پیر، 28 دسمبر، 2015

حلال اشتہار ۔؟

وزیراعلی پنجاب شہباز شریف صوبے کے بہت سے انتظامی امور میں شہرت کی حد تک بدنام ہیں ۔ 2013 کےانتخابات سے قبل انہوں نے اقتدار میں آکر بجلی کی   لوڈشیڈنگ ختم کرنےکے درجنوں اعلانات کئے ہر اعلان میں  نئی تاریخ دی۔ شریفوں کی یہ تقریریں شریکوں کے ہاتھ لگیں تو انہوں نے اکھٹی کرکے ایسا اشتہار بنا کر ٹی وی پر چلایا جو دیکھ اور سن کر دشمنِ جاں کو کافی مزا آیا۔ میٹرو بس کی لائن میں کھڑے ہو کر ٹکٹ لینا۔ سیاحتی بس کا ٹکٹ لینے کے لئے خواجہ حسان سے 200 روپے ادھار لینا۔ہیلی کاپٹر سے اُتر کر موٹر سائیکل پر بیٹھ جانا۔چینی وزیر اعظم کے سامنے میاں نواز شریف کو انگریزی پڑھانا اور بارشی پانی میں لمبے بوٹ پہن کر گھس جانا۔دشمنوں کے پاس نئے اشتہار بنانے کا مناسب مواد اب بھی موجود ہے۔ ؟

جمعہ، 25 دسمبر، 2015

کون بنے گا کروڑ پتی ۔؟

کون بنےگاکروڑ پتی جسےمختصر الفاظ میں کے بی سی بھی کہتے ہیں۔انڈین ٹی وی  کا وہ پروگرام ہےجویہاں بھی یکساں مقبو ل ہے۔پروگرام کےمیزبان فلم سٹار امیتابھ بچن ہوتے ہیں۔کےبی سی کھیلنے والےامیدوارسے13سوال پوچھے جاتے ہیں۔جواب 45 سیکنڈمیں دینا ہوتا ہے۔ گھڑی کی  ٹِک ٹِک بجتے ہی سکرین پراے، بی،سی اور ڈی۔4آپشن نمودارہوتے ہیں۔میزبان  ہاٹ سیٹ سےآنے والاہرجوابسُن کرپوچھتاہےلاک کر دیا جائے۔؟ امیدوارجیت جائےتوکروڑپتی بن کرگھرجاتاہے۔ انعامی رقم 7کروڑ روپےتک پہنچ چکی ہے۔

ہفتہ، 19 دسمبر، 2015

دہی بھلے آرڈیننس۔!

1946 میں بانی پاکستان کی تحریک پر۔دو  کارباوری شخصیات  احمداصفحانی اورآدم جی  نےکلکتہ میں اورینٹ ائیرویز نامی فضائی کمپنی رجسٹرڈ کروائی۔قیام  آزادی کےوقت اسی اکلوتی مسلم فضائی کمپنی نےریلیف آپریشن کیا۔1955میں اورینٹ ائیر ویز۔پی آئی اےمیں بدل گئی۔اختیارات سرکار نےسنبھال لئے۔یہ نجی شعبہ جب دولت مندوں سےنکل کرسرکاری تحویل میں آیا توبہت عروج  آیا۔ باکما ل لوگ۔ لاجواب سروس کی عملی شکل۔ میں اکثرسوچتا تھا اسٹیج ایکٹرمرحوم مستانہ۔پرفارمینس کےدوران ائیرپورٹ انکوائری پرفون کرکے کیوں پوچھتے ہیں۔لاہور فلائیٹ کتنےبجے جانی ہے۔؟ کراچی کتنے بجے۔؟اور کوئٹہ کا کیاٹائم ہے۔؟ انکوائری نےجواب دےکرپوچھا۔سرآپ نے کہاں  جاناہے۔؟
مستانہ:جانا جُونا کہیں نہیں۔بھائی میں نےتو کبوتر چھوڑنے ہیں۔

پیر، 14 دسمبر، 2015

چندا برائے اراکین اسمبلی

ہمتقریبا کوپورا تصور کرتے ہیں اورشک کوسچ سمجھتے ہیں۔ جب سے پیدا ہوئےگذارا۔مانگےتانگے پرہے۔پیدا ہوئے تو مانگ کردائیہ کوٹیکس  دیااورکوئی مرا توشریکے کوننگا  پیٹ دکھا  کرکفن دفن  کرلیا۔بیٹے کی شادی رکھ لی تو ادھار اٹھا کر کوٹھا بنایا اوربیٹی کی شادی کی توبال بال قرضے میں ڈبوکرجہیز اکھٹا  کیا۔زندگی ایسے ہی چل رہی ہے اورصدشُکرکہ اچھی خاصی چل رہی ہے۔کہتے ہیں کہ ادھارمحبت کی قینچی ہے اوربہت ہی کم لوگ ہیں جو محبت کی  قینچی کےبغیر زندگی گذرا رہے ہیں۔ وگرنہ اُدھارنےمحبت کو کاٹ کاٹ  کرمقروض  اورمخیرکوواہگہ بارڈرجیسی آپسی دُشمنی پرلا کھڑا کیا ہے۔لوگ تو اُدھارمیں  روپیہ پیسہ مانگتے ہیں لیکن  اعتبارساجدتو کچھ اور ہی مانگتے ہیں۔

بدھ، 9 دسمبر، 2015

موک اسٹوڈیو ۔۔۔!

شہروں ہوں یا دیہات  پھیری لگا کرخوانچے اٹھا کرکچھ نہ کچھ  بیچنے  والوں کی  پھیریاں  اکثر  سنائی دیتی رہتی ہیں۔دیہاتوں میں گلی گلی پھیری لگانے سے کہیں بہترسمجھا جا تا ہے کہ’’ پھیرو‘‘مسجد میں جا کر اعلان کروا  دے  اور سارا  پِنڈ اعلان سن کر  اکھٹا ہو کرخریداری کرنے پہنچ جاتا ہے۔حتی کہ پنڈ کے قصائی کٹا ذبحہ کرکے بھی مساجد سے اعلان کرواتے ہیں۔لیکن شہروں میں حالات قدرے مختلف ہوتے ہیں۔یہاں پر کُلفی  ، آئس کریم  ، پاپ کارن ، آلو چھولے اور چھلی ، حتی کہ کلچے۔ ہر چیز گلی میں آکر بکتی ہے۔ بچپن میں ہماری گلی میں  اکثر آواز آتی تھی۔

ہفتہ، 5 دسمبر، 2015

ایان علی ہم شرمندہ ہیں۔۔ !

غدر کےبعدمرزا غالبپکڑے  گئے۔انہیں  جب  کمانڈنگ آفیسرکے سامنے پیش کیا گیا توکرنل براؤن نےپوچھا:ویل۔ٹُم مسلمان ہے؟
مرزا: جناب۔ آدھا مسلمان ہوں۔
کرنل : کیا مطلب؟
مرزا : جناب شراب پیتا ہوں۔ سؤر نہیں کھاتا۔کرنل  ہنس پڑا اور مرزا کو چھوڑ دیا۔
میں یقین سےنہیں کہہ سکتا کہ  کرنل نے جس حق حاکمیت کو استعمال کرکےمرزاکوجانے دیا۔ مرزا کی حس لطافت اس کی وجہ بنی یا  پینے پلانے کااعتراف۔لیکن   مرزاغالب کےایسے ہی درجنوں قصے ان کے شعروں کی طرح مقبول عام  ہیں۔عاشقان ِمرزا جانتے ہیں کہ وہ  رج کے پیتے تھے۔شراب مرزا کے  حواس اور کلام  دونوں پر غالب تھی لیکن غالب کا  ادبی احترام آج بھی برابر۔ برقرار ہے کیونکہ  احترام ۔کوئی  پٹرولیم پراڈکٹ نہیں وگرنہ  اب تک تو اوگرا۔ اتار چڑھاوکر چکا ہوتا ۔بقول مرز ا۔
کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
شر م تم   کو  مگر نہیں  آتی ۔

منگل، 1 دسمبر، 2015

ساس برائے فروخت ۔!

شاعر مشرق نے کہا تھا ۔
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑی بے ادب ہو ں سزا چاہتاہوں
پنجابی کہاوت ہے کہ ’’یار ۔یاراں دیاں بانہواں ہوندے نیں ‘‘(دوست ۔دوستوں کے بازو ہوتے ہیں)۔انہی بازو ں کے ساتھ دوست  اپنے  رازوں کا تبادلہ کر بیٹھتے ہیں حتی کہ ازدواجی راز ۔ اور خانگی جھگڑے بھی اُنہیں پتہ ہوتے ہیں۔حالانکہ ازدواجی راز سٹیٹ سیکرٹ ہوتے ہیں ۔ناقابل  شیئر ۔ یاروں کی  کئی اقسام ہوتی  ہیں۔۔جن میں یار مارکا درجہ اعلی ترین ہوتا ہے۔۔علامہ اقبال کے شعر  کی چلتی پھرتی تفسیر۔۔
رازدار:یارتمہیں برا نہیں لگتا  ، بیوی کے ساتھ مل کر کپڑے دھلواتے ہو۔؟
یار:  بُراکیوں۔؟ وہ بھی میرے ساتھ مل کر برتن دھوتی ہے۔