ایک وقت تھا جب انگلی غیر سیاسی ہوا کرتی تھی تب اس کا ا ستعمال
صرف ادب میں ہوتا تھا ۔یعنی انگلی کی ترویج میں ادب
کا ہاتھ تھا۔ پھر کچھ بے ادب ۔ادب سے ہاتھ کرنے لگے۔اسی دوران انگلی سے بھی ہاتھ ہو گیا۔میں نےسالوں پہلے
اردو ادب میں پڑھا تھا۔’’سیدھی انگلیوں سے گھی نہیں
نکلتا‘‘۔ہم بے ادبوں نےتشریح کے دوران اس محاورے کی ساخت ہی تبدیل کر ڈالی۔ آج وہی محاورہ ۔’’گھی
سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو انگلی ٹیڑھی کر
لینی چاہیے‘‘۔میں بدل چکا ہے۔اگر مزید تبدیلی نہ ہوئی تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’’انگلی وہاں پہنچ چکی ہے جہاں
اسے ہونا چاہیے‘‘۔یوں انگلی کا وہ
سفرجو۔ادب سے شروع ہوا تھا ۔2014 میں
اسلام آباد پہنچ کرتھم گیا ۔ لیکن انگلی اُٹھی نہیں۔اسلام آباد پاکستان کا سیاسی مرکز ہے یوں ہم کہہ
سکتے ہیں کہ انگلی سیاسی ہو گئی۔
مریض : ڈاکٹرصاحب ۔
میں جسم پر جہاں بھی ہاتھ لگاتا ہوں۔ شدید
درد ہوتا ہے۔ مریض نے ٹانگ ، بازو، چھاتی وغیرہ پر ہاتھ لگایا اور کراہتا بھی رہا۔
ڈاکٹر ۔تفصیلی چیک
اپ کے بعد بولا ۔جناب آپ کی انگلی ٹوٹی
ہوئی ہے۔
اللہ ہی جانےاگست
2014 میں لاہور سےجو انگلی چلی تھی وہ
اسلام آباد کی مسافت میں ٹوٹی یا
پہلے سے ٹوٹی تھی۔ کیونکہ خواہش کے باوجود انگلی بیٹھی
رہ گئی۔ڈاکٹر ابھی تک کچھ بھی تشخیص نہیں کرپایا لیکن مریض جسم کے درد سے مسلسل چیخ رہا ہے۔ میرا دوست شیخ مرید
کہتا ہے کہ’’صاحب دست جیسا ہو گا۔ انگلی بالکل ویسی ہی ہوگی۔ اگر وہ سیاستدان ہے
تو انگلی سیاسی ۔ اگر وہ مولانا ہے تو
انگلی مذہبی اور اگر وہ
فوج میں ہے تو انگلی عسکری ہو گی۔تحریک انصاف نے سیاست میں ایمپائرکی
انگلی کی امید کی تھی۔یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کھلاڑی سٹمپ آؤٹ ہو رہا ہو۔
اور باؤلر ایل بی ڈبلیو مانگ رہا ہو‘‘۔انگلی کی ایسی تعریف میں نے پہلی بارسنی تھی۔لیکن تحریک انصاف 2008
سےمسلسل انتخابی بلکہ احتجاجی تحریک میں
ہے۔اس تحریک کے دوران انصافیوں نے بہت سے نئے نعرے بھی دئیے۔پٹواری کو گالی کے طور پر متعارف کروایا۔ ن لیگی جلسوں میں ناچنے والی خواتین کو ’’حلال مجرا‘‘
کا عنوان دیا۔ دھاندلی سے جیتنے کوپنکچر
کہا ۔احتجاج گریزسیاسی جماعتوں کو ’’مک مکا ‘‘ کہا۔ایک گیند پر دو آوٹ کرنے کا
دعوی کیا۔ایمپائر کوساتھ ملا کرباری
لینے کا الزام لگائے۔ میاں نواز شریف نے بائی پاس کرایا تورسیدیں مانگیں۔ اور
پانامہ کا ایشو بنا تو تلاشی مانگی۔
ایس پی صاحب دفتر
پہنچے تو انسپکٹر نے جرائم پیشہ عناصر کا
البم پیش کیا۔ایس پی: یہ کس کی تصویریں
ہیں۔؟
انسپکٹر :سر۔ یہ انتہائی خطرناک مجرموں اور اشتہاریوں کی ہیں۔
ایس پی:ویری گُڈ ۔ تمہیں کہاں سے ملیں ؟۔
انسپکٹر :سر میں نے خود کھینچی
ہیں۔
مجرم یہاں دنداتے پھر رہے ہیں اورسارے انسپکٹرفوٹو سیشن میں
مصروف ہیں۔مرید غصے میں ہو تو پنجابی ادب میں بات کرتا ہے۔بولا’’نانی نے خصم
کیتا بُرا کیتا۔کرکےچھڈ دِتا ہو ر۔وی برا کیتا۔وہ تو کہتا ہے۔یہاں ہر انسپکٹر نے اپنی
ڈیڑھ اینٹ کی کچہری لگا رکھی ہے۔پولیس
۔قانون کو گھر کی لونڈی سمجھتی ہے۔امرا کے لئے لاٹھی اور بھینس والا قانون ہے۔اور
غریبوں کےلئے قانون کے ہاتھ لمبے ہیں۔ادب نےبے ادبوں پر الگ الگ اثرات مرتب کئے
ہیں۔گھی ٹیڑھی انگلی سےبھی نہیں نکلنے والا۔شائدجامہ تلاشی سے کچھ نکل آئے ‘‘۔
پریشانی یہ ہے کہ جامہ تلاشی لینی کس کی ہے۔ یہاں تو چوربھی چور چورکہے جا رہے ہیں۔دوسروں
کی داڑھی میں تنکے ڈھونڈے جا رہے ہیں۔ اپنی اپنی ڈفلی پر اپنا اپنا راگ ہے۔اس ہجوم
میں سعد بھی کوئی نہیں اور بے گناہی و پارسائی کا دعوی بھی کوئی
نہیں کر رہا۔
خاتون پہلی مرتبہ موٹر وے پرگاڑی لے کر گئی توشوہر نے فون کیا
او ر بولا: بیگم موٹر وے پردھیان سے گاڑی چلانا۔ ٹی وی پر خبر آ ئی ہے۔ کوئی پاگل
تیزی سے گاڑی چلا کر مخالف سمت سے آ رہا ہے۔
خاتون
(چلا کر): ارے کوئی ایک بیوقوف۔ ؟ یہ کم بخت
تودرجنوں کی تعداد میں سامنے سے آر ہے ہیں۔
ملک
میں بھی درجنوں نہیں سارے ہی کم بخت ہیں جوخوش بخت
مخالف سمت سے آرہا تھا ۔اس پربھی یو ٹرن کا الزام لگ گیا ۔اب تو سارے ایک ہی کشتی کے
سوار ہیں۔ جامہ تلاشی لینے والا بھی کوئی
نہیں بچا۔جامہ تلاشی ایسی مفصل تلاشی کا نام
ہے۔ جس میں ملزم کے کپڑ ے اتروا لئے جاتے ہیں۔بالکل ویسے ہی جیسے امریکی
ائیرپورٹس پر پاکستانی سیاستدانوں کی ہوتی ہے۔ تحریک انصاف وزیراعظم کی ویسی تلاشی چاہتی ہے لیکن امریکہ
پتہ نہیں کیا چاہتا ہے۔البتہ مسلم لیگ ن کے رہنما دانیال عزیز ،
محمد زبیر اور طلال چوہدری الزام لگا رہے ہیں کہ عمران خان نے شوکت خانم کے چندے سے آف شور کمپنیاں بنائیں ۔انہوں نے چوری نہیں کی تو تلاشی دیں۔ جہانگیر ترین اورعلیم خان نےبھی کمپنیاں بنائیں۔عمران ان کی بھی
تلاشی لیں۔دوسری جانب عمران خان کا کہنا
ہے کہ مریم، حسین اورحسن نواز چوری مان چکے ہیں۔ نواز شریف اگر چور نہیں تو تلاشی دیں۔تحریک انصاف تلاشی یا استعفیٰ لیے بغیراسلام آباد سےنہیں جائے گی۔تحریک
انصا ف کی آواز میں چونکہ زیادہ دم ہے اسی لئے ن لیگ کی تلاشی کامطالبہ زورپکڑ رہا ہے۔جبکہ ن لیگ تلاشی دینے کے بجائےتلاشی لینے کےلئے اسلا م آباد
پولیس کو تیارکررہی ہے۔
پولیس نے رات گئے ایک شرابی کو روکا اور پوچھا کہاں جا رہے ہو۔ ؟
شرابی : میں شراب اور سگریٹ نوشی کے انسانی صحت پر اثرات کا لیکچر سننے جا رہا ہوں۔
پولیس:واقعی ۔؟ بہت خوب لیکن اس وقت لیکچر کون دے گا۔ ؟
پولیس:واقعی ۔؟ بہت خوب لیکن اس وقت لیکچر کون دے گا۔ ؟
شرابی :میری بیوی۔
ہزاروں
لیکچر سننے کے باوجودقوم شرابی کی طرح باز نہیں آ رہی ۔اللہ جانے ووٹرز کے ذہن
میں کون سی
بات ٹھہر گئی ہے کہ ہر بار وہی لوگ
منتخب
ہو رہے ہیں جن پر کرپشن،
دھاندلی اورمنی لانڈرنگ کے الزامات ہیں۔شائد سیاستدان کی جامہ تلاشی سے قبل ووٹرز کے ذہنوں کی تلاشی لی جانی زیادہ ضروری
ہے۔خیبرپختونخوا۔میں پچھلے دنوں سکیورٹی
حکام نے ایک عجب فیصلہ کیا ہے کہ خیبر ایجنسی سے باڑہ ۔آنے اور
جانے والی برقع پوش خواتین کی جامہ تلاشی نہیں لی جائے گی۔حالانکہ ان خواتین پر الزام ہے
کہ جرائم پیشہ عناصرمنشیات کی اسمگلنگ انہی خواتین کے ذریعے کرتے ہیں۔مرید کہتا ہے کہ اگر
تحریک انصاف ۔وہاں پر کسی کوتلاشی
سے مستثنی قرار دے سکتی ہے تو
اسلام آباد میں۔مستثنی قرار دینے کا
اختیار کسی اور کے پاس ہے۔اس نگوڑے کی ہر
بات کسی جھوٹی سچی منطق سے شروع اورختم ہوتی ہے۔وہ پھر غصے میں ہے۔اس بار اس نے جو کہا کم ازکم میں نے
تو پہلی بار سناہے۔
وہ
کہتا ہے ۔۔جیدی باندری اوہو۔ای نچاوے ۔
عمران خان کا لاسٹ چانس
جواب دیںحذف کریںصورتحال بالکل ایسی ہے کہ رن آوٹ دیئے جانے کے لیے دیکھنا ہوگا کہ کس طرف کی اٹمپ اڑتی ہے اور کس کا فاصلہ اس اسٹمپ سے زیادہ ہے۔۔ رن آوٹ سے بچنے کے لیے عمران خان کو تیز بھاگنے کے ساتھ پیچھے مڑ کے دیکھنے کی حماقت سے بھی گریز کرنا چاہیئے