ہفتہ، 28 مئی، 2016

سیاست کا شیخ چلی

پروڈیوسر ہمیشہ نئی فلم کے لئےکاسٹ کاانتخاب یہ سوچ کے کر تے ہیں کہ فنکاروں کے پردہ سکرین  پرآتے ہی ہر طرح کےفلم بینوں کےذوق کی تسکین ہو جائے۔ یعنی  گلیمر۔ ڈانس ۔ایکشن ۔اور۔کامیڈی۔فلم میں ہر فلیورکا تڑکہ برابر لگتا ہے جیسے۔دال کو بھگار لگتا ہے۔فلم جتنی بھی رنگین اورتڑکہ جتنا بھی چٹخارے دارہو۔ڈائیلاگ خواہ کتنے ہی اوپن ہوں۔اور سنسر کتنا ہی نرم کیوں نہ ہو۔ کامیڈین کےبغیرفلمیں سنجیدہ رہتی ہیں۔2008سے 2013 تک ملک میں جوفلم چلی وہ انتہائی سنجیدہ سی تھی۔کیونکہ شیخ رشید’’اسمبلی کاسٹ‘‘سے باہر تھے۔فرزندانِ راولپنڈی  نے ناقابل شکست فرزندِ راولپنڈی کو 2008اور2010 میں جاوید ہاشمی اور شکیل اعوان سےشکست دلوادی تھی۔

ہفتہ، 21 مئی، 2016

راجہ ریاض نا منظور

تاریخ ہند کی بیشتر کتب مہاراجوں کے تذکروں سے بھری پڑی ہیں ۔ان میں کچھ راجے بھی تھے۔ایام جہل  کی بات ہے جب گاؤں میں کِکر کی ٹھنڈی چھاؤں تلے پڑی  کرسی پر بیٹھتے ہی کہا کرتے تھے۔ راجہ۔آگےسے سیٹ کر دو۔اور پیچھے سےباریک ۔اور وہ کنگھا۔ قینچی پکڑکر شروع ہو جاتا۔راجہ سرسے جُڑا رہتا اور میری نظریں شیشے سے۔ویسے یہ شیشےاتنےجھوٹے ہوتے ہیں کہ کوجھے سے کوجھا۔گاہک۔بھی خود فریبی میں مبتلا  ہوجائے۔شیشہ اگر۔کوجھا ہو تو گاہک شیشے میں نقص نکالتااورکٹنگ کوجھی ہو جائےتونقائص  کی گردان راجےکی گردن پرمنتقل ہوجاتی ۔کوسنے کا سلسلہ اگلی حجامت تک جاری رہتا۔نومولود بچوں کےختنوں سےلےکربال کاٹنےکے دوران سراورکان پرٹک لگنے تک کی جراحت بھی اُسی کےذمہ ہوتی۔

ہفتہ، 14 مئی، 2016

سیاسی جلسے ہیں یا انار کلی۔؟

ہمارے  ہاں صحت کی بنیادی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے ٹُونے ۔ٹوٹکے کا بہت رواج ہے۔لیکن  شکر ہے کہ  ہر گھر میں ایک زبیدہ آپا   ہوتی ہے۔جس کے طبی مشورے کبھی تو انرجی ڈرنک لگتے ہیں  اورکبھی کبھارہمیں   وائبریشن پرلگادیتے ہیں۔یہاں مردانہ  بیماری کی تشخیص ایکسرے سےہوتی ہےاور زنانہ بیماری  الٹرا ساؤنڈ سےپہچانی جاتی ہے۔بلکہ یوں کہہ لیں کہ   الٹرا ساونڈ جوانی   کی بیماری  ہےاورایکسرے بڑھاپے کی۔ لیکن کچھ  ایکسرےہسپتالوں کےبجائے انار کلی میں ہوتے ہیں۔ بیمار شہزادوں کی بڑی تعدادوہاں ایکسرےخودکرتی پھرتی ہے۔انار کلی شہنشاہ اکبرکی اُس ضد کانام ہے۔جودیوارمیں چنوا کرپوری ہوئی۔عہدمغل سےعہدچغل تک۔کے سارےسلیم انار کلیوں میں پھرتے ہیں۔پس دیوار ایکسرےکی  خواہش  والےسلیم۔

ہفتہ، 7 مئی، 2016

تیرا کیا بنے گا۔کالیا۔؟

اگر میں  یہ کہوں کہ سیاستدان جوکام اقتدار میں آکر۔کرتے ہیں وہ  ہم بچپن میں کرتے تھے۔توغلط نہ ہوگا۔میں چھوٹاپے ۔میں  کافی  لالچی تھا۔اماں کچھ لینے بھیجتی تو ریزگاری  مارلیتا۔ کبھی کبھار مکھن ٹافی کھالیتااورکبھی ٹیڈی بسکٹ ۔گچک اور مرتبان میں رکھی برفی دیکھ کرمُنہ سیلابی ہوجاتا۔میرا بھی ایک آف شورگُلک تھا۔تب  بوتلیں گھروں میں مہمان کے آنےپرآتی تھیں۔گھرمیں چابی نہیں ہوتی تھی۔دکانداربوتل کھول کر تھما  دیتا۔ واپسی پر  چُسکی تو مسٹ ہوجاتی۔مہمان جتنے زیادہ آتے  چُسکیاں  اُتنی ہی بڑھ جاتی تھیں۔تب  ایک سے زائدبوتلیں چھکُو  میں لاتے تھے۔بڑے پارکس میں جائیں تو وہاں مالشیے۔مختلف رنگ و قسم کے تیل سٹینڈ میں  لگا کرگھومتے ہوتے ہیں۔ناں۔؟۔بالکل ویسا ہی چھکُو۔زمانہ بدلا  تو چابی ۔