ناقدین اردو۔۔۔اس فکر پر
متفق ہیں کہ منٹو شناسی خاصا مشکل کام ہے۔۔۔سعادت حسن منٹو نے ہجرت آزادی۔۔۔کے دوران
۔۔۔۔سماجی بے حسی، خود غرضی اور لذت پرستی کی داستانوں کے ایسے نثری ۔۔۔ مرثیے لکھے
۔۔۔جن کی مکروہ نشانیاں آج بھی مسلم پاکستانی معاشرے میں بھی موجود ہیں۔۔۔۔
اردو فکشن کے اس تخلیق کار
نے ’’کھول دو ‘‘ میں سکینہ اوراس کے والد سراج الدین کے کرداروں کی تشریح کی ۔۔۔ کہ
پوری تصویر ذہن کے کینوس پر اترآئی ہے۔۔۔۔اقتباس
’’ڈاکٹر نے اسٹریچر پر پڑی ہوئی۔۔۔۔ لاش کی طرف
دیکھا۔ اس کی نبض ٹٹولی اور سراج الدین سے کہا۔۔ کھڑکی کھول دو۔سکینہ کے مردہ جسم میں
جنبش پیدا ہوئی۔۔ ۔ بے جان ہاتھوں سے اس نے ازار بند کھولا اور شلوار نیچے سرکا دی۔”