اتوار، 16 اگست، 2015

سانوں اک پل چین نہ آوے

یہ بات تو طے ہے کہ ہماری موسیقی کی عمارت ٹھیٹھ راگوں اور راگنیوں کی بنیاد پر کھڑی ہے.
میوزک کی کئی شکلیں ہو سکتی ہیں۔ جیسے کلاسیکی، نیم کلاسیکی، فوک راک، پاپ کلاسیکل اور نیم کلاسیکل ہر روپ، رنگ اور سُر میں کسی نہ کسی گھرانے سے منسوب ہے جبکہ فوک، راک اور پاپ تو چلتا پھرتا سا کام ہے۔۔۔ کلاسیکل والے اس فارم کو بری بھی سمجھتے ہیں بلکہ اسے موسیقی بھی نہیں سمجھتے ان کا خیال ہے کہ یہ باتھ روم میں ہونے والی گلوکاری کی کوئی شکل ہو سکتی ہے جسے ہر کوئی گا سکتا ہے
پچھلے دنوں کل پاکستان موسیقی کانفرنس کے بارے میں ایک تحریر پڑھنے کو ملی سمجھ تو نہیں آئی لیکن لکھ اس لئے رہا ہوں شائد موسیقی کے کسی دلدادہ کی حس لطافت میں اضافہ ہو جائے

’’دھرپد گائیکی خیال گائیکی کے متعارف ہونےسے قبل ہندوستان بھر میں مقبول تھی۔دھرپد طبلہ کی بجائےپکھاوج یا مردنگ پر پیش کی جاتی ہے، اور ویدوں کے زمانے سے گائی جا رہی ہے۔دھرپد گائیکی میں راگ کی اصل شکل، ساخت اور ترتیب کو برقرار رکھنے پر بہت زور دیا جاتا ہے اور مضامین عموماًمذہبی اور روحانی ہوتے ہیں۔‘‘
شام چوراسی، پٹیالہ گھرانہ اور کانفرنس کا محور رہے جہاں پر راگ ایمن کلیان، راگ ساکھ اور راگ پہاڑی کی ٹھمری ، راگ کیلاش بھیروں سمیت کئی راگ رنگ زیر بحث رہے لیکن اس محفل میں استاد نصرت فتح علی کا ذکر نہیں آیا۔۔
کہتے ہیں کہ تقسیم ہند سے پہلے بھی غزل گائیکی کا سلسلہ کوٹھوں تک محدود تھا۔ جہاں سُر اور لے کی پابندی اور تان پلٹے کی کاریگری بھی موجود تھی لیکن غزل کے لسانی پہلو اور اسکی صوتیات پر توجہ نہ دی جاتی تھی۔۔۔
یہی سوچ کر پاکستان میں غزل کی نفیس لفظوں میں ادائیگی کا ذمہ معروف شاعر اور براڈ کاسٹر سلیم گیلانی نے اٹھایا اور مہدی حسن کو اپنی نگرانی میں غزل گائیکی کے لئے تیار کیا۔ بشکریہ گوگل
یہ وہی مہندی حسن ہیں جن کے بارے میں ہندوستان کی معروف گلوکارہ لتا نے کہا تھا کہ ان کے گلے میں بھگوان بولتا ہے۔لتا کو ایسا ہی لگتا ہو گا لیکن جاپانیوں کو لگتا تھا کہ استاد نصرت کی شکل گاڈ سے ملتی ہے۔۔ تبھی تو انہیں گاڈ آف موسیقی۔۔۔یعنی موسیقی کے دیوتا کا خطاب ملا۔۔۔
شہنشاہ قوالی استاد نصرت فتح علی خاں13اکتوبر1948 کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔۔ اصل نام پرویز تھا اور نک نیم “پیجی“۔۔۔سکول جانا شروع کیا مگر دل نہ لگا۔ بچپن شرارتوں میں گذارا۔۔۔
نصرت فتح علی خان کا گھرانہ تقریبا چھ سو سال سے فن قوالی سے وابستہ ہے۔۔۔۔نصرت کے والد فتح علی خان اپنے وقت کے مشہور قوال تھے۔ سر اور راگنیاں نصرت کو گھٹی میں ملی تھی۔ استاد فتح علی خان نصرت کو ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے۔ لیکن ان کا من گانے کو مچلتا تھا۔۔

 فتح علی خان سمجھتے تھے کہ نصرت کی آواز اچھی نہیں وہ کبھی لیڈ سنگر نہیں بن سکتے سو انہیں طبلے پر بٹھا دیا گیا۔۔۔۔ لیکن سُروں کی سمجھ ماں کو پوری تھی انہوں نے اصرار اور احتجاج کرکے نصرت فتح علی کو موسیقی کی تعلیم دلوائی اور نصرت اپنے شوق ، لگن محنت سے اُس مقام پر پہنچے جس پر آج تک کوئی دوسرا قوال نہیں پہنچ سکا
روائتی قوالی میں دو ہارمونیم ہوتے ہیں۔ایک طبلہ نواز اور کبھی کبھی ایک ڈھولی بھی۔۔۔ چھ، سات کورس گانے والے اور تال دینے والے موجود ہوتے ہیں۔ مرکزی قوال الفاظ کی تکرار۔۔۔ اور ایک ہی شعر کو مختلف انداز سے گا کر ایک تاثر قائم کرتا ہے کہ لوگ بے خود ہو جائیں۔نصرت بے خودی میں گا تے تھے کہ سننے والے دیکھتے رہ جاتے
سولہ سال کی عمر میں پہلی بار باپ کے چہلم پر قوالی کی۔۔ گائیکی میں تسلسل آیا تو1971 میں قوال پارٹی کے سربراہ بن گئے
نصرت نے فیض احمد فیض، احمد فراز، ناصر کاظمی، پروین شاکر، بری نظامی، ناز خیالوی سمیت بہت سے شعرا کا کلام گایا۔
حضرت داتا گنج بخش کے عرس کا افتتاح اور اختتام ان کی قوالی ’’میلے نے وچھڑ جاناں‘‘ سے ہوتا تھا۔۔ یہ قوالی مرحرم بری نظامی نے لکھی تھی۔۔
دم مست قلندر بھی بری نظامی مرحوم کا کلام ہے جسے گاکر نصرت کو عالم گیر شہرت ملی۔ انہوں نے یہ قوالی امریکی موسیقار پیٹر گیبرائیل کے ساتھ مل کر کمپوز کی اور پھرنصرت نے یورپ ‘امریکہ ‘جاپان اور وسطی ایشیائی ریاستوں سمیت چالیس سے زائد ممالک میں پرفارم کیا
جس کے بعد بری نظامی مرحوم نے نصرت کو مزید کلام لکھ کردیا۔ جس میں کنا سوہنا تینوں رب نے بنایا،دل مر جانے نوں کی ہویا سجناں،ہو جاوے جے پیار تے سونا بھل جاندا، ڈب ڈب جاوے دل میرا، وے ڈھول ماہیا بہ جا میرے کول ماہیا، سن چرخے دی مٹھی مٹھی ، وگڑ گئی اے تھوڑے دناں توں، گن گن تارے لنگدیاں راتاں اور بہت کچھ شامل ہے۔ غرض بری نظامی نے جو لکھا تھا آج وہ سب کچھ نصرت سے منسوب ہے
ان کے علاوہ نصرت نے اللہ ہو۔۔ اللہ ہو، علی مولا علی علی، یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے، تمہیں دل لگی بھول جانی پڑے گی، پیا۔۔۔ رے پیا۔۔۔ رے، آفریں آفریں، سانوں اک پل چین نہ آوے، وہی خدا ہے، سجنا تیرے بنا، یا حئی و یا قیوم، بی با ساڈا دل موڑ دے، غم ہے یا خوشی ہے تو، کوئی جانے کوئی نہ جانے، شاماں پئیاں، مست نظروں سے اللہ بچائے، میری توبہ، فصل گل ہے، عشق دا رتبہ، اب کیا سوچیں، نی میں جانا جوگی دے نال۔۔ اور اسی طرح کے کلام کی ایک لمبی فہرست جو ہمیشہ یاد رہے گی۔
نصرت نے اردو،پنجابی ،فارسی اور ہندی میں کلام گایا۔۔۔انہیں نغمات ،قوالی ،حمد اور منقبت گانے میں دسترس حاصل تھی ۔1987 میں حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی ایوارڈ پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا۔
ان کی شادی اپنی کزن ناہید سے ہوئی اورایک بیٹی ندا نصرت کے باپ تھے۔۔
11اگست 1997 کو وہ جگر اور گردوں کے عارضے میں مبتلا ہو گئے۔ گردے تبدیل کرنے کے لیے انہیں لاس اینجلس لے جانے کا پروگرام بنایا گیا لیکن وہ 48 سال کی عمر میں 16اگست1997 کو لندن کے کارنویل ہسپتال میں ددم توڑ گئے۔۔۔ان کی میت فیصل آباد لائی گئی۔ نمازجنازہ دھوبی گھاٹ گراونڈ میں ہوئی۔۔ ہزاروں سوگواروں نے شرکت کی تدفین جھنگ روڈ والے قبرستان میں کی گئی۔ ان کی بیوہ ناہید نصرت بعد میں کینیڈا شفٹ ہوگئیں اور پھر 13ستمبر2013 کینیڈا میں ہی انتقال کر گئیں۔ ایک بار انہوں نے مجھے فون پر کہا کہ پاکستان نے میرے شوہر کی قدر نہیں کی۔۔جتنی اہمیت ان کی بنتی تھی اتنی نہیں دی گئی۔۔۔

 آج راحت فتح علی خاں اپنی خاندانی وراثت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔۔ رضوان معظم بھی ان کے قریبی عزیزہیں جو نصرت کی مکمل کاپی ہیں۔۔ رضوان اپنے بھائی کے ساتھ روائیتی قوالی کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔۔۔۔ فیصل آباد میں نصرت کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے نصرت فتح علی خان آڈیٹوریم بنایا گیا ہے اورنامور پنجابی شاعر بری نظامی کی یاد میں اقبال اسٹیڈیم کے قریب ایک چوک کا نام رکھا گیاہے۔ بری نظامی چوک سے تھوڑا آگے جائیں تو نصرت فتح علی آڈیٹوریم آتا ہے۔۔۔ یہ اس بات کی شہادت ہے کہ مر کر بھی دونوں ایک ساتھ ہیں۔۔۔نصرت کی آج 18ویں برسی ہے..
نصرت فتح علی خان کے انتقال کے بعد ایک انٹرویو میں بیگم ناہید نے بتایا کہ” نصرت رات کو سوتے وقت بھی کان سے ہیڈفون لگا کر سوتا تھا۔ اس کے بغیر اسے نیند ہی نہیں آتی تھی۔بلکہ ایک مرتبہ رات کو میں نے ہیڈفون اٹھا یا تو انہوں نے آنکھیں کھول لیں“۔
اب یہ کہنا مشکل ہے کہ نصرت اس جہاں کو چھوڑ گئے یا پھر موسیقی کو اس جہاں میں چھوڑ گئے۔ کچھ تو ہے جو ان کی وفات کے اٹھارہ برس بعد بھی ہمیں نصرت کی ہی یاد دلاتا رہتاہے۔۔۔ نصرت کانام گینز بک میں بطور قوال، سنگردرج ہے انہوں نے قوالی کے 125 البم گائے۔ جو کہ کسی بھی قوال سے زیادہ ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں