آج کل
مردوں و خواتین میں جو درد سب سے زیادہ
اِن ہیں ۔وہ دردِ شقیقہ اور۔ ریح کے درد
ہیں۔ ریح کا درد۔
کمر سے شروع ہوکرکولہے ۔اورپھرٹانگ تک
جاتا ہے۔درد کا تعلق کسی قبیلے سےنہیں
ہوتا۔لیکن بعض عمرانی ناقدین نے برگر نام سےایک نیا قبیلہ بنا دیا ہے۔جو دردِشقیقہ کومیگرین ۔اور۔ ریح کو شیاٹیکا کہتا ہے۔اگرچے۔برگرہردرد کوسردرد۔بنا چھوڑتے ہیں لیکن ہم کسی برگر
کا دردمحسوس نہیں کر سکتے۔سالوں پہلے
خواتین درد شقیقہ ہونےپر ڈوپٹے سےسر۔کس لیا کرتی تھیں۔بُورے( آٹے) کا
سوپ پی کر گھریلو ٹوٹکے بھی آزماتیں تھیں۔شقیقہ
آدھےسر کا دردہے۔جو رُک رُک کرہوتا ہے اورچند روزہ وقفےکے بعدپھرہوتا ہے۔میرا دوست
شیخ مرید کہتا ہے کہ دردِشقیقہ۔سیاسی دردہے۔یہ انقلاب کی طرح کئی بار
رُکتا ہےاوردھرنے کی طرح پھر ہوجاتاہے۔
پٹھان
نے اپنی بیوی کی پٹائی کی تولوگوں نے پوچھا:کیوں مار تے ہو۔
پٹھان:
میں نے کئی بار کہا ۔ داڑھی رکھو۔ لیکن یہ مانتی نہیں
لوگ
:لیکن عورتوں کی داڑھی نہیں ہوتی۔
پٹھان:
یہ تو مجھے بھی پتہ ہے لیکن یہ ارادہ تو
کرے ۔
شقیقہ
اور۔ریح کے بعد پھینٹی کی تکلیف درد کی
تیسری شکل ہے۔دردِ دل کے بعد یہ انسان کا دیا ہوا دوسرا بڑا درد ہے۔ ہمارے ہاں اکثرمردوں
کو لڑکپن میں اوربعض خواتین
کو شادی کے بعدتیسری قسم کے دردشکایت رہتی ہے۔طبی ماہرین نے دردکےلئے نئے طریقہ
علاج۔میوزک تھراپی کے کامیاب تجربات کئے ہیں۔جس میں مریض کو اس کا پسندیدہ میوزک
سنا کر ساتھ گنگنانے کی تشخیص بھی کی جاتی
ہے۔موسیقی کے پہلے پانچ سروں کو ابتدائی طورپر
آزمایا گیا ہے۔مرید کہتا ہے کہ یہ سچ ہے کیونکہ بین بیماربھینس کے آگے ہی بجائی گئی تھی
۔جسم میںساں ، ساں ہو تو میوزک تھراپی کےبعد اسے پہلا سُرسا ۔سا ۔سمجھا جائے۔ گانے
کا انترا سننے کے بعدمریض اگراستھائی
سنناچاہے تواس کی حالت خطرے سے باہرتصورہوگی۔وہ کہتا ہے کہ میوزک تھراپی انگریز دور کی پیدوارہے۔اگریہ طریقہ مغل دورِحکومت میں رائج ہوتا
توموسیقار اعظم کا نام ڈاکٹرتان سین
ہوتا۔
شوہر کوبے سُرا گاتے سن کر بیوی بولی:میرے ابا جب گاتے تھے
تو اڑتے پرندے بھی گر جاتے تھے۔
شوہر:کیوں تمہارے ابامنہ میں کارتوس ڈال کر گاتے تھے۔؟
کارتوس
۔ میوزک تھراپی کی وہ سٹیج ہے۔جس میں ڈاکٹر آپریشن تھیٹر سے باہر آکر کہتا ہے ۔معافی
چاہتاہوں میں نے بہت کوشش کی۔ شرح ا موات بڑھی تو ڈاکٹرز نے مالش شروع کروا دی
ہے۔مالش غیرپارلیمانی طریقہ علاج ہے۔سالوں پہلے
حویلیوں میں مہمان خانے ہوا کرتے تھے ۔جہاں تھکے مہمانوں کی تواضع مالشئیے کیا کرتے ۔ترجیح ان مہمانوں کو ملتی۔ جن کی مونچھیں تھک کر دس بج کر پچیس منٹ بجا رہی ہوتی تھیں ۔اچانک مہمان خانے ختم ہو
گئے ۔ مالشئیے سڑکوں پرشیشیاں کھنکھنانے لگے۔ وہاں پہلے ہی پالش، پالش کی
آوازیں آ رہی تھی۔ساتھ مالش بھی مکس ہو
گئی۔مرید کہتا ہے کہ مالشئیے ستار نواز کی طرح صرف اسی تار کو چھیڑتے ہیں۔ جوسروُر۔دیتی ہے۔ یوں
ہم مالشئیے کو بدن کاستارنوازکہہ سکتے ہیں۔
مشتاق
یوسفی لکھتے ہیں کہ۔گردن کے پیچھے جہاں
سے ریڑھ کی ہڈی شروع ہوتی ہے۔ایک رگ ایسی ہے کہ نرم گرم انگلیوں سے ہولے ہولے
دبائی جائے تو سارے جسم کی تھکن اتر جاتی ہے۔یہ آنکھ کو نظر نہیں آتی۔۔لیکن
مالشیا اپنی انگلی کی پور سے دیکھتا ہے۔یہی اس کی دوربین ہے جو چھوتے ہی بتا دیتی
ہے کہ درد کہاں ہے۔؟
درد
راجہ ریاض کے پیروں میں ہے۔شیاٹیکا درد۔وہ تحریک انصاف کے ایسے رہنما ہیں جو اسلام
آباد بندہونےسے پہلے بنی گالہ کا چکر
لگا کراپنے بنی گالہ (راجے والا) میں آکربند ہو گئے۔20 اکتوبر2016کوعمران خان فیصل
آبادمیں وکلا سے خطاب کرنے آئے تو کسی وکیل نے راجہ ریاض کے خلاف وہ نعرے لگا دئیے جوسابق صدر زرداری سے منسوب
تھے۔پھر وہ زرداری صاحب کی طرح ہی غائب ہو
گئے ۔چند روز پہلے راجہ ریاض کی ایک تصویرپر
نظر پڑی جس میں ایک مالشیا ان کےپاؤں دبا رہا ہے۔2013 کا الیکشن ہارکے وہ تھک چکے ہیں۔پھر تھک کر پیپلزپارٹی چھوڑی اورتحریک
انصاف کے ہو گئے۔ لیکن پی ٹی آئی میں ان کی موجودگی کا احساس۔درد شقیقہ کی طرح۔کبھی
ہوتا ہے اورکبھی نہیں ہوتا۔مرید
کہتا ہے کہ مالشیا ۔انسانی جسم کواس ڈھانچے میں دھکیلتا ہے جہاں سے وہ باہر نکلا
ہوتا ہے۔راجہ ریاض پیپلزپارٹی سے باہر نکلے ہیں۔
لڑکی: تم کیا کرتے ہو۔؟
لڑکا: سی ا ے
لڑکی :واہ چارٹڈ اکاؤنٹنٹ ۔؟
لڑکا : نہیں کمپلیٹ آرام
راجہ
ریاض آج کل ’’سی اے‘‘ کر رہے ہیں۔سنا ہے انہوں نے خود کو پرانے ڈھانچے میں
دھکیلنے کےلئے سابق وزیراعظم
راجہ پرویز اشرف سے رابطہ کیا تھا۔ لیکن ریاست میں نئے راجے کی گنجائش نہ نکلی ۔ اچانک
بلاول زرداری نے پیپلزپارٹی میں پردیسیوں
کی واپسی کا اشارہ دے دیا۔توقع اتنے پردیسیوں کی رکھی گئی ہے جتنے عید پرواپس لوٹتے ہیں۔ لیکن راجہ ریاض نے جوجگہ خالی کی تھی اس پر انہی کے
انوسٹرچوہدری
صادق جٹ امیدوار بن چکے ہیں۔راجہ صاحب کومیں
تب سے جانتا ہوں جب وہ مشرف آمریت کے خلاف تحریک چلا رہے تھے۔مجھےیاد ہے کہ
انتظامیہ نے ان کی گتہ فیکٹری سے گیس اور
پمپ سے پٹرول چوریبھی پکڑی تھی۔ لیکن لوگوں کو یاد ہےکہ بھٹو کی پھانسی کی خوشی میں راجے
والا سے حلوہ بھی بٹا تھا۔پھر وہ پیپلزپارٹی
کے مرکزی رہنما بن گئے۔اچانک عمران خان پر
تنقید کرتے کرتے شاہ محمودقریشی کے ہاتھ
پر بیعت کر کے پی ٹی آئی میں آگئے۔اب وہ پیپلزپارٹی کے بینرز ’’پاڑنے‘‘لگے تھے۔لیکن انہیں چلنے نہیں دیا جا رہا ۔ان کے پاؤں میں درد بھی ہے۔
کہتے
ہیں کہ مالش کے دوران گردن سے خون و سانس کی مخصوص ناڑ کو دبا دیا جائے تومریض بے
ہوش ہو جاتا ہے۔2 نومبر کو عمران خان نے10لاکھ ٹائیگر اسلام آباد بلائے
تھے ۔جس میں فیصل آباد کے صرف 10 ہزار ٹائیگرز
شامل تھے۔لیکن مالشیا مخصوص ناڑ دبا چکا
تھا۔کئی بے ہوش ہو گئے۔ فیصل آباد کے وہ رہنما جو دھرنے کی کامیابی کےذمہ دار تھے ۔اپنی ٹکٹ بچانےجتنی جد
و جہدبھی نہ کر سکے۔’’سقوط دھرنا‘‘ کے بعد کھلاڑیوں نے وہی نشتر اپنی مقامی قیادت پر برسائے جو ’’
پٹواریوں ‘‘کے لئے رکھے تھے۔بلکہ شہباز کسانہ نے تو
سوشل میڈیا پر لکھا کہ’’ میں شرمندہ ہوں
کہ عمران خان کی ہدایت کے مطابق زیادہ بندے نہیں لے جا سکا ۔ لیکن جب میں بنی گالہ
پہنچا تو حوصلہ ہوا کہ وہاں بہت سارے لوگ ایک بھی کارکن ساتھ نہیں لائےتھے‘‘۔ کھلاڑی آج میگرین اور ۔شیاٹیکا دونوں طرز کے درد میں مبتلا ہیں۔ بلکہ پولیس تشدد کے
بعد انہیں پٹھان والا۔تیسرا دردبھی ہو
رہا ہے۔ ڈاکٹر نےمیوزک تھراپی تجویز
کی ہے۔انترا اور استھائی سے ایکسرے کیا جائے گا۔مریض نے گانا بھی گنگنا نا ہے اور۔ راجہ ریاض کوصرف ایک ہی گاناآتا
ہے۔
بھٹو دے نعرے وجن گے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں