پیر، 26 ستمبر، 2016

رائے ونڈ مارچ۔۔۔ اور انڈا فورس

یہ ان دنوں کی بات ہے جب  گھر سےبھی انڈا ملتا تھا اور سکول سےبھی۔۔فرق صرف اتنا تھا کہ استاد جی ڈنڈے کے ساتھ انڈا دیتے تھے اور اماں جی بریڈ کےساتھ۔۔میں نے تب  گھرمیں مرغ پال رکھا تھا۔کیونکہ انڈےسکول سے مل جاتےتھے۔ہم نالائقوں نےمشہورکر رکھا تھا۔کہ استاد جی انڈے دیتے ہیں۔ اللہ جانے یہ آف شور کمپنی  کس نے  لیک کر دی۔پھراستاد جی نے سزا بدل دی ۔وہ پہلے مرغا بناتے۔اور پھر کہتے نالائقو اٹھو۔اپنی اپنی کاپی پر انڈےبھی خود بناؤ۔یوں استاد جی کی جگہ انڈےہم دینے لگے۔اور  آفاقی  تنازعہ بھی حل ہو گیا کہ دنیا میں مرغی پہلے آئی تھی یا انڈا۔؟۔ استاد جی۔

ہفتہ، 17 ستمبر، 2016

شیطان سے مک مکا ہو چکا ہے۔؟

اظہار عشق کے کئی طریقے ہیں ۔لیکن میرا ۔وسوسہ ہے کہ عشق مجازی ۔کا اظہار۔جانوروں کی جبلت، خصلت  اورعادات کی تشبیہ سے بڑھ کرکسی طریقے سےنہیں ہو سکتا۔وسوسہ ایسےخیالات اورشکوک وشبہات کا نام ہے جو شیطان دل میں ڈالتا ہے۔ممکن ہے عشق مجازی کی بنیاد کسی شیطانی خیال پرہی رکھی گئی  ہو۔کیونکہ عشق۔دل میں مروڑکی طرح اٹھتا ہے۔اور۔رقیب ۔وسوسہ کی زندہ مثال ہے۔۔بلکہ رقیب تو ایسا سرکشگھوڑا ہے جومنزل مراد پر پہنچنےسےپہلے ہی عاشق کو تھکا مارتاہے۔فریب ِنظرتواسےکہا نہیں جاسکتا۔وسوسہ ہیہوگا۔کہ محبوبہ ہمیں مورنی لگتی ہے۔

ہفتہ، 10 ستمبر، 2016

عمران خان تیرا ککھ نہ رہے۔!

مجھے بچپن سے ملتان سے پیار ہے۔اور۔اس پیار کی اکلوتی وجہ میرا پیٹ ہے۔جسے ملتانی سوہن حلوے کی لت لگ گئی تھی۔سفر وسیلہ ظفر۔ کی مانند جب کبھی ٹرین پر کراچی جانا ہوا۔ ملتانی سوہن حلوہ  خانیوال سےخریدنا پڑا۔ سنِ بلوغت سے پیرانہ سالی کی طرف راغب ہوئے تو ملتان میں اولیا اللہ کے مزار۔دلی تسکین  کاسبب بھی بن گئے۔تو ملتانی عقیدت پیٹ سے دل تک پہنچ گئی۔شعور تھوڑا۔ عالیِ مرتبت ہوا تو ملتان کی ازلی محرومیاں دیکھ کردماغ کی بتی بھی روشن ہوئی ۔ پھر عقیدت نے دماغ کو بھی لپیٹا مارلیا۔ملتان کے ساتھ ہر دور حکومت میں وہی سلوک ہوا۔ جو پارلمیانی طرز حکومت میں صدرسے ہوتا ہے۔ بلکہ یوں کہہ لیں کہ جنوبی پنجاب کا صدر مقام ملتان باقی پنجاب کا’’ ممنون‘‘ہے۔؟۔ملتان۔ اولیا اللہ کی وجہ سےمعجزوں کاشہربھی ہے۔لیکن پچھلے دنوں یہاں ایک سیاسی معجزہ ہوا۔ جس پر سرائیکیوں کو حکومت کا ممنون ہونا چاہیے۔

ہفتہ، 3 ستمبر، 2016

بکرا عید اور ۔ازدواجی ٹوٹکے

میرے دوست شیخ مرید نے پچھلے سال  ہی سوچ لیا تھا کہ وہ ازدواجی  مراسم کوملحوظ خاطررکھتے ہوئےاگلی عیدپرٹوڈ مارنے والا بکراخریدےگا۔ازدواجی خوشحالی کےلئے وہ سال بھرخود قربانی کابکرابنا تھا۔قربانی سے پہلے کئی بار قربانی دی تھی۔مریداورنصیبو تھےتومیاں بیوی لیکن ان میں سوکنوں والا پیار تھا۔وہی پیارجو۔بھیڑاور بھیڑئیے میں ہوتاہے۔ڈوئی، کڑچھی ، بیلنا، چمٹا، کفگیر وغیرہ۔اکثر شیخ ہاوس میں اڑن کھٹولےبنے رہتے۔محلےداربھی اکثر  اُن کی لڑائی میں ٹپک پڑتے کیونکہ ’’چل دی لڑائی پاک ہوندی اے‘‘۔ نصیبو شادی  کےبعد کافی موٹی ہوگئی تھی۔اورمریدکی صحت پرویز خٹکی تھی۔ چونکہ وہ اچانک اینمل لورتھا۔وہ جانتا تھاکہ جانورپالنےوالےلوگ لِسے (کمزور) ہی ہوتے ہیں۔بیوی اوربچے ہی اس کی دنیا تھے۔لیکن دنیا میں سکون نہ تھا۔اُس کا عقیدہ۔ان شاستروں جیساتھا جوسمجھتے ہیں دنیا گائےکےسینگوں پر قائم ہے۔وہ سرہلاتی ہے تو بھونچال آتے ہیں۔گھرمیں کئی زلزلےآچکےتھے۔