منگل، 30 دسمبر، 2014

کلمہ طیبہ پاکستان کی بنیاد


ناقدین اردو۔۔۔اس فکر پر متفق ہیں کہ منٹو شناسی خاصا مشکل کام ہے۔۔۔سعادت حسن منٹو نے ہجرت آزادی۔۔۔کے دوران ۔۔۔۔سماجی بے حسی، خود غرضی اور لذت پرستی کی داستانوں کے ایسے نثری ۔۔۔ مرثیے لکھے ۔۔۔جن کی مکروہ نشانیاں آج بھی مسلم پاکستانی معاشرے میں بھی موجود ہیں۔۔۔۔
اردو فکشن کے اس تخلیق کار نے ’’کھول دو ‘‘ میں سکینہ اوراس کے والد سراج الدین کے کرداروں کی تشریح کی ۔۔۔ کہ پوری تصویر ذہن کے کینوس پر اترآئی ہے۔۔۔۔اقتباس
’’ڈاکٹر نے اسٹریچر پر پڑی ہوئی۔۔۔۔ لاش کی طرف دیکھا۔ اس کی نبض ٹٹولی اور سراج الدین سے کہا۔۔ کھڑکی کھول دو۔سکینہ کے مردہ جسم میں جنبش پیدا ہوئی۔۔ ۔ بے جان ہاتھوں سے اس نے ازار بند کھولا اور شلوار نیچے سرکا دی۔”

جمعرات، 25 دسمبر، 2014

تبدیلی ۔۔ شازیہ۔۔ شاہد بن گیا


میں بڑا ہو کر ٹرک بنوں گا۔۔۔
ایک رکشے۔۔کے پیچھے یہ تحریر پڑھی تو حیرت ہوئی ۔۔۔۔کیا ایسی تبدیلی ہو سکتی ہے۔۔۔؟
پھر تو خچر۔۔ گھوڑا بننے کی ضد کرے گا۔۔۔بکرا ۔۔اونٹ کی امید لگا سکتا ہے۔۔۔۔تانگہ ۔۔۔ ٹرین بننے کاپروگرام بنا سکتا ہے ۔۔۔!
ایسا ہو گیا تو۔۔۔۔یہ خلاف وضع فطری فعل ہوگا۔۔۔۔!۔تبدیلی عموماسیاسی اصطلاح ہے۔مادر جمہوریت ۔۔برطانیہ اور امریکہ سمیت۔۔۔ جمہوریت کے گاڈ فادر ممالک میں ۔۔بر سراقتدار جماعتیں اگلا الیکشن ہار جائیں تو لوگ اسے تبدیلی سے تعبیر کرتے ہیں۔۔۔۔ پاکستان میں بھی تبدیلی کاشور و غوغا ہوا ۔۔۔ الیکشن کے بعد ۔۔۔تبدیلی کا بگل عمران خان کےہاتھ میں تھا۔۔۔انہوں نے تبدیلی کا نعرہ لگایا تو۔۔ عوامی تحریک نے آوے۔۔ای ۔۔ آوے ۔۔کہہ کر ’’خلاف وضع فعل ‘‘میں شمولیت کر لی۔۔

ہفتہ، 20 دسمبر، 2014

ناک پوچھنے والے کی تلاش


گو بیگم گو پر بلا گ لکھا توخانگی تشدد کا شکار بہت سے دوستوں کو اچھا لگا لیکن اہلیہ محترمہ غصے سے نیلی پیلی ہوگئیں۔میری تو انکوائری held ہو گئی۔ ۔انکوائری کے بعد انہوں نے بار دیگر پڑھا۔۔۔ ماضی کے کئی خانگی قصے بلاگ کے واقعات اور لطائف سے جوڑ جوڑ کرسہ باری پڑھا۔ اس کے بعد شروع ہوا۔۔۔میرا احتساب ۔ تفصیلی جواب کے باوجود تشفی نہ ہوئی توسزا ملی کہ ہرزہ سرائی توکر بیٹھے ہو اب مدحہ سرائی کرو۔۔۔عنوان بھی جڑ دیا۔۔۔رو شوہر رو۔۔۔ ہم خصلتا ۔۔کورنش بجا لانے والوں میں سے تھے ۔۔سو ۔ اپنی بے عزتی کا سامان خود پید ا کیا۔۔ لیکن خود احتسابی کے دوران دماغ معاوف ہوگیا۔۔۔inspiration۔۔۔ نے ساتھ چھوڑ دیا۔ ۔اپنی برائیاں لکھنا بارگراں گذرتا ہے۔ بقول محسن نقوی
اس شہر میں ایسی بھی قیامت نہ ہُوئی تھی تنہا تھے مگر خود سے تو وحشت نہ ہُوئی تھی

جمعرات، 4 دسمبر، 2014

گو بیگم گو

گو نواز گو ۔۔ اور ۔۔ رو عمران رو ۔۔ یہ انقلابی نعرےہماری یوتھ کے ہیں ۔ ان میں کچھ نعرے ہیں اور کچھ ردعمل۔۔۔ نوجوان طبقہ اپنی اپنی جماعتی ضروریات کے مطابق ایسے نعروں پر اکثر چیختا چنگھاڑتا رہتا ہے۔ دونوں جماعتوں کے ناراض حمایتی نجی محفلوں میں چوری چھپے ایسے ہی نعرے لگاتے ہیں اور کچھ تو زیر لب گنگناتے بھی ہیں۔۔۔۔یہ نعرے صرف نوجوانوں کے ہیں اورنوجوان لااُبالی ہوتے ہیں اسی لئےہر نعرے کی عُمر ۔۔پانی کے بُلبلے جتنی ہوتی ہے۔۔مختصر ترین ۔۔۔ لیکن ہمارا تعلق نوجوانوں کی اگلی نسل سے ہے۔بڑھا پے کی طرف مائل۔۔ ادھیڑ عمری کی سوچیں پختہ ۔۔ اور۔۔ ارادے مضبوط ہوتے ہیں۔۔ اسی لئے ہم بوڑھوں اور نیم بوڑھوں کا نعرہ کئی صدیوں سے یکساں مقبول بھی ہےاور ہر شوہر کے دل کی آواز بھی ۔

جمعرات، 27 نومبر، 2014

محبت۔۔۔ پہنچ سے باہر


مذہب، معاشرہ اور تہذیب ہمیں جن کاموں کی اجازت دیں لیکن وہ کام ہم بہ وجوہ نہ کر سکیں   اسے انگریزی میں تو سوشل کنٹرول کہتے ہیں۔ اردو میں سماجی دباو کہنا مناسب ہو گا۔ سماجی دباؤ کے متاثرین اس ازیت ناک سوچ کا شکار ہوتے ہیں کہ’’لوگ کیا کہیں گے۔ ‘‘لوگوں کے خوف سے کوئی کام نہ کرنا ہی سماجی دباو ہے اوربعض لا پرواہ سماجی خوف سے بے پرواہ ہو کر کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ہم سماجی دباو سے غالب معاشرے میں پروان چڑھے ہیں اور ہمارے بچوں کے لئے دباؤ زدہ معاشرہ مکروہ ہو کر رہ گیاہے۔ جس کا فائدہ نہ نقصان ۔ان کے نظریات ، سوچیں سماج کے خوف سے ماورا ہو چکی ہیں۔وہ سماجی سنگینوں تلے گھٹ گھٹ کر جیتنے سے بہتر سمجھنے لگے ہیں کہ بے پرکیاں اڑا کر جی لیا جائے چاہے ایام زندگی کم ہی ہوں۔انہوں نے شیرمیسور ٹیپو سلطان کے اس مقولے’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہترہوتی ہے‘‘ کو اپنے معنوں میں ڈھال لیا ہے۔نسل حاضرسوچتی ہے کہ جو کچھ کرنا ہے کر جاؤ۔۔ لوگ تو ۔۔۔کچھ نہ کچھ کہتے ہی رہتے ہیں۔وہ کشورکے گائے ہوئے ہندی فلم امر پریم کے گانے سے متاثر لگتے ہیں۔’’کچھ تو لوگ کہیں گے لوگوں کا کام ہے کہنا‘‘۔دوسری جانب کچھ لوگ تو لوگوں کی باقاعدہ پرواہ کرتے ہیں تاکہ ٹکے ٹکے کی باتیں نہ سُننا پڑیں۔

بدھ، 19 نومبر، 2014

ہارن آہستہ بجائیں


بسوں ٹرکوں اوررکشوں کے پیچھےہم نے اکثرلکھا ہوا پڑھا ہے’’ہارن آہستہ بجائیں قوم سورہی ہے‘‘قوم اگر سو رہی ہے تو عمران خان کیوں دعوی کرتے ہیں کہ’’قوم جاگ گئی ہے‘‘ قوم جاگ گئی ہے تو ہمارے محلے کا چوکیدار کیوں سویا رہتا ہے۔؟ چوکیدار اگر سو رہا ہو تو رات کے وقت ’’جاگتےرہو‘‘کے آوازے کون کستا ہے۔لوگ اگر جاگتے رہیں گےتوکیا پولیس سوتی رہےگی۔ پولیس سورہی ہوتو کیا ضمیربھی سویا ہوتا ہے۔ضمیر اگر سو رہا ہو تو کیا شعور بیدارہوتا ہے۔ شعور بیدار ہو توالیکشن میں ڈالے گئے ووٹ کسی اورکی صندوقڑی سےکیسےنکل سکتےہیں۔؟ووٹ عمران خان کوڈالیں تونوازشریف کیسے جیت سکتا ہے۔؟ نوازشریف اگر چار حلقے کھول لیتے توکیا سسٹم ٹھیک ہوجاتا۔؟سسٹم اگر ٹھیک ہوجاتا توکیا آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کی ضرورت رہتی۔ انقلاب اور آزادی مارچ میں اگر ہزاروں،لاکھوں لوگ شریک تھےتوپھررکشےکے پیچھے کیوں لکھا ہوتا ہے’’ہارن آہستہ بجائیں قوم سو رہی ہے۔۔؟‘‘

جمعہ، 14 نومبر، 2014

ہوئے مر کے ہم جو رسوا

دنیا اچھے، برے،خوشحال، بدحال، بےحس، بےکس اوربے بس لوگوں سے بھری پڑی ہے۔کسی کو اپنی امارت کا اندازہ نہیں،کوئی رُکھی سوکھی کوبھی ترستا ہے۔لوگ مذہب کےلئے لڑتے اور مرتے ہیں لیکن انبیاءاور رسل نے کے احکامات بھول بیٹھے ہیں۔ دنیا کے ہر مذہب نے موت وحیات کا نظریہ پیش کیا ہے لیکن دین اسلام نے حیات بعدازموت کا فلسفہ بھی دیاہے۔۔ترجمہ ۔۔۔ ہرمتنفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے پھرتم ہماری طرف ہی لوٹ کرآوگے ۔(القرآن)
موت کسی بھی جاندار کی ہو اس کا دکھ تو ہوتا ہےلیکن انسان کی موت ہو تو دکھ ذرا مختلف ہوتا ہے۔ موت کے بعد پہلا مسئلہ کفن دفن ہوتاہے۔۔ پھر سوئم، ساتے اور چالیسویں کی رسمیں اور ان رسموں کو نبھانے کےلئے مہمانوں کے قیام و طعام کے کھلے خرچے۔

پیر، 10 نومبر، 2014

خود کُشی کی دعوت


محبت راہ عشق میں جنون اور مجذوبیت کا پہلا درجہ ہے۔ مجذوبیت صوفی ازم میں ایک شے کی ماہیت میں گم ہونے کی اصطلاح ہے جبکہ غیرتصوفی مکتب فکر کا خیال ہے کہ مجذوبیت دیوانگی کی ایک قسم ہے۔دائیں اوربائیں بازو کے نقطہ نظر میں اختلاف ہو سکتا ہے لیکن مجذوبیت کا ماخذ عربی زبان کا لفظ جذب ہے۔جس کے لغوی معنی غرق ہونے کے ہیں۔عشق انسان کو نکما بھی کر دیتا ہے اور پاگل بھی۔ پنجابی ادب کے شیکسپئیر سید وارث شاہ کوانہی کمالات عشق کا توجیسے کشف ہو جاتا تھا ۔شاہ جی نے ہمیں بھی سمجھانے کی کوشش کی لیکن ہم تب تک دیوانگی کی حدود میں داخل ہو چکے تھے۔یہ حدود واہگہ بارڈر جیسی قطعی نہیں تھیں جہاں سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا ایک پاؤں بھارت میں تھا اور دوسرا پاکستان میں ۔

جمعرات، 6 نومبر، 2014

غیرت مند اور بےغیرت


غیرت مند اوربےغیرت میں صرف غیرت کا ہی فرق ہوتا ہے ۔ ہم غیرت مند کی بجائے ضرورت مند ۔زیادہ ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ ہم نے اپنی خواہشوں کوغیرتوں کے سر پر چڑھا رکھا ہے۔ہاں! تھوڑی بہت غیر ت ہمیں آتی ہے لیکن صرف خانگی مسائل پر۔ کیونکہ امورخانہ داری نبھانہ ہوتے ہیں۔ بہت پرانی روایت ہے کہ زن، زر اور زمین جیسے بنیادی عوامل غیر ت کو جنم دیتے ہیں لیکن یہ خانگی غیرت، قتل و غارت اور امن عامہ جیسےمزید مسائل جنتی ہے۔یہی تینوں عوامل آج بھی موجود ہیں بلکہ یہ کہنا درست ہو گا کہ ہمیں آج بھی غیر ت صرف انہی تین وجوہات کی بنا پر آتی ہے۔

منگل، 4 نومبر، 2014

رب کا شکر ادا کر بھائی


دودھ ، دہی، لسی، پنیر، مکھن، گھی اور بہت کچھ ہماری زندگی میں خاص اہمیت رکھتے ہیں یہ مصنوعات ہمیں بھینس اور گائے کے دودھ سے حاصل ہوتی ہیں۔مگر آج کل بڑے شہروں میں گائے اور بھینسیں رکھنے پر پابندی لگا دی گئی ہے،لائل پور ویسے تو ترقی پاکر فیصل آبادکے درجے پر فائز ہو چکا ہے لیکن گاوں کو شہر بنتے دیر لگتی ہے اس کے باوجودیہاں مجھوں اور گائیوں سے شہروں جیسا سلوک ہو رہا ہے۔شہرمیں ایک یا ایک سے زائد بھینسوں کے رکھنے یا جمع ہو نے پردفعہ144ت پ نافذہے۔ قانون شکنی کرنے والے ان دودھیل جانوروں کی تلاش میں سرکاری کھوجی یوں باہر پھرتے رہتے ہیں جیسےہم اکثرسُچے دودھ کی تلاش میں نکل جاتے ہیں، ویسے ’’شہروں میں سُچے دودھ اور سچے پیار کی تلاش کاسفر اکثر جاری رہتا ہے‘.شہرکی خوبصورتی،ماحولیاتی آلودگی اورسیوریج سسٹم وہ تین عوامل تھے۔