اگر
میں یہ کہوں کہ سیاستدان جوکام اقتدار میں
آکر۔کرتے ہیں وہ ہم بچپن میں کرتے تھے۔توغلط نہ ہوگا۔میں چھوٹاپے ۔میں کافی لالچی تھا۔اماں کچھ لینے بھیجتی تو ریزگاری مارلیتا۔ کبھی کبھار مکھن ٹافی کھالیتااورکبھی
ٹیڈی بسکٹ ۔گچک اور مرتبان میں رکھی برفی دیکھ کرمُنہ سیلابی ہوجاتا۔میرا بھی ایک
آف شورگُلک تھا۔تب بوتلیں گھروں میں
مہمان کے آنےپرآتی تھیں۔گھرمیں چابی نہیں ہوتی تھی۔دکانداربوتل کھول کر تھما
دیتا۔ واپسی پر چُسکی تو مسٹ ہوجاتی۔مہمان جتنے زیادہ آتے چُسکیاں
اُتنی ہی بڑھ جاتی تھیں۔تب ایک سے
زائدبوتلیں چھکُو میں لاتے تھے۔بڑے پارکس
میں جائیں تو وہاں مالشیے۔مختلف رنگ و قسم کے تیل سٹینڈ میں لگا کرگھومتے ہوتے ہیں۔ناں۔؟۔بالکل ویسا ہی
چھکُو۔زمانہ بدلا تو چابی ۔
چھکُو کے ساتھ یوں لٹکنے لگی ۔جیسےسبیل کے ساتھ گلاس۔میری جیب اورمنہ اکثر بھرا رہتا۔ بچے پیٹوہوتے ہیں میں کھاٹو تھا۔ ۔۔میرادوست مرید آج فُل موڈ میں تھا۔خوداحتسابی کی پہلی قسط لیک کردی تھی۔خود کلامی مسلسل جاری تھی۔چھونے۔چکھنے اورسونگھنےسمیت سارے حواس کی میراتھن لگی تھی۔صرف کان میرےپاس تھے۔مریدکا بچپن خراب گاڑی کےانجن کی طرح بکھرا پڑا تھا۔ٹائمنگ آوٹ تھی۔ریڈی ایٹر، پسٹن اورآئل فلٹر بکھرے پڑے تھے۔مرید ایک بارجھگڑکر روتا ہوا گھرآیا
ابا:جس سےلڑائی ہوئی ہےتم اسے پہچان لوگے۔؟
چھکُو کے ساتھ یوں لٹکنے لگی ۔جیسےسبیل کے ساتھ گلاس۔میری جیب اورمنہ اکثر بھرا رہتا۔ بچے پیٹوہوتے ہیں میں کھاٹو تھا۔ ۔۔میرادوست مرید آج فُل موڈ میں تھا۔خوداحتسابی کی پہلی قسط لیک کردی تھی۔خود کلامی مسلسل جاری تھی۔چھونے۔چکھنے اورسونگھنےسمیت سارے حواس کی میراتھن لگی تھی۔صرف کان میرےپاس تھے۔مریدکا بچپن خراب گاڑی کےانجن کی طرح بکھرا پڑا تھا۔ٹائمنگ آوٹ تھی۔ریڈی ایٹر، پسٹن اورآئل فلٹر بکھرے پڑے تھے۔مرید ایک بارجھگڑکر روتا ہوا گھرآیا
ابا:جس سےلڑائی ہوئی ہےتم اسے پہچان لوگے۔؟
مُرید:کیوں
نہیں ابا۔؟اس کاناک ابھی تک میری جیب میں ہے۔
اسے جو
کچھ ملتا۔جیب میں ڈال لیتا۔جیسے رشوت اور کمیشن جیب میں ڈال لیا جاتاہے۔تبھی تو
وہ کہتا ہےکہ سیاستدانوں والے کام میں
بچپن میں کرتا رہاہوں۔آج بچپن کی کارستانیاں۔راطوطےکی طرح اچانک بولنےلگی
تھیں۔دماغ سےوہی تحریک اٹھی تھی۔جوکبھی کبھارتحریک انصاف کےسربر اہ عمران خان
میں جاگ پڑتی ہے۔عمران خان ایسےسادہ آدمی ہیں۔کہ انہیں کوئی بھی شخص ۔ کچھ بھی
بتا دے تو وہ سچ مان لیتے ہیں۔صاف گوئی
ان کی وجہ بدنامی ہے اوراعتراف غلطی۔جرم ہے۔وہ کانوں کےکچے ہیں۔ بلکہ زبان کےبھی۔اس
باران کےساتھ نیا ڈرامہ ہونے والا ہے۔متحدہ اپوزیشن کا ڈرامہ۔سارے کردارخودکلامی میں لگے ہیں۔احتساب۔اور۔استعفی سب کچھ مانگا جا رہا ہے۔اورمیاں نواز شریف کا
جواب ہے۔یہ منہ اورمسورکی دال۔پاکستان کو آج تک مرید جیسا وزیراعظم نہیں
ملا۔خود کلامی کرنے والا۔وہاں کھایا پیاہضم کیا۔والا سسٹم
رائج ہے۔
خاتون( پڑوسن سے):میراشوہراتنا بھلکڑہے۔کبھی کوٹ بھول آتا ہے۔کبھی
چھتری اورعینک۔آج ٹماٹرلینے بھیجا ہے۔شرط
لگا لو۔بھول جائےگا۔
شوہر (گھرداخل ہوتےہوئےزور۔زورسے):بیگم۔یہ دیکھو۔۔مجھے ایک خبطی ملا۔ ہزاروں نوٹ دے کربھاگ گیا۔اورنوٹوں کا ڈھیرلگا دیا۔
بیوی( پڑوسن سے):دیکھا تم نے۔ٹماٹر لانا بھول گئے۔
شوہر (گھرداخل ہوتےہوئےزور۔زورسے):بیگم۔یہ دیکھو۔۔مجھے ایک خبطی ملا۔ ہزاروں نوٹ دے کربھاگ گیا۔اورنوٹوں کا ڈھیرلگا دیا۔
بیوی( پڑوسن سے):دیکھا تم نے۔ٹماٹر لانا بھول گئے۔
حسین اورحسن نوازبھی
ٹماٹر لانا بھول گئے تھے۔کوئی خبطی انہیں کروڑوں دے کربھاگ گیاتھا۔انہوں
نےآف شور کمپنیاں بنا لی تھیں۔ آج ایک
اورخبطی ان سے ٹماٹروں کا حساب مانگ رہا ہے۔خبطیوں کےمنہ ٹماٹرہوچکے ہیں۔جن
دنوں آف شور کمپنیوں کا چرچہ تھا۔ تب عمران خان۔ جہانگیر ترین اورعلیم خان کی مشترکہ تصویر پرمعروف دانشور انورمقصود نے
ٹوئیٹ کیا تھا۔’’عمران خان اپنی اے ٹی ایم مشینوں کے ساتھ ‘‘۔اچانک سارے بھید کھل
چکے تھے۔ راز راز نہ رہا تھا۔ جہانگیر ترین
اور علیم خان بھی آف شور کمپنیوں کے مالک نکل آئے تھے۔ترین اورعلیم بھی۔نواز کی
صف میں کھڑے تھے۔اسی صورتحال پر وفاقی وزیرخواجہ آصف نے شعلے فلم کا
ڈائیلاگ ٹوئیٹ کیا۔تیرا كیا بنے گا ۔كالیا۔؟یہ سوال۔اُس ملزم جیسا تھا جو
اعتراف جرم کے بجائے۔جوازجرم تلاش کرتا ہے۔یہ منہ اورمسور کی دال جیسا۔جواز۔اس جُگتی ٹوئیٹ کےبعدترین اورعلیم نےاپنی صفائی میں وزیر اعظم کابیان کاپی پیسٹ کیا۔میڈیاپر اپنی پارسائی کا چرچہ کیا ۔مرید
جیسا خود احتسابی وہاں بھی کوئی نہ نکلا۔
خودکلامی
ایسی کیفیت ہے جس میں انسان خودسےباتیں کرتا ہے۔وگرنہ خود کُشی کرلے۔ڈرامہ نگاری
کے معروف معلم۔ولیم شیکسپیئر کے ڈراموں میں اکثر کردارخود کلامی کےماہرتھے۔معلم۔لفظوں سےواقعات اورجذبوں سے کردار۔زندہ کرنے کا ہنر جانتا تھا۔ناقدین کا خیال ہے کہ خود کلامی نے شیکسپیئر کی نجی زندگی سے پردا۔اٹھایا۔نسل نو کی شاعرہ
پروین شاکر۔کا دوسرا مجموعہ کلام ’’خود
کلامی‘‘ تھا۔شاعری چونکہ سچ بولتی ہے توپروین شاکر بھی ذہنی دباو سے باہر نکل آئی تھیں۔خود کلامی میں شعر قطاراندرقطارکھڑے تھے۔محققین کہتے ہیں کہ خود کلامی سےذہنی
دباؤکنٹرول کیا جاسکتا ہے۔اپنے ضمیر کی آواز سننے سے غصہ کم ہوتا ہے۔بالکل مریدکی طرح۔میرا گمان بھی
یہی ہے’’الفاظ کےذریعے جذبات کا بہنا ز
ندگی ہےاورخاموشی موت۔خاموشی مقناطیسی طاقت کی طرح شوراپنے اندرکھینچ سکتی ہے۔ماتم، نوحے، سوگ ، الم اورسوز و گداز کا قبرستان بھی خاموشی ہی ہے‘‘۔تبھی تو کہتے ہیں کہ ’’خاموشی کا ادب کرو یہ آوازوں کی مرشد ہوتی
ہے‘‘۔
ہمارے گھروں میں بیوی مرشدہوتی ہےاوربچے ہوجانےپربیوی بطورماں مرشدبن جاتی ہے۔مرشدی
کی سب سےمشکل گدی یہی ہوتی ہے۔جس میں بچوں اورشوہر کے بھیدچل کرخودپاس آتے
ہیں۔اتنےسارےرازکہ اماں اپنا ایک ذاتی۔’’پانامہ لیکس‘‘ جاری کرسکے۔ہرسال۔میری اماں
ٹوٹلی ان پڑھ تھی۔ جیب کےاندرجوکچھ بھی
ہوتا تھا۔اماں ماتھےسےپڑھ لیتی۔لڑکپن جب جوانی کی دہلیز پردستک دے رہا تھا۔ تب میری جیب ویسے ہی پھولی ہوتی تھی جیسی نہر میں ہوا بھری ٹیوب ہوتی ہے۔
شادی ہوئی تونصیبو نے مادی اورمالی
ضروریات کی طویل فہرست بنا دی ۔پھر آف
شور اکاونٹ بنانا پڑگئے۔بیوی کے سامنے دم
مارنے کی مجال کسے ہوتی ہے۔؟دل و دماغ میں آتش فشاں بنتے گئے۔پھر خود کلامی کی
عادت پڑ گئی ۔ضروری نہیں کہ خود کلامی۔خوش کلامی بھی ہو۔جوبیویاں دن بھر رعب ڈالتی
ہیں ان کے شوہر رات بھر خود کلامی کرتے
ہیں۔مریدابھی تک بولے جا رہا تھا۔اس کا
آتش فشاں بھراپڑا تھا۔ کاش میں نے ریزگاری نہ ماری ہوتی۔؟
وفاقی
وزیر خواجہ آصف کا ٹوئیٹ۔تیرا کیا بنے گا ۔ کالیا ۔؟۔جواز ۔جرم کے برابرتھا۔اسےخودکلامی
بھی کہہ سکتے ہیں۔انہوں نےجوکہا وہ فلم میں گبھرسنگھ نےکہا تھا۔اب خواجہ صاحب
کوگبھرتونہیں کہا جا کتا۔وگرنہ حالات حاضرہ میں توبسنتی کا جملہ فٹ بیٹھتا ہے۔’’بھاگ دھنو۔آج تیری بسنتی کی عزت کا سوال
ہے‘‘۔شعلےکےبہت سےڈائیلاگ بہت ہٹ ہوئےتھے۔جیسے۔ ۔یہ رام گڑھ والے اپنی بیٹیوں
کوکون سی چکی کا آٹا کھلاتے ہیں۔۔جوڈر
گیا وہ مرگیا۔جب تک تیرے پیرچلیں گے۔اِس کی سانسیں چلیں گی۔۔اورمشہور زمانہ
ڈائیلاگ۔کتنے آدمی تھے۔؟۔سردار۔دوآدمی۔۔
حسن اورحسین نواز۔۔!
بہت خوب سر! پلاٹ اور کردار جاندار اور عین حسب حال ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ماشاءاللہ بلاگ لکھتے لکھتے جھکاو افسانے کی طرف ہوتا جا رہا ہے۔
جواب دیںحذف کریںیہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریں