جمعرات، 27 نومبر، 2014

محبت۔۔۔ پہنچ سے باہر


مذہب، معاشرہ اور تہذیب ہمیں جن کاموں کی اجازت دیں لیکن وہ کام ہم بہ وجوہ نہ کر سکیں   اسے انگریزی میں تو سوشل کنٹرول کہتے ہیں۔ اردو میں سماجی دباو کہنا مناسب ہو گا۔ سماجی دباؤ کے متاثرین اس ازیت ناک سوچ کا شکار ہوتے ہیں کہ’’لوگ کیا کہیں گے۔ ‘‘لوگوں کے خوف سے کوئی کام نہ کرنا ہی سماجی دباو ہے اوربعض لا پرواہ سماجی خوف سے بے پرواہ ہو کر کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ہم سماجی دباو سے غالب معاشرے میں پروان چڑھے ہیں اور ہمارے بچوں کے لئے دباؤ زدہ معاشرہ مکروہ ہو کر رہ گیاہے۔ جس کا فائدہ نہ نقصان ۔ان کے نظریات ، سوچیں سماج کے خوف سے ماورا ہو چکی ہیں۔وہ سماجی سنگینوں تلے گھٹ گھٹ کر جیتنے سے بہتر سمجھنے لگے ہیں کہ بے پرکیاں اڑا کر جی لیا جائے چاہے ایام زندگی کم ہی ہوں۔انہوں نے شیرمیسور ٹیپو سلطان کے اس مقولے’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہترہوتی ہے‘‘ کو اپنے معنوں میں ڈھال لیا ہے۔نسل حاضرسوچتی ہے کہ جو کچھ کرنا ہے کر جاؤ۔۔ لوگ تو ۔۔۔کچھ نہ کچھ کہتے ہی رہتے ہیں۔وہ کشورکے گائے ہوئے ہندی فلم امر پریم کے گانے سے متاثر لگتے ہیں۔’’کچھ تو لوگ کہیں گے لوگوں کا کام ہے کہنا‘‘۔دوسری جانب کچھ لوگ تو لوگوں کی باقاعدہ پرواہ کرتے ہیں تاکہ ٹکے ٹکے کی باتیں نہ سُننا پڑیں۔

بدھ، 19 نومبر، 2014

ہارن آہستہ بجائیں


بسوں ٹرکوں اوررکشوں کے پیچھےہم نے اکثرلکھا ہوا پڑھا ہے’’ہارن آہستہ بجائیں قوم سورہی ہے‘‘قوم اگر سو رہی ہے تو عمران خان کیوں دعوی کرتے ہیں کہ’’قوم جاگ گئی ہے‘‘ قوم جاگ گئی ہے تو ہمارے محلے کا چوکیدار کیوں سویا رہتا ہے۔؟ چوکیدار اگر سو رہا ہو تو رات کے وقت ’’جاگتےرہو‘‘کے آوازے کون کستا ہے۔لوگ اگر جاگتے رہیں گےتوکیا پولیس سوتی رہےگی۔ پولیس سورہی ہوتو کیا ضمیربھی سویا ہوتا ہے۔ضمیر اگر سو رہا ہو تو کیا شعور بیدارہوتا ہے۔ شعور بیدار ہو توالیکشن میں ڈالے گئے ووٹ کسی اورکی صندوقڑی سےکیسےنکل سکتےہیں۔؟ووٹ عمران خان کوڈالیں تونوازشریف کیسے جیت سکتا ہے۔؟ نوازشریف اگر چار حلقے کھول لیتے توکیا سسٹم ٹھیک ہوجاتا۔؟سسٹم اگر ٹھیک ہوجاتا توکیا آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کی ضرورت رہتی۔ انقلاب اور آزادی مارچ میں اگر ہزاروں،لاکھوں لوگ شریک تھےتوپھررکشےکے پیچھے کیوں لکھا ہوتا ہے’’ہارن آہستہ بجائیں قوم سو رہی ہے۔۔؟‘‘

جمعہ، 14 نومبر، 2014

ہوئے مر کے ہم جو رسوا

دنیا اچھے، برے،خوشحال، بدحال، بےحس، بےکس اوربے بس لوگوں سے بھری پڑی ہے۔کسی کو اپنی امارت کا اندازہ نہیں،کوئی رُکھی سوکھی کوبھی ترستا ہے۔لوگ مذہب کےلئے لڑتے اور مرتے ہیں لیکن انبیاءاور رسل نے کے احکامات بھول بیٹھے ہیں۔ دنیا کے ہر مذہب نے موت وحیات کا نظریہ پیش کیا ہے لیکن دین اسلام نے حیات بعدازموت کا فلسفہ بھی دیاہے۔۔ترجمہ ۔۔۔ ہرمتنفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے پھرتم ہماری طرف ہی لوٹ کرآوگے ۔(القرآن)
موت کسی بھی جاندار کی ہو اس کا دکھ تو ہوتا ہےلیکن انسان کی موت ہو تو دکھ ذرا مختلف ہوتا ہے۔ موت کے بعد پہلا مسئلہ کفن دفن ہوتاہے۔۔ پھر سوئم، ساتے اور چالیسویں کی رسمیں اور ان رسموں کو نبھانے کےلئے مہمانوں کے قیام و طعام کے کھلے خرچے۔

پیر، 10 نومبر، 2014

خود کُشی کی دعوت


محبت راہ عشق میں جنون اور مجذوبیت کا پہلا درجہ ہے۔ مجذوبیت صوفی ازم میں ایک شے کی ماہیت میں گم ہونے کی اصطلاح ہے جبکہ غیرتصوفی مکتب فکر کا خیال ہے کہ مجذوبیت دیوانگی کی ایک قسم ہے۔دائیں اوربائیں بازو کے نقطہ نظر میں اختلاف ہو سکتا ہے لیکن مجذوبیت کا ماخذ عربی زبان کا لفظ جذب ہے۔جس کے لغوی معنی غرق ہونے کے ہیں۔عشق انسان کو نکما بھی کر دیتا ہے اور پاگل بھی۔ پنجابی ادب کے شیکسپئیر سید وارث شاہ کوانہی کمالات عشق کا توجیسے کشف ہو جاتا تھا ۔شاہ جی نے ہمیں بھی سمجھانے کی کوشش کی لیکن ہم تب تک دیوانگی کی حدود میں داخل ہو چکے تھے۔یہ حدود واہگہ بارڈر جیسی قطعی نہیں تھیں جہاں سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا ایک پاؤں بھارت میں تھا اور دوسرا پاکستان میں ۔

جمعرات، 6 نومبر، 2014

غیرت مند اور بےغیرت


غیرت مند اوربےغیرت میں صرف غیرت کا ہی فرق ہوتا ہے ۔ ہم غیرت مند کی بجائے ضرورت مند ۔زیادہ ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ ہم نے اپنی خواہشوں کوغیرتوں کے سر پر چڑھا رکھا ہے۔ہاں! تھوڑی بہت غیر ت ہمیں آتی ہے لیکن صرف خانگی مسائل پر۔ کیونکہ امورخانہ داری نبھانہ ہوتے ہیں۔ بہت پرانی روایت ہے کہ زن، زر اور زمین جیسے بنیادی عوامل غیر ت کو جنم دیتے ہیں لیکن یہ خانگی غیرت، قتل و غارت اور امن عامہ جیسےمزید مسائل جنتی ہے۔یہی تینوں عوامل آج بھی موجود ہیں بلکہ یہ کہنا درست ہو گا کہ ہمیں آج بھی غیر ت صرف انہی تین وجوہات کی بنا پر آتی ہے۔

منگل، 4 نومبر، 2014

رب کا شکر ادا کر بھائی


دودھ ، دہی، لسی، پنیر، مکھن، گھی اور بہت کچھ ہماری زندگی میں خاص اہمیت رکھتے ہیں یہ مصنوعات ہمیں بھینس اور گائے کے دودھ سے حاصل ہوتی ہیں۔مگر آج کل بڑے شہروں میں گائے اور بھینسیں رکھنے پر پابندی لگا دی گئی ہے،لائل پور ویسے تو ترقی پاکر فیصل آبادکے درجے پر فائز ہو چکا ہے لیکن گاوں کو شہر بنتے دیر لگتی ہے اس کے باوجودیہاں مجھوں اور گائیوں سے شہروں جیسا سلوک ہو رہا ہے۔شہرمیں ایک یا ایک سے زائد بھینسوں کے رکھنے یا جمع ہو نے پردفعہ144ت پ نافذہے۔ قانون شکنی کرنے والے ان دودھیل جانوروں کی تلاش میں سرکاری کھوجی یوں باہر پھرتے رہتے ہیں جیسےہم اکثرسُچے دودھ کی تلاش میں نکل جاتے ہیں، ویسے ’’شہروں میں سُچے دودھ اور سچے پیار کی تلاش کاسفر اکثر جاری رہتا ہے‘.شہرکی خوبصورتی،ماحولیاتی آلودگی اورسیوریج سسٹم وہ تین عوامل تھے۔