتی۔وہ شروع سےتوچوہانہیں تھا لیکن  نصیبو  پکی۔ پیدائشی بلی تھی۔کٹورا منہ کو لگا کردودھ غڑپ کرنے والی۔گول آنکھوں،تاؤ بھری مونچھوں  اور  نوکیلے پنجوں والی۔ بلی کے  خوف  سے مرید کی بھوک مر چکی تھی۔ پلیٹ میں پڑی روٹی اُسےکڑِکی میں لگی نظرآتی۔گھنٹی باندھنے کی تواس میں  ہمت نہ تھی۔لیکن وہ  ماہرین  ازدواجیات مرید کی آخری اُمید تھے۔جوسوچتے ہیں کہ بیوی  شوہرکی نسبت چوہے سےزیادہ  ڈرتی ہے۔تبھی وہ چوہے پر ہی پکا ہو گیا تھا۔

ہفتہ، 2 اپریل، 2016

غیر آئینی ڈکار۔۔۔ !

ڈکار دراصل ہاضمے کی ایسی کیفیت کو بیان کرتا ہے۔جس میں لنگوٹ فیلوزاور رشتہ دارتُکا لگاتےہیں کہ آپ کےمعدےمیں کتنا تیز دھار گرائینڈر فٹ ہے۔؟ہاضمےکی اہمیت وہ لوگ زیادہ جانتے ہیں جن کا ڈھکار پھنس جاتاہے۔ڈکارآنا،لینااورپھنسنا۔تینوں حالتوں میں بسیارخور کا منہ پیدائشی سانچےکے بجائےنئی ساخت میں ڈھل جاتاہے۔مشاہدہ تو یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ ڈکاربھی نہیں لیتے۔سیاستدان،دھنوان اور افسران اس  مشاہدےکی تجربہ گاہیں ہیں۔یہاں سیاسی اور معاشی کئی ڈکار رائج ہیں۔ان ڈکارئیوں کو نہ تو اپھارا ہوتا ہے اور نہ ہی طبیعت سیر۔انہیں تبخیرمعدہ کی شکایت ہوتی ہے نہ ہی السرکی۔ان کے شکم سےگڑوم گڑوم کی آوازیں کبھی نہیں آتیں۔زبان کوچسکااور چٹخارہ لگا ہوتاہےیہ ضروری نہیں کہ ان کی توندیں دریائی گھوڑے جیسی ہوں لیکن ان کے ضمیر اور معدےلکڑاور پتھر ہضم ہوتے ہیں۔ہائی سپیڈ گرائینڈر والے۔انہیں سیاسی اور انتظامی۔بدہضمی کی شکایت کبھی نہیں ہوتی۔