ہفتہ، 9 اپریل، 2016

پشاور میں چوہا سیاست

مرید کے نصیب میں جب سےنصیبو لکھی گئی تھی۔ اس کی زندگی  میں ڈر اُتر آیا تھا۔ گھر لوٹتے ہی  اپنے بِل میں گھس جاتا۔رسوئی سے چُمٹےکی آوازبھی آتی تو اسُے اپنی شامت محسوس ہوتی۔وہ شروع سےتوچوہانہیں تھا لیکن  نصیبو  پکی۔ پیدائشی بلی تھی۔کٹورا منہ کو لگا کردودھ غڑپ کرنے والی۔گول آنکھوں،تاؤ بھری مونچھوں  اور  نوکیلے پنجوں والی۔ بلی کے  خوف  سے مرید کی بھوک مر چکی تھی۔ پلیٹ میں پڑی روٹی اُسےکڑِکی میں لگی نظرآتی۔گھنٹی باندھنے کی تواس میں  ہمت نہ تھی۔لیکن وہ  ماہرین  ازدواجیات مرید کی آخری اُمید تھے۔جوسوچتے ہیں کہ بیوی  شوہرکی نسبت چوہے سےزیادہ  ڈرتی ہے۔تبھی وہ چوہے پر ہی پکا ہو گیا تھا۔
بیوی :مجھے ڈر لگ رہا ہے۔پلیز میری طرف منہ کرکے سوئیں۔
شوہر:اچھا!بس تم نے ہی جینا ہے۔؟ میں بے شک ڈر ڈر کر مر جاؤں۔  
نصیبو اور مرید کی زندگی  اس  لطیفے کی عملی تعبیر تھی۔پاکستان کے سو فیصد شوہروں میں  پچاس فیصد چوہے ہیں ۔باقی’’مرید‘‘ہیں۔چوہے سے میرا پہلا تعارف  صوفی تبسم کی نظم’’پانچ چوہے گھرسے نکلے‘‘پڑھنے کے بعد ہوا۔اس سے پہلے دنیا بھرکےفارماسسٹ ۔ادویات سازی کےتجربے چوہوں پرکر چکے تھےکیونکہ چوہاانسان سے جنیاتی  مماثلت  رکھتا  ہے۔ چوہا۔تختہ مشق سے زندہ نیچے اُترآئے  تو دوسراتجربہ  انسان پرہوتا ہے۔چوہا شناسی سےمردم شناسی تک کا ادویاتی سفرکبھی برقی رہا اورکبھی ’’غرقی‘‘۔ کیونکہ  تجربہ گاہ سے  چوہےتو نکل آتےلیکن انسان منکرنکیر۔ایم سی کیوزمیں پڑجاتے ۔ممکن ہے  اس جینیاتی مشابہت کا سائنسی تجربہ  درست ہو۔شائد ہمارےاعصاب، نفیسات اور ہارمونزمیں بھی مماثلت ہو۔غلہ(اناج) انسان اور چوہے کی پہلی محبت ہے۔سانجھی محبت کی وجہ شائد ایک سے جینز ہوں۔ ممکن  ہے لذِت پنیرنے انہیں  منصبِ رقابت پر فائز کر رکھا ہو۔سائنسی کلیہ درست ہےتو زندگی جتنی بھی شاہانہ ہے۔دراصل  چوہانہ ہے۔میرا دوست مرید۔کہتا ہےکہ’’چوہوں کے بارے میں سوچنا خوداحتسابی جیسا ہے۔ جون ایلیا  کےشعر۔’’ہیں دلیلیں تیرے خلاف مگر۔سوچتا ہوں تیری حمایت میں‘‘۔جیسا۔وہ کہتا ہے عام ازدواجی زندگی۔ٹام اینڈ جیری کارٹون جیسی ہوتی ہے۔جہاں شوہر اوربیوی اکھٹے رہ سکتے ہیں اورنہ ہی الگ۔
مرید( ہمسائے سے):آپ کے گھر سےاکثر ہنسنے کی آوازیں آتی ہیں ۔ خوشگوار زندگی کاراز تو بتادیں۔ ۔؟
ہمسائیہ:خوشگوار کیسی ۔؟میری بیوی۔اکثر مجھے جوتے، ڈوئی اور چمچے  مارتی ہے۔لگ جائےتووہ ہنستی ہےاور نہ لگے تومیں۔
ٹام اینڈ جیری توہم نےبچپن  میں اتنے  دیکھے ہیں  کہ  گھر میں ٹی وی بندبھی ہو۔توبھی بچے کارٹون دیکھتےرہتے ہیں۔ہمارے بچے ڈزنی لینڈنظرئیے کےساتھ جوان ہورہےہیں۔عمرانی ماہرین کانظریہ بھی۔ڈزنی۔ہے’’ کہ   چوہااورانسان الگ نہیں  رہ سکتے‘‘۔ پچھلے دنوں لیگی ایم این اے  رجب  بلوچ نے بھی اسمبلی میں چوہوں کا تذکرہ کرڈالا۔بولے’’ پارلیمنٹ لاجز میں  خوفناک چوہوں کاراج  ہے۔بالائی فلورکو یرغمال بنا رکھا ہے۔مکین نقل مکانی  پر مجبور  ہیں‘‘۔سپیکر  نےاس پارلیمانی گفتگو کاجو۔ جواب دیا وہ ۔ راز  تو کارروائی کا حصہ ہے۔ لیکن  سچ تو یہ ہے کہ چوہے پارلیمنٹ لاجز تک پہنچ چکے ہیں۔ یہ وہی لاجز ہیں جن پرجمشید دستی نے شراب  اورمجرا  کے الزامات لگائے تھے۔لیکن مرید کہتا ہے’’انتخابات میں تو قوم نےشیرپارلمینٹ  میں بھجوائے تھے ۔لاجز میں چوہے کیسے پہنچ گئے؟‘‘۔
تاریخ  گواہ ہے کہ  مچھراور چوہے نےہمیں  بہت تنگ کیا ہے۔لیکن کچھ چوہا۔دان اس سوچ سےمتفق نہیں۔کیونکہ بیلجئیم میں  چوہےسدھا کربارودی سرنگوں کاسراغ لگایا جاتا ہے۔انڈیا میں کارنی ماتا مندرکےچوہےمقدس ہیں۔2014میں نیویارک میں آٹھ ملین  چوہےرہتے تھے۔چوہاچینی کلینڈرکا پہلا  جانورہے۔جبکہ اہلیان برسلز مُضطر ہیں۔کیونکہ برسلزسرنگ  پلان کی فائلیں چوہےکھا گئےہیں۔شائدوہ پلان دوبارہ نہ بن سکے۔مچھراب ڈینگی بن کرخون کاپیاسا ہوچکا ہے۔مرید تو کہتا ہے کہ’’مچھر نے نمرود کے بعدسب سے زیادہ  شہبازشریف کوتنگ کیا ہے‘‘۔ ملیریا  اورطاؤن  نےہمارےاجدادسے کئی ہجرتیں کروائی ہیں۔ہم مہاجراپنی بستیاں  چاہےجتنی بھی دو ر بسالیں۔مچھر اورچوہے ہمارے ساتھ آکر رہنے لگتے ہیں۔اب تومچھر اور چوہے دانیاں  ہماری آئینی  ضرورت  بن چکی ہیں ۔  
قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں۔’’اُن دِنوں جموں  میں  روز دس  پندرہ لوگ طاؤن سے مرتے تھے۔ گلی کُوچوں میں خوف چھایا ہوا تھا۔لوگوں نے گھرآنا جانااور ملنا جُلنا چھوڑدیا تھا۔راہگیر دامن بچا کرچلتے تھے۔شہر کا ہرمکان دُوسروں سے کٹ کٹا کرایک قلعہ سا بنا ہواتھا۔ لوگ چُپ چاپ اپنی اپنی گِلٹی کے منتظر تھے۔ میونسپل کمیٹی ۔ درو دیوار سونگھ سونگھ کر پلیگ کے مریضوں کا سُراغ لگاتے تھے۔ جہاں  چھاپہ کامیاب رہتا ۔ وہاں وہ علی بابا چالیس چور کی مرجینا کی طرح دروازے پر سفید چُونے کا نشان بنا دیتے تھے۔رشوت دے کر یہ نشان مٹوایا اور اغیار کے در پر بھی لگوایا جا سکتا تھا‘‘۔’’جموں میں پلیگ سے اقتباس‘‘
جموں کی طرح پشاور پربھی  چوہایلغار ہو چکی ہے۔ضلع ناظم  محمد عاصم ۔جنگ  کا بگل بجا چکے ہیں۔چوہے کے سر کی قیمت  25 روپے مقرر ہوئی  ہے۔افسرِ خزانہ کوخزانہ  مختص کرنے کا حکم مل چکا ہے۔ضلع ناظم   کہتے ہیں کہ ’’شفاف طریقے سے چوہے مارنے والوں  کو انعام  ملے گا۔ لاشیں اٹھانے کے لئے ’’کولیکشن سینٹر‘‘بنائیں گے۔ شہری چوہا مار کر شرمندہ نہ ہوں۔ساتھ دیں تو یہ کامیابی کی طرف اہم قدم ہوگا ‘‘۔پشاور کنٹونمنٹ بورڈنے توفی چوہا انعام 300 روپے کردیا ہے۔ خون کہ ہولی شروع ہے۔پنجاب سے پالش ،دانے،چھلی، چوکیدارا ۔اور نان بائی ۔پشاور لوٹ چکے ہیں۔سرمایہ کاری کے بغیر آمدن شروع ہو گئی ہے۔دہلیز پر روزگار نکل آیا ہے۔ چوہے مار۔ شکاری اور بیوپاری  چارسدہ  اوربنوں  سے بھی چوہے لے آئے   ہیں۔ پنجاب سے لاشیں سمگل ہو تے پکڑی گئی ہیں۔ شفافیت دم توڑ چکی ہے۔سینکڑوں لاشے بکنے کے منتظر ہیں ۔لیکن خزانہ ابھی تک مختص نہیں ہو سکا۔
لڑکی: جانو پلیز جلدی سے 25 روپے کا ایزی لوڈ کرا دو۔
لڑکا: انتظار کرو۔جان ابھی تک چوہا  نہیں بکا۔
 بے روزگاری  پھرسراٹھانےلگی ہے۔شفافیت پرشورمچنے  لگا ہے۔شریک موقع تاڑ چکے ہیں۔تحریکی مہم  پرلیگی ردعمل آ چکاہے۔وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید پھبتی کس چکے ہیں کہ’’نوازشریف دہشت گرداورعمران خان چوہے پکڑ رہے ہیں‘‘۔پی پی رہنما مولا بخش چانڈیوکہہ چکے  ہیں کہ  عمران خان چوہےمارکر ماوزے تنگ بننا چاہتے ہیں۔لیکن  مریدکہتا ہے  کہ’’2013میں جو لوگ شیرکےشکارپر نکلے تھے۔2016 میں وہ صرف چوہے کا شکارکرپائے ہیں‘‘۔چوہوں کےشکارپرمنٹوصاحب  نےسالوں پہلےایک افسانہ’’چوہے دان‘‘ لکھاتھا۔افسانے کے ڈائیلاگ  یہ ہیں۔
’’ارشد:بخدا کسےیقین تھاکہ اتنی ضدی اورنفاست پسندلڑکی چوہے دان کےذریعےقابومیں آجائے گی۔
شوکت : کون سی لڑکی۔چوہے دان میں پھنس گئی۔ لڑکی نہ ہوئی چوہیا ہوگئی۔ آخربتاو تو سہی۔؟
ارشد:وہی سلیمہ جس کی نفاست پسندی کی بڑی دھوم ہے اور جس کی ضدی طبعیت کے بڑے چرچے ہیں۔
شوکت:سلیمہ۔ ؟ جھوٹ۔چوہے دانوں سے بھی کبھی کسی نے لڑکیاں پھانسی ہیں۔؟
ارشد:خدا کی قسم۔ جھوٹےپرلعنت۔۔یہی سلیمہ میرے قابو میں آگئی ہے۔’’چوہے دان ‘‘سے اقتباس
نوٹ:افسانہ پڑھ کرمجھے یقین ہو چکا ہے کہ انسان اورچوہاجنیاتی مماثلت رکھتے ہیں۔ہمیں ساتھ ہی رہنا پڑے گا۔پشاوری مہم  فلاپ ہونے کاقومی امکان ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں