ہفتہ، 27 اگست، 2016

طلال چوہدری ۔ پٹھہ ن لیگ ۔

پپو:میں پریشان ہوں۔وہ لڑکی مجھےدیکھ کرہنسے جا رہی ہے۔
دوست:پریشان نہ  ہو۔جب پہلی بارمیں نےتمہیں دیکھا تھا تو۔تین دن  تک ہنسی   نہیں رکی تھی۔
میرےدوست  شیخ مرید نے جب پوچھا ’’ایم این اے طلال چوہدری  جانگیہ پہنے کیسا لگے گا‘‘؟۔میری ہنسی بھی تین روز نہیں رکی۔مجھے جون ایلیاکا قول یادآگیاکہ ’’وجود۔خیال کا زوال ہے‘‘۔مریدکا سوال جانگیہ پہنےکھڑاتھا۔ طلال چوہدری  کاوجود۔ڈنڈ۔ بیٹھک مار۔رہاتھا۔کیونکہ وزیرکھیل  سندھ محمدبخش مہر نےپنجابی وزرا  کوپش آپس کا چیلنج دیا تھا۔ڈنڈ مارنے کی  ویڈیو سوشل  میڈیا پروائریل ہوچکی تھی۔سندھی وزیرکی پکارپر۔کئی پنجابی’’محمدبن قاسم‘‘بننےکوتیارتھے۔طلال نےچیلنج قبول کر لیاتھا۔خیال مسلسل محوپروازتھا۔محمدبخش   بھی لنگوٹ  پہن چکےتھے۔سیاست کےنوآموز پٹھوں کوکڑِکی کےسواکوئی داؤ نہیں آتا تھا لیکن۔وہ۔بھولو کی طرح رستم پاکستان اورگامےجیسے    رستم زمان بننا چاہتے تھے۔

پیر، 15 اگست، 2016

حلال ڈیٹنگ

اللہ کا لاکھ  لاکھ شکر ہے کہ دنیانے ہمارا حلال اور حرام کا تصور مان لیا ہے۔ گورے آج  مسلمانوں کے کھانے پینے، اوڑھنے اوربچھونے کی اشیا پرحلال کا لال ٹھپہ مار کرمارکیٹنگ کر رہے ہیں۔حلال فوڈ ، ڈرنک، ادویات  اورحلال میک اپ   سمیت کئی چیزیں حرام مارکیٹوں میں بک رہی  ہیں ۔حرام جانور کے اعضا اور الکوحل سے پاک اشیا۔گویا۔سُپرسٹورز  میں پڑی جس چیز پرٹھپہ نہیں لگا وہ حرام ہے۔انہیں کوئی ’’حرامی‘‘ نہیں خریدتا۔ اوراللہ کا کروڑہا شکر ہے کہ حلال رشتے بھی عالمی منڈی میں دستیاب ہیں۔لال ٹھپے والے۔حلال رشتےملنے کی وجہ سے وہاں  بیٹھے  تمام رشتہ دار’’غیر حلال‘‘ ہوگئے  ہیں۔وہ اچھے خاصے سالانہ دورےپرپاکستان آتے اور۔درختوںپرپکے ہوئےڈالراورپاؤنڈتوڑکرہمارےلئے تحفے لاتے تھے۔ اب اُن کی ’’گاٹی‘‘کی گُنجلیں وہیں کھلنے والی ہے۔اللہ کا شکرہےکہ مسلمانوں کے لئے شادی سےقبل حلال ڈیٹنگ متعارف ہو چکی ہے۔لال ٹھپہ لگی لال ڈیٹنگ۔شادی سے پہلےحلالملاقات ۔والدین کی فکرسےآزاد۔

ہفتہ، 6 اگست، 2016

ڈورے مون۔ ن لیگی ہے ۔؟

بچپن میں ریلوے اسٹیشن یا لاری اڈا کی طرف جب بھی جانے کا اتفاق ہوتا۔ وہاں  اکثر مداری مجمع لگا ہوتا۔ مجمعے بار بار دیکھ کرمجھےگیان ہونے لگاتھا کہ’’مداری اب  کیا کرےگا‘‘۔مداری ہاتھوں کے ہنر اور زبان کے چتر سے ایساجادو کرتا کہ ’’تاثیر‘‘ روح تک اتر جاتی۔لیکن اچانک دل اچاٹ  ہوگیا۔اب جستجو رہتی کہ مداری کے ہاتھ  کی صفائی اور زبان کی  چترائی  کا مشاہدہ کروں۔ تماشہ دیکھنےوہاں کئی اوربھی تماش بین آتے تھے۔ہمارے ہاں جب مداری اور شعبدہ باز۔ تماش بینوں کی آنکھوں کو خیرہ کررہے تھے۔ تب پورا۔ یورپ  ہپناٹزم کے سحر میں ڈوبا ہوا تھا۔ لیکن میرے فکر و خیال  کےبند دریچے جب وا۔ہوئے تو مداریوں کے علاوہ بھی کئی شعبدہ بازنظرآئے۔’’دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گرکھلا‘‘والا یک سطری شعر کئی بار یاد آیا۔عامل اور بچہ جمورا۔ کی گفتگو دماغ  کو۔ کوہلو بنائے رکھتی ۔’’ بچہ جمورا۔جی استاد۔ تھوڑا سا گھوم جا۔تھوڑا سا جھوم جا۔جوپوچھوں گا۔بتائے گا ‘‘۔مجھے سب ازبرتھا کہ اب کیا باتیں ہوں گی۔؟۔اچانک تماشے میں سیاست عود کر آتی۔مداری بیداری کی باتیں کرنے لگتا۔جمورے سیاسی ہو جاتے۔ اسلام آباد کی باتیں ہونے لگتیں ۔ اور جمورا ۔ ڈُگ ڈگ پر’’فرفر‘‘ ناچنے لگتا۔