میں تو پہلے ہی شوگر کا مریض ہوں ’’فراز‘‘
اور وہ کہتی ہے۔ پیار دی گنڈیری چوپ لے
خباثت سے لبریز یہ جملے
عہد حاضر کے اُن بدذوقوں کے ہیں۔جنہوں نے ادب میں شرارتوں، خباثتوں اور حماقتوں
کو متعارف کروایا۔ ذوقِ آوارگی کی ندائی کے لئے نیا اسلوب ڈھالا۔ شعروں کی ماں
بہن ایک کی۔ فراز صاحب کی زمین چونکہ خاصی
ہموارتھی اس لئے کھیتی بھی وہیں پر اُگائی گئی۔ستم یہ کہ’’ فصل گُل‘‘
بیساکھی کے ڈھول کی طرح چرچا کرکے کاٹی گئی۔احمد فرازمحبوبی شعروں کے دیوتا ہیں۔لیکن شریروں نے تشنہ آرزوں کا
پوسٹ مارٹم کر کے چھوڑا۔حُسنِ جاناں کی چیرپھاڑ بھی ہوئی۔کچے مکان کی دیوارگرنے
پرموٹروے بنانے والے کوہ کن۔یونہی موسم کی ادا دیکھ کرتبدیلی کےخواہش مندمنچلے۔محبوب کو آنکھ بھر کے دیکھنے والے ’’شکم
سیر‘‘۔ فرازصاحب کاآہنگ رومانیت سے
لبریز ہے اورکہیں کہیں رجز۔بھی ہے۔لیکن
۔
تسکین دل کی خاطر ’شوخوں‘کے دماغ میں جوبھی ہم وزن قافیےآئے۔اُس کا طرہ مصرعہ بنا دیا۔بندر کے ہاتھ بندوق آ گئی۔یا شائدماچس۔ بے ذوقوں کا اپنا ہی ’’موک سٹوڈیو‘‘ہے۔جس میں سارامترنم کلام۔اپنی کمپوزیشن سمیت نزاعی ہچکیاں لے رہا ہے ۔خواہ مخواہ ۔ بے سُری چسکےلئے جا رہے ہیں۔ بےدم حسرتیں، شکستہ خواہشیں اور نادم آرزوئیں اتنی ہم وزن ہیں کہ چالاک عہدکےجن بچوں نے فراز صاحب کونہیں
پڑھا۔شائد وہ۔ پیار کی گنڈیری کوسچی مچی چوپنے لگیں ۔کیونکہبیشتر کلامنمکین
ہو چکا ہے۔جیسے
ضبط لازم ہےمگر، دکھ ہے قیامت کا فراز
ایسے حالات میں وہ کیسے سکوں پائے گا۔
آٹھویں بارہے بے چارے کی منگنی ٹوٹی
ظالم اب کےبھی نہ روئے گا تومرجائےگا۔
ظالم اب کےبھی نہ روئے گا تومرجائےگا۔
اس تمثیل کا مقصدمحض اتنا بتانا ہے
کہ لوگوں نےاحمد فرازکی شاعری کا جوحشر کیا ہے۔دسمبرکی شاعری اس سے بری پوزیشن میں ہے۔دسمبر میں۔ ناکام
عاشقوں کی حسرتوں کاسالانہ میلہ لگتا ہے۔فراق کا سالانہ عرس۔ہجوگوئی اورالم کاعرس۔جہاں ’دسمبری‘ دھمال ڈالی جاتی ہےاور
حال بھی چڑھتے ہیں۔چوکیاں بھری جاتی ہیں۔مجذوبانِ عشق،محرومانِ عشق کا سالانہ
مشاعرہ ۔دسمبر کی ماں بہن ایک کرنےکےلئے۔ویسے تو دسمبر برفباری کا مہینہ ہے ۔لیکن عاشق نالےبہاتے ہیں۔ارمانوں پرکورا۔
پڑنے کا مہینہ، گذرتے سال کی آخری گھڑیوںمیں۔ایک بارپھر۔کوئےجاناں،سوئے جاناں اورپہلوئے جاناں کی حسرت کا
مہینہ۔چورنہیں تو لنگوٹی ہی سہی کے نظرئیے پرکار بندعاشوں کامہینہ، حسرتوں اورامیدوں کےبستر مرگ پرپڑےبیماروں کا مہینہ۔بقول پروین شاکر۔
اب اداس پھرتے
ہو۔سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتاہے۔اس طرح کے کاموں میں
اس شعرمیں پروین شاکرنےدسمبر کاتذکرہ ویسے ہی کیا ہے جیسےانو ملک نے’’ایک گرم چائے کی پیالی ہو۔کوئی اس
کو پلانے والی ہو‘‘۔والے گانے میں کیا ہے۔سالوں پہلے پیمائش عشق کے پیمانے
الگ ہوتےتھے۔پھول کی پتی پتی توڑ کر۔He loves me, he loves me not سے وفا جانچتے تھے۔ کانچ
کی چوڑی توڑ کرلعاب سے تر کرکے ماتھے سےچھونا اورپھرہتھیلی پرتوڑ کرجُوڑنکالی جاتی تھی۔لیلی کی آڑمیں کُتےسے
پیارہوجاتا تھا۔تھل میں برہنہ پا میرتھن ہوتی تھی۔چناب میں گھڑےپرکشتی رانی ہوتی تھی۔لیکن اب توسارے
مرزے بنے پھرتےہیں ۔ روزانہ ۔نت نئی
صاحباں۔؟۔بنئےکا بہی کھاتہ۔عشاق کی فہرست اب ایکسل شیٹ میں بننے لگی ہے۔مائنس
اور پلس ون جوکرنا ہوتا ہے۔پیارکی پیمائش کےلئےلو(love) کیلکولیٹرنکل آئے ہیں۔عہدحاضرکاعشق چائنا کےمال جیسا ہوچکا ہے۔ناپائیدار۔فوم کے علاوہ کسی چیز کی گارنٹی نہیں۔پیار کی گڈیریاں۔
جگہ جگہ بک رہی ہیں۔عاشقوں میں سقراط بننے
کی سکت نہیں رہی۔کم بخت جب تک۔زندہ رہیں گے۔زنداں میں ر ہیں گے۔
عشقِ قدیم۔خود احتسابی سکھاتا تھا۔عاشقوں نےآئین کاآرٹیکل 62 اور 63 خود
پر نافذ کررکھا تھا۔صادق اورامین ہونے کا حلف باربار دیناپڑتا تھا۔چوڑی کا جُوڑکم نکلنے پرقسمیں کھانا پڑتی تھیں۔لیکن آج کل۔دسمبرمیں ’’محبتی‘‘ اچانک عدوجاں بن جاتے ہیں۔اپنے ہی رقیب۔سگی محبوبہ کےسوتیلے عاشق۔فراق کی بھٹی
میں دانوں کی طرح اُبڑ اُبڑ جاتے
ہیں۔ شب وصل کےلئے ٹمٹماتےتاروں کے
بجائے کھمبے گنتے ہیں۔سوشل میڈیا پر موسمی نوحے لکھتے ہیں۔وہاں کئی ماتمی سنگتیں
ساتھ مل جاتی ہیں۔ پھردسمبر کی ماں بہن ایک کی جاتی ہے۔بقول ماتمی۔
دسمبر آگیا جاناں
سنو،سردی سے مر جانا۔!
دسمبر کے علاوہ بھی۔
مجھے تم زہر لگتے ہو۔
بچپن کادسمبرسائبیریا جیسا برفیلا ہوتا تھا۔ٹھنڈ ۔مارچ تک
لگتی ۔بہار اپریل میں پھوٹتی ۔تب گھروں میں بڑے سائز کی سانجھی رضائی ہوتی تھی۔آگ تاپنے کےلئے مٹی کی انگیٹھی ہوتی۔کوئلے۔کٹی
سٹرابری جتنے لال کرکے ۔خون ِآتش۔ جوان رکھا جاتا تھا۔ساتھ ڈرائی فروٹ بھی چلتا۔ جوان
ہوئے تو ڈرائی فروٹ کا نیا مفہوم پتہ چلا کہ’’سردموسم میں محبوب کی دید۔ڈرائی فروٹ جیسا لطف دیتی ہے‘‘۔ڈرائی فروٹ۔میں تب چلغوزےبھی ہوتے تھے۔ اب توچلغوزے۔۔الغوزے کی طرح سننے کو ہی ملتے ہیں۔میرا دوست شیخ
مرید کہتا ہےکہ’’موسم انسان پر گہرے
اثرات مرتب کرتا ہے ۔دسمبرکو جون جتنابرہنہ
کیا جاتا ہے۔سالوں پہلے۔موسم سرما ۔نسلِ نو کی پنیری کا
موسم ہوتا تھا۔ ہم سے پچھلی نسل کےبیشتر
لوگ۔ اسی لئےجون ، جولائی میں پیدا
ہوئے کیونکہ وہ دسمبر میں شاعری نہیں کرتے
تھے۔
کہتے
ہیں کہ عشق میں ناکامی کے بعدلڑکیاں شادی کر تی ہیں اورلڑکے شاعری۔اسی لئےجاڑے
کی خُنک شامیں اپنے ساتھ۔یادوں کی ’نشاۃ ثانیہ‘ لاتی ہیں۔ابرارالحق کو دسمبر بھیگا
بھیگا لگتا ہے۔امجد اسلام امجدپر’’آخری چند دن دسمبر کے۔ہر برس ہی گراں
گذرتے ہیں‘‘۔اور۔محسن نقوی تو کہتے ہیں۔
مرے ملنے والو۔!
نئے سال کی مُسکراتی ہوئی صبح۔ گر
ہاتھ آئے
تو مِلنا!!
تو مِلنا!!
کہ جاتے ہوئے سال کی ساعتوں میں
یہ بجھتا ہُوا دل۔۔دھڑکتا تو ہے
مسکراتا نہیں۔۔ دسمبر مجھےراس آتانہیں ۔۔۔
یہ بجھتا ہُوا دل۔۔دھڑکتا تو ہے
مسکراتا نہیں۔۔ دسمبر مجھےراس آتانہیں ۔۔۔
دسمبر کے لچھن ہمیشہ سے ہی خراب ہیں۔ برف پر لکھی محبت کی
داستاں۔جلد ہی پانی بن کر بہہ جاتی ہے۔ یہ عاشقوں کی مایوسی
کا استعارہ ہے۔جب ارمانوں کا الاؤ۔ جلتا ہے۔بے بسی کےآبلے بنتے اورپھوٹتے
ہیں۔ وصل کا پیاسا دسمبر۔ اس مہینے نے سارے شاعروں کا دل خراب کیا ہے۔لیکن موجودہ عاشقوں نے اس کا دماغ ٹھیک کر دیا ہے۔جواں
آتشوں نے دسمبر کی حئیت بدل ڈالی ہے۔دسمبر میں جون اترتا جا رہا ہے۔عاشق اب فراق میں برگ ِ زردنہیں ہوتے۔چائنا کےعشق کی تڑپ سوہان روح نہیں ہوتی۔شائد نامراد۔بے مراد ہی رہیں گے ۔ مجھے
تو پیار کی گنڈیری یاد آ رہی ہے۔لیکن مرید کہتا ہے کہ دسمبرکو روکنے کی بہت منتیں ہوتی ہیں۔محبوب کی منتیں کوئی نہیں کرتا۔دلوں کی خشکی کولڈ
کریم سےختم نہیں ہوسکتی۔محبوب۔دسمبر کی دھوپ۔کی
طرح ہمیشہ اچھے لگتے ہیں۔ لیکن دسمبرہم
سے روٹھ کرچلا گیا ہے
کیونکہ اس سال برسابھی نہیں اوربرفا بھی نہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں