ہفتہ، 27 فروری، 2016

’’بندر پبلک سکول‘‘

’’ط‘‘جب بھی  بیڈ پرتنہاسونا چاہتا۔ اپنی بیوی سےلڑائی کرلیتا اوربسترپریوںرات بھرلیٹنیاں لیتاجس طرح  مال بردار جانور دن بھرکی تھکان کھلےمیدان میں پشت رگڑکراتارتے ہیں۔ ’’ط‘‘ کی بیوی دوسرےکمرے میں سورہتی لیکن حیلے بہانے جب بھی حجلہ عروسی  میں آتی۔ کانی آنکھ شوہرپرضرورڈالتی۔جانےکیوں’’ط‘‘ کی لیٹنیاں اسےبندرکی ٹپوسیاں لگتیں۔ہرصلح کے بعد بھابھی’’ط‘‘ کوضروربتاتی کہ’’تم سوتے ہوئے بندرکی طرح ٹپوس رہےتھےاورڈبل بیڈکوبندرگاہ سمجھ رکھا تھا‘‘۔ہمارے ہاں بندروں کی دونسلیں ہیں۔پہلی  جنگلی یا۔چڑیا گھری۔اوردوسری گھریلو بندر۔گھریلو بندرقابوکرنا ہوتو’’طویلے کی بلا بندرکےسر‘‘ڈالی جاتی ہے اورجنگلی بندر کابہترین توڑ۔لنگورہے۔ہندوستان میں ہنومان  سےمشابہت  کی وجہ سے  بندربہت سر چڑھےہیں اسی لئےوہاں بندروں سے نمٹنےکےلئےلنگو رکرائے پردستیاب ہیں بلکہ بلدیہ نےلنگوربھرتی بھی کررکھےہیں۔

میاں بیوی سڑک پر واک کر تھے۔۔ تو ایک لڑکے نےفقرا کسا ۔حورکے پہلو میں لنگور
شوہر نےغصے میں۔۔چھچورے کی  پھینٹی لگا  دی اور۔۔بولا   میری بیوی کولنگورکہہ رہا ہے ۔
اکثر شوہروہ  سارے الزامات ماننے سے انکاری ہوتے ہیں جو’’ازدواجی عدالتیں‘‘ان پرلگاتی ہیں۔ازدواجی عدالتوں میں روزانہ سوموٹو لیا جاتا ہےاورنتیجہ  صفر نکلتا ہے۔ گھرکادھیان   نہیں رکھا۔سودا سلف نہیں لائے۔دفتر سے لیٹ کیوں ہوئے۔اب  رات کوکہاں جا رہے ہو۔پرفیوم کیوں لگایا ہے۔لیڈی سیکرٹری کیوں رکھی ہے۔کس سے بات کررہے تھے۔اتنی لمبی کال کیوں کی۔امی کے گھرکیوں نہیں جاتے۔میری کزن سے بڑی ٹرٹرہورہی تھی۔اب بولتے کیوں نہیں۔؟ہرشوہرکے خلاف لمبی چارج شیٹ ہوتی ہے۔شوہرسزاکے بغیر ہی  اسیری کاٹتے ہیں۔پھرپھدکنےکےطعنےبھی۔صدشکر کہ نجی عدالتیں ایک برانڈٹ سوٹ کی مارہوتی ہیں۔لیکن ازدواجی مقدمات۔این آراونہیں ہوتے۔جج کا جب بھی نیاسوٹ لیناچاہےکیس  ری اوپن  ہو جاتاہے۔جیسے’’ط‘‘جب سونا چاہتا ہےلڑپڑتا ہے۔ایسی عدالتوں میں دم مارنےکی مجال بھی نہیں ہوتی۔سرتسلیم خم، نگاہ نگوں رہتی  ہے  اور سخنِ دل نوازی کی اجازت نہیں ہوتی۔بلکہ معاملا ت۔نشستن ،گفتن ، برخاستن۔جیسے ہوتے ہیں۔
آفیسر:ایک جہاز پر 500 اینٹیں ہیں۔ ایک باہرگر گئی باقی کتنی بچیں۔؟
امیدوار:499 اینٹیں
آفیسر:ایک ہرن کو فریج میں رکھنے کے3مراحل بتاو۔
امیدوار:فریج کھولیں،ہرن اندر رکھیں اور  بند کر دیں
آفیسر:ایک بندر  کو فریج میں رکھنے  کے چار مراحل بتاؤ
امیدوار:فریج کھولیں۔ہرن باہر نکالیں اور بندر ۔ اندر رکھ کر  فریج بند کر دیں
آفیسر:شیر کی سالگرہ تھی،تمام جانور آئےہیں۔ ایک نہیں آیا۔کیوں؟
امیدوار:کیونکہ بندر فریج میں ہے
آفیسر:ایک بوڑھیامگرمچھوں سے بھری جھیل کیسے عبور کرے گی
امیدوار:سکون سے۔کیونکہ تمام مگرمچھ سالگرہ میں ہیں
آفیسر: بوڑھیا پھر بھی مر گئی ۔کیوں۔؟
امیدوار:شائد۔ ڈوب گئی ۔؟
آفیسر:نہیں!جہاز سے گرنے والی  اینٹ لگنے سے ۔تم جا سکتے ہوJ
بندرکبھی بیڈ پر ہوتا ہےاورکبھی فریج میں۔لیکن وہ جہاں بھی ہو’’ لنگوری‘‘اشاروں  پر ناچتا ہے۔ نچانے والوں کا فرقہ’’مداریہ‘‘ ہوتا ہے ۔بندر بانٹ بھی وہی کرتے ہیں۔سر پہ پٹکا ، ہاتھ میں ڈگڈگی، منہ میں پان، آگے بندر، پیچھے بکری اور پہلو میں بچہ جمورا۔فطری جبلت کی وجہ سےبچپن میں درجنوں بار  یہ کردار دیکھے ۔مداری اور بچہ جمورا کا’’تھوڑا سا گھوم جا۔ تھوڑا سا جھوم جا‘‘۔والا مقالمہ آج بھی ذہن نشین ہے لیکن بندر’’سوہرے جانے  اور واپس آنے‘‘کی جو  ایکٹنگ کرتا تھا وہ ناقابل  ڈلیٹ ہے ۔شائد یہی ’’ط‘‘ ہےجو ڈارون کے ارتقائی نظرئیے کے بعد بیڈ پر چڑھ گیا ہے۔
بال کی کھال اتارنا مجھےقطعا پسند نہیں کیونکہ  طبعیت قصابی نہیں۔مجھے تو الفاظ کے ظاہری مطلب سے ہی مطلب  ہے ۔ پوشیدہ معنی تلاش کرنا انہیں ’’برہنہ‘‘  کرنا ہےاور مجھے برہنہ پا سے لے کر’’ برہنہ تا‘‘  تک کچھ بھی بھلا لگتا تو شائد قصاب ہی ہوتا۔البتہ بندر گاہ ایسا لفظ ہے جس کا  ظاہراور باطن بلکل سیاسی سا ہے ۔ الگ الگ ۔بندرگاہ کا بظاہرمعنی تو  بندروں کا ٹھکانہ ہے لیکن وہاں بحری جہازپارک  ہوتے ہیں اورٹیکس کلیکٹر  کو شاہ بندر کہا جاتا ہے۔ بندر روڈکراچی اسی  سے منسوب ہے۔بندرگاہ دراصل دو فارسی الفاظ۔ بند۔اور ۔در کا مجموعہ ہے۔یعنی  کوئی احاطہ یا محفوظ ایریا۔اردو والے ۔ بندرکو۔ فارسی میں ’’بوزینہ ‘‘اور انگلش میں monkey کہتے ہیں۔Monkey کامطلب ہے ۔بیوقوف حرکتیں کرنا ۔افسوس ۔! کہ بندر عجیب  برہنہ سا  ہو کر سامنے کھڑا ہو گیا ہے ۔
ڈارون نےحیاتی ارتقا اور تغیر کا جونظریہ گھڑا ہے ۔ ہنومان ۔اس  کا تصویری  ثبوت ہے۔  میں اکثر سوچتا تھا کہ  صابن دانی میں صابن ہوتا ہے۔ نمک دانی میں نمک ۔سرمے دانی میں سرمہ اور مچھر دانی میں شوہر کیوں  ہوتا ہے۔؟ اچانک اس سوچ کو ’’ط‘‘ والی بھابھی نے بدل ڈالا تھا۔ انہیں مچھر دانی میں بندر دکھتا ہے۔سنا ہے انسان کا بچہ  چپ ہو ۔ اور بندر کا بچہ شرارتیں کرتا ہو تو سمجھو دونوں بیمار ہیں۔پتہ نہیں یہ تاثردرست ہے یا شرارت۔ لیکن  بھابھی ’’ط ‘‘ کی ہرشرار ت کی عینی شاہد تھی اور میں رازداں۔سالوں بعد آج  یہ راز  منکشف کرنا پڑگیا ہے۔
خبر یہ ہے کہ بیجنگ چین میں۔بندروں کا پہلا اسکول کھل گیا  ہے۔نقلیں اتارنے میں مشہور بندر اب انسانوں کی تقلید میں شرافت سے اسکول میں  پڑھائی کیا کریں  گے۔کچھ جاپانی بندروں نے سمندر پار سے داخلہ لے لیا ہے۔منکی سکول میں بندروں کوریاضی بھی سکھائی جائے گی۔بندر  دو جمع دو چار کرتے کرتے لنچ میں کیلے کھائیں گے ا نہیں سرکس کی تربیت بھی دی جائے گی۔فارغ التحصیل  بندر چین کی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں بھیجے جائیں گے۔
بندر بیڈ،فریج اورمندرکےبعداسکولوں میں  بھی پہنچ چکے ہیں۔چین نےتو منکی پبلک سکول بنا کر اپنے بندر سدھارنے شروع کردئیے ہیں حالانکہ ضروری تھاکہ انڈیا ہنومان پبلک اسکول بناتا۔پاکستان تواس ترقی میں چین سے بہت پیچھے ہے۔بندر پبلک  سکول یقینا بھابھی مکتب فکرسےمنسلک  لوگوں نے کھولاہوگا۔وہ ٹپوستے شوہرکی اصلاح کے خواہشمندہوں گے۔شائد سکولوں کی دیواروں پرمارنہیں پیارکےبجائے   ڈگ ڈگ  ڈگڈگی لکھا ہوا ہو۔کلاس رومز میں کیلےاورملوک  کی تصاویربنی ہوں۔
پولیس انسپکٹر نے ایک کار روکی تو ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بندر بیٹھا تھا
انسپکٹر:جناب اسے چڑیا گھر لے جائیں۔اگلے دن انسپکٹر نےپھر بندر اور آدمی ساتھ ساتھ دیکھے تو پوچھا
انسپکٹر: میں نےآپ سے کہا بھی تھا چڑیا گھر نہیں لے کر گئے ؟
آدمی:کل ہم چڑیا گھر گئے تھے۔بہت مزہ آیا۔آج: سینما جا رہے ہیں۔
 اسی دوران خبر  نظر سے گذری ہے کہ سعودی عرب کے معروف  سفارتکار  بندر بن سلطان کو قومی سلامتی کا سیکرٹری بنادیا گیا ہے۔عربی میں سلطان تو بادشاہ کو کہتے ہیں لیکن  بندر کسے کہتے ہیں۔ اس جھنجٹ میں پڑنا ۔پھر قصائی بننے جیسا ہے۔ لیکن اطمینان یہ ہے کہ اس بار بندر بن سلطان۔ایک بیوی نے نہیں ماں  نے رکھا ہے۔ شائد دنیا کا یہ واحد بندر ہوگا ۔ جو ڈگ ڈگی کے بغیر ہی  سوہرے جاتا ہو۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں