ہفتہ، 15 اپریل، 2017

قومی ترقی میں گدھوں کا کردار

سنو ۔! مسٹر آج کل بڑے سوٹڈبوٹڈ پھرتے ہو۔تھری پیس سوٹ ۔۔ٹائی اورجوتے بھی برانڈڈ ہیں۔ تمہیں یاد نہیں؟ ۔ بچپن میں ہم  گدھے  تھے ۔کچی  جماعت سےدسویں تک۔بلکہ ہمارے بہت سے دوست تو  بڑے ہو کر بھی گدھے ہی رہے ۔اور ہمارے بچے گدھے کے بچے ہیں۔خواہ ۔۔ تمہارے پاس ۔ نوکری۔ گاڑی۔ گھر۔بیوی اور بچے ہیں۔میرے پاس بھی ہیں۔۔لیکن ہیں تو ۔ہم گدھے۔

ہفتہ، 8 اپریل، 2017

کہانی اس مرد کی جو مرغی بن گیا۔!

تقریباً دو سال پرانی بات ہے۔بڑی عید سے چند روز پہلے میرے دوست  شیخ مرید اوربھابھی نصیبومیں  لڑائی ہو گئی ۔ عید خوشیوں کا دیہاڑ ہے لیکن نصیبو میکے جا بیٹھی۔اورنوبت  علیحدگی تک پہنچ گئی۔ہوا۔یوں کہ مرید قربانی کےلئےبیل خریدکرلایا۔اسے کھونٹے سے باندھا ۔نصیبو بڑی ریجھ۔سے بیل دیکھنےآئی۔لیکن ہیضے کی طرح لڑائی اچانک پھوٹ پڑی۔مرید۔دراصل  چاہتا  تھا  کہ بیل کےلئے جو۔گانی، پٹہ، ماتھا پٹی، نتھ اورجھانجھروہ خریدکر لایا ہے۔نصیبو  پہن کردکھائے۔آرائشی چیزیں ۔اسے  پہنی ہوئی اچھی لگیں  تو  بیل کو پہناؤں گا۔

ہفتہ، 1 اپریل، 2017

بوسے والے موبائل

بچپن میں سکول سے جوئیں ڈلوا کر گھرآتے تو اللہ جانے آدھی اماں کے سر میں کیسے چلی جاتیں۔؟۔جوئیں نکالنے کےلئے اماں۔تارا میرا۔ کا تیل ڈال کر پہلے میرے سرمیں اور پھراپنےچمپئی کرتی۔اس کےبعد۔باریک کنگھی کے ساتھ   ایسا کومبنگ آپریشن شروع ہوتا۔کہ چٹخ پٹخ کی  آواز کےساتھ لاشیں باہر گرتی جاتیں اورسرمیں دس پندرہ دن کےلئے اتنا ہی امن ہوجاتا۔جتنا آپریشن ضرب عضب کے بعد ہوا ہے۔ سولہ سنگھار کا رواج تو اب نکلا ہے۔ تب ۔ا ماں ایک دو سنگھار ہی  کرتی تھی۔اور ۔وہ بھی organic سے ۔جیسے  مہندی لگانا۔اور۔داتن کرنا ۔ مہندی تب  جھاڑو کے تنکے سے لگائی جاتی تھی اور اخروٹ کی چھال کودس بارہ منٹ تک چبانے کو داتن کرنا کہتے تھے۔