منگل، 31 جنوری، 2017

ٹرمپ کے بعد ٹرمپی جوتوں کی مانگ

مجھےحیرت ہوئی جب بہت سے پاکستانیوں نے ہیلری کی ہارپر افسوس سے زیادہ ٹرمپ کی جیت پر دکھ  کا اظہار کیا۔ ہیلری اپنی خالہ ہے اور نہ ہی ٹرمپ ماسڑ ۔ ۔پھر بھی ہم نے چوہےبلی کا کھیل پورا کھیلا۔’’بے لذت  گناہ‘‘ میں  سے اپنا  حصہ سمیٹا۔یہ  سارے نامراد مسلمانوں کےدشمن ہیں۔ کھلے دشمن۔ عد و المبین۔۔مسلمانوں کو لڑا۔کے  حکمرانی کرنے کے فارمولے پر گامزن۔۔۔امریکیوں نے الیکشن میں دو برائیوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا۔سو ہیلری ہار گئی۔ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں  کے خلاف جو ۔ مغلظات  بکیں۔ وہ ۔ واضح اشارہ تھا کہ  امریکہ  کا ۔سر پھرا۔ حکمران۔طرزحکمرانی  کے کس نظرئیے سے تعلق رکھتا ہے۔اس کے باوجود امریکیوں نے ایک بدتمیز شخص کو اپناصدر چنا ۔ٹرمپ کی جیت نے ثابت کیا کہ  امریکی۔ بھی بدتمیز ہیں۔کیونکہ پرانی کہاوت ہے کہ ’’جیسی قوم۔ ویسے حکمران۔‘‘بالکل ویسے ہی جیسےہندوؤں نے ہندوستان میں انتہاپسند  مودی کو جتوایا ۔ ۔اس حساب سے تو ہم پاکستانی  کرپٹ قوم ہوئے۔ میرا دوست شیخ مرید مسلسل بولے جا رہا تھا۔

منگل، 24 جنوری، 2017

کیا بلاول۔ بھٹوکوزندہ کر لیں گے۔؟

میں سیاسی طور پر دھریا ہوں۔۔میرےمن نے  آج تک۔ایسا کوئی سیاسی بُت نہیں تراشا۔ جس کا میں پجاری بن جاؤں۔ ماتھے پر قشقہ لگاؤں۔رتے۔رنگ  کا چوغا۔ پہنوں۔ بن  میں ۔جوگی بن کے پباں بھار ۔  ناچتا پھروں۔۔ سیاست کے بت کدے میں بھگوان بنے بیٹھے لوگ مجھے کبھی نہیں بھائے۔لیکن میری یہ  خواہش  ضرور رہی کہ  کو ئی سلطان محمود غزنوی آئےاور ناخداؤں کےسارے سومنات پاش پاش کردے۔ پھر وہ  نئے حرم کی بنیاد رکھے۔ ایسا حرم جس کی بنیادوں۔  میں۔توحید اوروطن پرستی  کا مکسچر ڈالا جائے۔تاکہ سارے دھریئے۔ایمان لے آئیں۔وطن سے محبت میرا ایمان ہے۔بلکہ میں اور پاکستان  عشق ۔مجازی  میں مبتلا ہیں۔مجھے وطن سے عشق کرنے والے رقیب چاہیں۔سب سے پہلے پاکستان  کا نعرہ لگانے والے ۔قلب اطہر سے۔پاکستان کھپے۔والا نعرہ لگانے والے ۔

ہفتہ، 14 جنوری، 2017

خواجہ سرا۔ ناچنا چھوڑ دیں گے۔؟

مغل  بادشاہ۔شاہ جہان نے اپنے بڑے بیٹے دارہ شکوہ کوسلطنت  کا ولی عہد نامزد کیا تو دوسرا بیٹا  اورنگزیب  ناراض ہو گیا۔ اس نے غصے میں آکر شاہ جہان  کو گرفتار کرکے آگرہ قلعہ میں قیدکرلیا ۔تخت مغلیہ کا حاکم اچانک تختہ کا قیدی بن گیا۔اورنگزیب نے خزانے  کی نگرانی پرمعتمد نامی۔خاص الخاص خواجہ سرا کو مقررکردیا۔شاہ جہان کو  کسی قسم کی خط و کتابت کی اجازت نہ تھی۔ایک بار۔اورنگزیب۔  قیدی  باپ سے ملاقات کرنے گیا تو شاہ جہان نےپوچھا :اورنگزیب مجھے بتاؤ۔وفانامی خواجہ سرا کا کیا ہوا۔؟
شہنشاہ :اس کا وہی حشر ہوا جوباغیوں کا ہوتا ہے۔میں تمام خواجہ سراؤں کوتنبیہ کر چکا ہوں۔اگرکسی نے وفا جیسی کوئی حرکت  کی توانجام بھی وفا  جیسا ہی ہوگا۔ہاں اگر خط لکھوانا بہت ضروری ہے تومیں ایک خواجہ سرا۔مقررکروں گا۔آپ  خط کا مضمون بول دیا کریں وہ لکھ دیا کرےگا۔منٹوکے’’ ڈرامے شاہ جہان کی موت‘‘ سے اقتباس

ہفتہ، 7 جنوری، 2017

بچے پیدا کرنا۔۔بس کر دو۔ !

’’زندگی تیری زلفوں کی نرم چھاؤں میں گذر پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی‘‘۔
سحر لدھیانوی کا یہ مصرعہ  صرف محبوبہ کے لئے ہے۔ اور میری تو شادی  ہو چکی ہے۔محبوبہ ایسا افسانوی  وتخیلاتی کردار ہے۔ جس کےحصول کی آرزو ۔اور۔ جستجو توکی جا سکتی ہے۔لیکن حاصل گفتگو زیرو ہے ۔ بیویوں کوسحر لدھیانوی کے مصرعے سے استثنائی حاصل ہے ۔ میں اگرچے شادی شدہ ہوں۔ اس کے باوجود میرے مواخذے کی تحریک جاری رہتی ہے۔بیوی سرچ انجن کی طرح  کام کرتی ہے۔جیب۔دراز۔آفس بیگ۔بٹوہ۔ موبائل  پیغام۔ پکچر گیلری ۔کوٹ کے کالر۔ پرفیوم کےفلیور۔وغیرہ ہر چیز کی تلاشی سارا سال جاری رہتی ہے۔اور بیوی کا علم ایسا کہ۔ غلط اورصحیح معلومات۔فورجی ڈیٹا سروس کی طرح۔ بیک زبان جنبش۔ فورا نکال باہر کرتی ہے۔کم و بیش ہر بیوی  گوگل جیسی خصوصیات  کی حامل ہوتی ہے۔ ان  سے کچھ بھی  پوچھیں تووہ کچھ بھی  جواب  دے دیتی ہے۔اور شوہر کچھ بھی سمجھ سکتے ہیں۔