ہفتہ، 23 جولائی، 2016

آل پاکستان رن مرید ایسوسی ایشن

یہ سائنسی دور ہے اور ہر چیز کو ماپنے کا پیمانہ بھی سائنسی ہے۔حتی کہ پیار کی پیمائش بھی لو (love) کیلکولیٹر سے ہوتی  ہے۔مُحب اور محبوب کا نام  فیڈ کریں تو کلیکولیٹر فٹ بتائے گا کہ شرحِ پیار کتنی ہے۔؟۔سائنسی شرح نمو کم رہےتو فہرستِ عاشقاں سے مزیدنام کیلکولیٹر میں فیڈ کرتے جائیں۔حتی کہ معاملہ نوے، پچانوے  تک نہ پہنچ جائے۔پھر زبردستی کے ’’تعلقات‘‘ استوارکر لیں۔ویسے بھی ماڈرن عشق چائنا کے مال کی طرح غیر معیاری اور ناقابل بھروسہ ہو چکاہے۔۔گئے وقتوں میں عاشق پھول کی پتی پتی توڑ کرhe love me and he love me not سےوفا جانچتے تھے۔
طلباکتابِ عشق  کا ورقہ ورقہ تھل کےاحتسابِ عشق کرتے تھےاور سہیلیاں آپسی پیار جانچنے کے لئے کانچ کی چوڑی سے جُوڑ نکالتی  تھیں۔چوڑی کو لعاب لگایا۔ماتھے کو چھوا، پھر کہا پہلے تمہارا پیار نکالتی ہوں اور بعد میں اپنا۔سہیلی چوڑی ہتھیلی پر توڑتی جو تھوڑا بہت ’’ست‘‘ ہاتھ پرگرتا۔وہ شدت عشق کا پیمانہ ہوتا۔اس دوران چوڑی سے ہتھیلی زخمی بھی ہوجاتی۔’’محبتی‘‘جانتے تھے کہ چوڑیاں سچ بولتی ہیں۔تو وہ وفا کی رفتار بڑھا دیتےتھے۔پیمائش عشق کے کئی پیمانے ہوتے تھے لیکن آزمائش عشق کا ’’لو کیلکولیٹر‘‘ایک ہی ہے۔
شوہر(انجان عورت سے):میری بیوی نہیں مل رہی۔آپ کچھ دیرمیرے پاس رُک سکتی ہیں۔؟
عورت: وہ کیوں۔؟
شوہر:میں جب بھی  کسی عورت سے بات کرتاہوں میری بیوی کہیں نہ کہیں سے ضرور آجاتی ہے۔
بیوی کے ساتھ شاپنگ پرجانے والےاکثرشوہر گم ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں شوہر انہیں دکان دکان ڈھونڈھتے ہیں اور بیویاں انہیں گلی گلی تلاشتی ہیں۔ میلاپ ہوتے ہی بیویاں برہم ہوجاتی ہیں اور شوہر نرم ۔۔کہتے ہیں کہ غصہ آنا مرد کی نشانی ہے اور غصہ پی جانا شادی شدہ مرد کی نشانی ۔میرا دوست شیخ مرید شادی شدہ ہے۔ اسے بالکل غصہ نہیں آتا۔وہ’’نرم دمِ گفتگو ہےاورنرم دمِ جستجو بھی‘‘ وہ نام کابھی مرید ہےاور۔رن مریدبھی بلکہ کئی سال سےگھردامادہونے کی وجہ سے وہ سسرالی مریدبھی ہے۔کھانے، پینے اورجینے کے لئےوہ سسرال پر انحصارکرتا ہے۔وہاں پل پل کے وہ  ’’پالتو‘‘ہوچکا ہے۔ساس،سُسر اورسالےاسے کبھی ’’سُسرائیل‘‘ نہیں لگے۔مرید نےبھی کبھی ڈبل سٹینڈرڈ نہیں رکھا۔وہ نصیبو کا نکاحیِ تابعدار ہے۔نصیبو بھی اسے روزانہ خرچہ دیتی ہے۔بعض  شوہروں کے بٹوئےپیاز کی طرح ہوتے ہیں کھلتے ہی آنسو نکل آتے ہیں۔مرید کا بٹوا۔اندر سے تربوزجیسا رہتا ہے۔وہ ہربڑےفیصلےسےپہلےاپنےدل سےپوچھتا ہے۔پھر دماغ سے۔۔پھر یاروں دوستوں۔اور بہن بھائیوں سے مشورہ کرتا اور۔والدین سے صلاح بھی کرتا ہےلیکن کرتا وہ ہے جونصیبو کہتی ہے۔  
دوست: یارتمہیں برانہیں لگتا کہ تم بیوی کےساتھ مل کر کپڑے دھوتے ہو۔؟ 
شوہر:برالگنے والی کونسی بات ہے۔؟ وہ بھی میرے ساتھ مل کر برتن دھوتی ہے۔
مرید  رن مریدوں کا رول ماڈل ہے۔ وہ کہتا ہے رن مریدی ایک کیفیت کا نام ہے جو ہرشوہرپر طاری ہوتی ہے اورمیں اس کیفیت میں مستقل رہتا ہوں۔ایسا شوہر گھرمیں ’’آیا‘‘بھی ہوتا ہے اورآئے گئے کا ذمہ دار بھی ۔کپڑا۔لیڑا۔اور ہانڈی روٹی بھی اُس کے ذمہ ہوتی ہے ۔ہر گھردارشوہرکی بیگم ۔بےغم ہوتی ہے۔نصیبو بھی پھُوڑ مغز نہیں تھی لیکن اس نے کبھی زبیدہ آپا بننے کی کوشش بھی نہیں کی۔مرید وہاں بیوی بن کررہتا تھا۔شادی کے  بعداُس کی’’ ڈولی‘‘سسرال میں جواُتر گئی تھی۔ کہتے ہیں کہ’’اگرآپ بیڈ ٹی پینے کے شوقین ہیں تو اپنابستر کچن میں لگائیں‘‘۔نصیبو کو بیڈ ٹی کا شوق تھا سو مریدکہاں سوتا تھا آپ جانتے ہی ہیں۔پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر بڑا چرچہ ہوا کہ’’بیوی اگر آپ سے تھکاوٹ کی شکایت کرے تو اس کے لئے ایک اور بیوی لے آئیں۔نصیبو پیدائشی تھکن کا شکارتھی  لیکن مریدکسی ایڈونچر کامتحمل نہیں ہو سکتا تھا۔وہ ان شوہروں سے خار کھاتا۔۔جو سمجھتے ہیں ’’گھر کو جنت بنانے کااختیار بیوی کے پاس ہوتا ہے۔اگر وہ میکے چلی جائے‘‘۔وہ کہتا ہے یہ بیوی پر رعب جھاڑنے کا دور نہیں۔عزت و احترام سے پیش آئیں تو وہ بھی احترام کرتی ہے۔
شوہر:میں تم سے ناراض ہوں۔تم وجہ نہیں پوچھو گی۔؟
بیوی: نہیں میں تمہارے فیصلے کا احترام کرتی ہوں۔
احترام آدمیت ہی ہر رن مرید کاسبق ہے۔گئے دنوں میں شوہر کی انا۔باقرخانی کی طرح خستہ ہوتی تھی۔ فورا بکھر جاتی ۔تب ہر جرم کی  سزاعورت کو ملتی تھی۔آج وہ سزا شوہرکو ملتی ہے یہ معاشرہ رن مریدوں کاہو چکاہے۔باقرخانی  شوہر۔اب میسو کی طرح Ignored ہیں۔کہتے ہیں کہ بیوی اگربدمزاج ہوتوشوہرکی زندگی صدقہ جاریہ ہوتی ہے۔سقراط نے اس دنیا کو کئی نظرئیے دئیے۔اُس نے ملک کی سب سے بد مزاج عورت کو تلاش کرکے شادی کی۔اس عورت نےسقراط سے’’سوتیلے شوہر ‘‘والا سلوک کیا۔ سقراط نےایام کی تلخیِ کو ہنس کر پینے کی شعوری کوشش کی۔شائد وہ دنیا کا واحد شوہرتھاجس نے زہر کا پیالہ دوبارپیا۔بلکہ بقول مشتاق احمد یوسفی کہ ’’وہ زہردے کرمارتی تودنیا کی نظر میں آجاتی۔اندازقتل تو دیکھو۔ہم سے شادی کر لی ‘‘۔وہ(سقرا ط) پیکرِ صبر۔رن مریدوں کاجد امجد تھا۔ ضبطِ نفس کے کئی سنگ میل اس نےعبورکئےتھے۔ کانٹوں کا بستر اس نے خودچُنا تھا۔نوشتہ دیوار خودلکھا تھا۔وہ جب تک زندہ رہا۔زنداں میں رہا۔کیونکہ وہ صرف سوچتا تھا۔اس کی بیوی بولتی تھی۔
رن مرید ایسوسی ایشن کا ممبر شپ فارم 
کال سینٹرکےباہر کھڑا۔آدمی اندر والے سے بولا: معاف کیجیے گا آپ کافی دیر سےفون ہاتھ میں لیے کھڑے ہیں اور بول نہیں رہے۔؟
دوسراشخص: میں اپنی بیوی سے بات کر رہا ہوں۔
شادی کےبعدہرشوہرکی زندگی میں ڈسپلن آجاتا ہے۔ کھانا پینا، دفتر آنا جانا وغیرہ، کپڑے ٹائم پر استری ہوتے ہیں۔صحت بھی اچھی ۔کیونکہ بیگم ہر کام سختی سے وقت پرکرواتی ہے۔ بیوی پرست شوہروں کی یہ نسل ہر گھر میں پائی جاتی ہے۔مریدتو۔نِرا۔سقراطی تھا۔مسلسل زہر پینے والا۔وہ کشمیریوں کی طرح صرف ظلم سہنے کے لئے پیدا ہواتھا۔اس کی حسِ آزادی سالوں پہلے دم توڑ چکی تھی۔آج کل وہ نئی تحریک کے لئے متحرک ہے۔’’آل پاکستان رن مرید ایسوسی ایشن‘‘۔مرید اس کا بانی چئیرمین ہے۔وہ ’’کند ہم جنس با ہم جنس پرواز۔۔کبوتر با کبوتر، باز با باز‘‘۔ کا مطلب بخوبی سمجھتا ہے۔اسے ملک بھر سے کئی ہم جنس بھی مل گئےہیں۔نگوڑے نےممبرشپ کا ایک فارم مجھے بھی بھیج دیا ہے۔ناہنجار۔! اللہ جانے کب مجھے سونگھ کرپتہ چلا گیا تھا۔۔ناٹھور۔مجھے کہتا ہے ایسویسی ایشن کا عہدہ بھی لےلو۔میں توصرف ممبر شپ ہی لے رہاہوں۔وہ بھی اس لئےکہ سائنس ترقی کر رہی ہے اور۔ رن مریدی کی  پیمائش والا کیلکولیٹر بن گیا توہرشوہرپکڑا جائےگا۔اپنی شائدعزت رہ جائے۔

3 تبصرے:

  1. بہت خوب سر، تبصرہ کرتے ہوئے سمجھ نہیں آ رہا کہ لکھاری کی تعریف ہو یا دوست مرید کی،تحریر کی تسبیح میں دل سے نکلے لفظ کچھ اس انداز سے پروئے گئے کہ بلاگ پڑھتے ہوئے دونوں میں قطعی کوئی فرق محسوس نہیں ہو پایا، کس خوبصورتی سے رن مرید کا کردار ادا کیا ہے اس "مرید" نے۔۔۔۔۔۔۔ جو بھی ہو لیکن آل پاکستان رن مرید ایسوسی ایشن پاکستانی شوہروں کے لیے سفید پوشی اور انا کا بھرم قائم رکھنے کے لیے بہت اچھا پلیٹ فارم ثابت ہو گی۔ اور استفادہ کرنے والے تاعمر اس انقلابی اقدام کے مدح خواں رہیں گے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. محترم سر، آل پاکستان رن مرید ایسوسی ایشن کے حوالہ سے دل کا غبار نکالنا، سمجھ میں آنے والی بات ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن تنظیم کی کامیابی اور زیادہ سے زیادہ رن مریدوں کو لبھانے کے لیے سقراط کا پتہ بڑی خوبصورتی اور ہوشیاری سے کھیلا ہے آپ نے۔ممبران خود کو سقراط کا ہم پلہ تو سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے ۔۔۔۔۔زندہ باد۔۔۔۔
    ۔کاش ہمارے تجزیہ کاروں کو علم کے اس انداز میں استعمال کرنے کا ہنر آ جائے تو روز روز کی چیخ و پکار ختم ہو جائے۔۔۔۔ اور قوم کو تاریخ سے آگاہی حاصل ہو ۔۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں