ہفتہ، 31 دسمبر، 2016

دسمبر روٹھ کر چلا گیا۔؟

میں تو پہلے ہی شوگر کا مریض ہوں ’’فراز‘‘
اور وہ کہتی ہے۔ پیار دی گنڈیری چوپ لے
خباثت سے لبریز یہ جملے  عہد حاضر کے اُن بدذوقوں کے ہیں۔جنہوں نے ادب میں شرارتوں، خباثتوں اور حماقتوں کو متعارف کروایا۔ ذوقِ آوارگی  کی  ندائی کے لئے نیا اسلوب ڈھالا۔ شعروں کی ماں بہن ایک کی۔ فراز صاحب کی زمین چونکہ خاصی   ہموارتھی اس لئے کھیتی بھی وہیں پر اُگائی گئی۔ستم یہ کہ’’ فصل گُل‘‘ بیساکھی کے ڈھول کی طرح چرچا کرکے کاٹی  گئی۔احمد فرازمحبوبی شعروں کے دیوتا ہیں۔لیکن شریروں نے تشنہ آرزوں کا پوسٹ مارٹم کر کے چھوڑا۔حُسنِ جاناں کی چیرپھاڑ بھی ہوئی۔کچے مکان کی دیوارگرنے پرموٹروے بنانے والے کوہ کن۔یونہی موسم کی ادا دیکھ کرتبدیلی کےخواہش مندمنچلے۔محبوب کو آنکھ بھر کے دیکھنے والے ’’شکم سیر‘‘۔فرازصاحب کاآہنگ رومانیت سے لبریز ہے اورکہیں کہیں رجز۔بھی ہے۔لیکن ۔

ہفتہ، 24 دسمبر، 2016

کتے کی پریس کانفرنس ۔!

شعلےفلم میں ویروچیختا رہا کہ بسنتی،ان کُتوں کےسامنے مت ناچنا۔۔ لیکن بسنتی ناچ کے ہٹی۔ فلم  گھاتک میں سنی دیول چنگھاڑا ’’مرد بننے کا اتنا ہی شوق ہے تو کتوں کا سہارا لینا چھوڑدے‘‘۔لیکن کاتیا۔کتوں کا سہارالے کر ہٹا۔اور۔فلم خوددار میں گوندا نے کہا ’’جب دس کمینے مرتے ہیں۔توایک کتا پیدا ہوتا ہے۔‘‘ اور وہ  دس کمینے مار کے ہٹا۔ہرفلمی  ڈائیلاگ  نےثابت  کیا ہےکہ   کُتوں کی کئی خصلتیں انسانوں میں پائی جاتی ہیں۔حتی کہ  طبعیت بھی کُتی ہوسکتی ہے۔وگرنہ بسنتی کئی بار۔ ویرو کے سامنے  ناچی تھی۔اسے کُتوں کے سامنے ٹھمکنے میں بھی کوئی پرابلم نہیں ہونا چاہیے تھا اورہوا بھی نہیں۔ویرو روکتا بھی رہا لیکن بسنتی  کی اپنی طبعیت بھی مجرے پرمائل تھی۔

ہفتہ، 17 دسمبر، 2016

عامر خان بھی رن مرید نکلے ۔؟

بچپن  بھی کیا خوب تھا۔کسی دوست سے کچی  ہوجاتی تو چھوٹی انگلی بھڑا کرقطع تعلق کرلیتے اورپکی کرنی ہوتی  تو شہادت  کی انگلی ملا لیتے۔کچی  کھلے عام ہوتی توچھپ کر ہونےوالی پکی۔جھوٹی سمجھی جاتی  تھی۔بچپن کی لڑائیوں کا مشہور جملہ ہوتا تھا۔’’ جوکہتا ہے وہی ہوتا ہے‘‘۔ لیکن تب دوستیاں اُتنی ہی   پکی ہوتی تھیں۔جتنی آج کل پاکستان اورچین کی دوستی ہے۔سمندر سے گہری، ہمالےسےاونچی اورشہد سےمیٹھی۔ بچپن  کی  لڑائیاں اس  اضطراب سے پاک تھیں۔ جن میں   معروف ناٹک نگا رشیکسپیر کےاکثر   کردارمبتلا  رہتے ہیں۔شیکسپیرشائد پہلا  ناٹک نگار تھا جس نے  ڈراموں میں کرداروں سے خود کلامی کروائی۔ جسےانگریزی میں Soliloquy  کہتے ہیں۔ جیسے۔
To be or not to be, that is the question

ہفتہ، 10 دسمبر، 2016

بلاول بنتِ زرداری

بلو ہماری  فلمی سیاست اورغیر فلمی ثقافت   کا  ایسا کردار ہے ۔جوگانوں میں ہٹ اور سیاست میں فِٹ  ہے۔مجھے جب بھی بلویاد آتی ہے۔ تو۔شیخ رشیداور۔ ابرارالحق کی یاد ساتھ لاتی ہے۔دونوں غیر فلمی ہیں۔ لیکن پوری فلم ہیں۔ابرار الحق  موسیقی کے ایفل ٹاور ہوں گے ۔ لیکن میں ان کی  سیاسی بصیرت کاقائل ہوں۔انہوں نے سالوں پہلے ہی گانوں میں بِلو کو متعارف  کروا یا تھا۔جس معراج پر شیخ رشیدتقریبا ایک  دھائی بعدپہنچے۔ابرار الحق۔اچانک بِلو کوچھوڑ گئے اوربلے سےمنسلک ہوکرسیاست میں شیخ رشید کے پیچھے چل پڑے۔ شیخ رشید پاکستانی سیاست کے پِیسا ٹاورہیں۔تھوڑےٹیرےسے۔ابرار کی بِلو آج کل شیخ رشید کے پاس ہے۔اور خاصی پاپولر بھی ہے۔ لیکن میرا دوست شیخ مریدکہتا ہےکہ بِلو ایسا مرد ہے۔جس کی عوامی مقبولیت بطور  عورت ہے۔ہارمونل تبدیلی کے بغیر۔

ہفتہ، 3 دسمبر، 2016

سیاست میں گالیوں کااستعمال

اندرون شہروں کے بل کھاتے محلوں میں اکثر  پھپھے کُٹن  ماسیاں ہوتی ہیں ۔جو کیبل کی طرح ہر گھر میں جاتی ہیں ۔ جنہیں گھریلو راز۔وائی فائی کے  سگنل کی طرح  با آسانی مل جاتےہیں۔زچگی سے بچگی تک۔ دن رکھنے سےدن پھرنے تک کے سگنل۔۔ وہ رشتے ایلفی کی طرح جوڑنے اور شیشے کی طرح توڑنے کی ماہر ہوتی ہیں۔محلوں کی لڑائیوں اور شناسائیوں ۔سمیت کئی سماجی خدمات ماسیوں کے دم سے قائم  ہیں۔ہمارے محلے کے لونڈوں، لفینٹروں نے  ماسی کانام  گوگل  رکھا ہوا ہے۔اورسوشل  سروس کے اعتراف میں ماسی کے چاروں  بچوں کےنام بھی سوشل میڈیا سے منسوب  ہیں۔  بڑی بیٹی ’’وٹس ایپ‘‘ہے۔منجھلی۔ ماں کی کاپی ہےاسے ’’گوگل پلس‘‘کہتے ہیں۔چھوٹی ’’ یوٹیوب ‘‘ہے اور بیٹا ٹوئیٹر۔