پیر، 26 ستمبر، 2016

رائے ونڈ مارچ۔۔۔ اور انڈا فورس

یہ ان دنوں کی بات ہے جب  گھر سےبھی انڈا ملتا تھا اور سکول سےبھی۔۔فرق صرف اتنا تھا کہ استاد جی ڈنڈے کے ساتھ انڈا دیتے تھے اور اماں جی بریڈ کےساتھ۔۔میں نے تب  گھرمیں مرغ پال رکھا تھا۔کیونکہ انڈےسکول سے مل جاتےتھے۔ہم نالائقوں نےمشہورکر رکھا تھا۔کہ استاد جی انڈے دیتے ہیں۔ اللہ جانے یہ آف شور کمپنی  کس نے  لیک کر دی۔پھراستاد جی نے سزا بدل دی ۔وہ پہلے مرغا بناتے۔اور پھر کہتے نالائقو اٹھو۔اپنی اپنی کاپی پر انڈےبھی خود بناؤ۔یوں استاد جی کی جگہ انڈےہم دینے لگے۔اور  آفاقی  تنازعہ بھی حل ہو گیا کہ دنیا میں مرغی پہلے آئی تھی یا انڈا۔؟۔ استاد جی۔
جس۔روز خوش ہوتے ہم انڈے کا ناغہ کرتے۔اُس دن میرا ۔دوست مریدبہت خوش ہوتا۔کیونکہ اُس کا عقیدہ تھا کہ انڈے اور ڈنڈے موسمی میوے ہیں۔ دونوں گرمائش کرتے ہیں۔سردی  میں کھانے چاہیں۔اُس کی ریسپی میں ڈنڈا۔ اور انڈا۔پیزے کی بیس اور ٹوپنگ کی طرح تھے۔وہ چیزوں کو اپنے ڈھنگ سے دیکھتا تھا۔ایک بار اپنے ابا سے بولا :ڈیڈکل سکول میں چھوٹی سی دعوت ہے۔آپ ضرور آئیں۔

ڈیڈ:کون کون ہوگا ۔؟
مرید :آ پ۔ میں اور پرنسپل ۔
مرید کا شعوربچپن سے ہی بالغ تھا۔ڈیڈ جانتے تھےکہ وہ بات کہنے کا گُرجان گیاہے۔ کیونکہ شعورپرمبنی۔جواز۔کےلئے لاشعور ۔ کی ہاں ضروری  ہوتی ہے۔چائلڈ۔ از۔اے ۔فاد ر آف مین۔والا شعور۔ روایت شکن۔۔ ’’داغ تو اچھے ہوتے ہیں‘‘۔کا نعرہ لگا کرسرف بیچنے والا شعور۔موجودہ حکومت بھی باشعورہے جس نے ’’گھر کی مرغی دال برابر‘‘ والی روایت توڑی ہے۔ وفاقی وزیراسحاق ڈارکہہ چکے  ہیں کہ ’’دال مہنگی ہے تو مرغی کھائیں‘‘۔پنجاب کے سستے بازاروں میں۔’’مرغی کاگوشت ہڈیاں مضبوط بناتا ہے‘‘۔والے  بینرز لگ رہے ہیں۔لیکن لاشعورہاں ہاں نہیں کررہا۔کیونکہ۔برائلر کھانےسے تو برگرپیدا ہوتے ہیں ۔بچپن کی یک سطری نظم ۔’’سنڈے ہویا منڈے روز کھاؤ ڈے‘‘۔بھی بدل گئی ہے۔اب۔’’سنڈے ہو یا منڈے روز کھاؤ۔دو انڈے‘‘ ۔والے گُرآزمائے جا رہے ہیں۔پولٹری کےبزنس کے لئےوزیر خزانہ  بجٹ کی ماہیت بدل چکے ہیں۔۔
 چوہدری کا بیٹا  یورپ سے فلسفہ پڑھ کے آیا تو باپ نے ناشتے پر پوچھا پُتر تم نے کیاپڑھا ہے۔؟
بیٹا(مثال دے کر):ابا۔ بظاہر یہ انڈا ہے۔اسے ابالیں یا فرائی کریں اور کھائیں۔ دوسری چیز ہے اس کا فنڈا۔ یہ بنا کیسے ہے۔ انڈے کی ماہیت کیا ہے۔ایسی ہی سوچ بچار والی ڈگری  میں نے لی ہے۔
چوہدری نے انڈاغر پ کیا اور بولا۔۔ پُتر تم اس کی ماہیت کھا لینا۔
آدھی سے زیادہ قوم ماہیت ہی کھا رہی ہے ۔۔یہاں تو تعلیم، صحت اور جمہوریت سب کچھ ماہیت ہی ہے۔۔ تقریبا تین سال قبل شہروں میں شور مچاتھا کہ حمزہ  کے انڈے کھائیں۔ دودھ پئیں اور حمزہ برائلر بھی دستیاب ہے۔۔کیونکہ  فاؤنڈری ،شوگر، ٹیکسٹائل، سپنگ، سٹیل اورپیپر ملز وغیرہ کے بعدحکمران خاندان پولٹری فیڈ ،دودھ اورکوالٹی چکن نامی فیکٹریاں لگا چکا ہے۔ اسحاق ڈار نے بجٹ کی ماہیت ٹھیک بدلی ہے۔اقتدار ہر سیاستدان کو ڈبل شاہ بننے کا موقع دیتا ہے۔ اورصدشکر کہ سب موقع پرست ہیں۔ہمارا مقدرماہیت ہے۔ہم کُکڑ بن کر زندہ باد کی بانگیں دیتے ہیں۔مشتاق احمد یوسفی   لکھتے ہیں کہ
پانچویں جماعت میں۔ایک دفعہ۔ ماسٹر فاخرحسین نے مجھے مرغا بنا دیا۔میں غلطی نہ بھی کرتا تو اور کسی بات پر مرغا بنا دیتے۔ اپناتو طالب علمی کا زمانہ اسی پوز میں گزرا۔ بینچ پر آنا اس وقت نصیب ہوتا۔ جب ماسٹر کہتا  کہ ’’اب بینچ پرکھڑے ہوجاؤ‘‘۔
اپنا زمانہ طالب علمی بھی مرغ بسمل کی طرح گذرا تھا۔سکول تین دھائیاں پیچھے رہ گیا ہے۔لیکن استاد جی والے انڈےاور ڈنڈے آج بھی گرمائش دے رہےہیں ۔پھر شادی  ہوئی تو  بیگم   نے پہلی خوشخبری  یہی دی کہ انڈے بریڈ کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ یوں  عمر رفتہ اور عمر پیوستہ ۔انڈوں میں ہی الجھی ہے۔ اماں۔ استاد جی۔۔چاچا اور بیگم۔انڈوں نے زندگی میں اتنے ہی  محاذ کھولے جتنے 2013 کا الیکشن ہار کے عمران خان نےنواز حکومت کے خلاف کھولے ہیں۔ آج تک  کاآخری محاذ ۔آف شور کمپنیوں کی تحقیقات ہیں۔۔30 ستمبر 2016 کو رائے ونڈ میں دھرنا ہو گا ۔ لیگی کارکن سر نیوں کرنے کے بجائے مزاحمت کر رہے ہیں۔ بقول علامہ اقبال۔
اٹھاکر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے ۔
ہمارےہاں گلی محلے کی بدتہذیبی کا نام سیاست ہے۔ کچن کے بعد سب سے زیادہ انڈےبھی سیاست میں استعمال ہوتے ہیں۔ گندے انڈے۔کچھ فارمی اور کچھ دیسی۔ گلی میں پھینکنے کے لائق۔نالائق۔سکول والے انڈوں سے سالوں بعد چوچے نکل آئے ہیں۔ ہرچوچے کے ہاتھ میں اپنا اپنا انڈا ہے۔بھلا ہو۔ن لیگ کا۔کہ آج سالوں بعدسکول یاد کروا۔دیا۔خبر کچھ یوں ہے کہ  ’’گوجرانوالہ میں لیگی کارکنوں نے رائے ونڈ مارچ ۔کا استقبال کرنے کےلئےانڈا اور ڈنڈافورس بنا لی ہے۔جسے مارچ کے راستوں پرتعینات کیا جائے گا۔عمران خان کی تصویر پرانڈےاورٹماٹر مارنے کی پریکٹس کی جا رہی ہے‘‘۔شریفوں کی فیکٹریوں میں حمزہ فورس کےنام سے نئی ’’سکیورٹی ایجنسی‘‘ شامل ہو گئی ہے۔لیگی رہنما عابد شیرعلی اورضعیم قادری لیگی  کارکنوں کو بھڑکا رہے ہیں۔ٹانگ اڑا رہے ہیں۔۔
پپوبس میں بیٹھامسلسل چاکلیٹ کھا رہا تھا۔ایک مسافراسے دیکھ کربولا: چاکلیٹ زیادہ کھانے سے دانت خراب ہوجاتے ہیں۔
پپو:میرے دادا کی عمر 125سال تھی۔
مسافر:کیا وہ بھی چاکلیٹ کھاتے تھے۔ ؟
پپو:نہیں وہ اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔
احتجاج ،ریلیاں اورمظاہرےتو اپوزیشن کا حق ہے۔اورپی ٹی آئی کا موقف تو افتخار چوہدری کی بحالی۔تحریک سے کہیں  زیادہ مضبوط ہے۔ن لیگ کو۔تواس محاذسے یوں ہٹ  جانا چاہیے تھا جیسے اُڑی حملے کےبعدمودی  جنگ سے بھاگ گیا ہے۔لیکن  وہ کھسیانے ہوئے کھڑے ہیں۔عمران خان  سچ کہتے ہیں کہ اقتدار میں آ کرشریف خاندان کابزنس چمک جاتا ہے۔ پنجاب میں انڈے دھڑا دھڑ بک رہے ہیں۔پنجابی کہاوت ہے کہ۔’’ہتھاں دیاں۔دتیاں۔ دنداں نال کھولنیاں پیندیاں‘‘۔ (جو گرہ  ہاتھ سے لگائی جائے وہ دانتوں سے کھولنی پڑتی ہے)۔کل ۔یہ انڈے اور ڈنڈے کسی اور کا مقدربھی ہو سکتے ہیں۔ڈنڈا بردار فورس کےجواب میں پی ٹی آئی کا۔اکلوتا ہتھیاربلا ہے۔انڈےپھینٹنے کےلئےکھلاڑی اپناانتخابی نشان اٹھا کرمحاذ پرجائیں گے۔چُوچے تو 21 دنوں میں نکل آتے ہیں۔لیکن پانامہ کےانڈوں  پرمرغی121دن سےکُڑک بیٹھی ہے۔جمہوریت کاثمریہ ہے کہ کاروبار چل نکلا ہے۔انڈے درجنوں میں بکیں گے یا تھوک کاسودا ۔ ہوگا۔اس سوال کا جواب ملنا مشکل ہے۔اور عمران خان کے تو سوال بھی چار ہیں۔۔وہ جواب لینے 30 ستمبر2016 کو رائے ونڈ جا رہے ہیں۔بظاہرتو لگتا ہے کہ’’صاف جواب ہوگا‘‘۔کیونکہ دھرنے سےقبل انڈےتوفرائی ہو ہی رہے تھے ۔ تھوڑا تھوڑا ’’لُچ‘‘ بھی فرائی ہو گیا۔انڈوں کے لئے  سب سے بُرا دن۔فرائی ڈے ہوتا ہے۔ اور اسے اتفاق ہی کہیے کہ 30ستمبرکوفرائی ڈے  ہے۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں