دودھ میں
مینگنیاں ڈالنا ۔۔ بظاہر بہت بھدی سی کہاوت ہے ۔ لیکن
معنی کے اعتبارسےاس کہاوت نے کوزے میں دریا قیدکر رکھا ہے۔یعنی ’’کسی کام کو بدنیتی سے کرنا‘‘۔ہمارے گھروں کی خادمہ
ہو یا سرکاری خدام بلکہ سیاسی خادم
اعلی تک ۔بہت سے لوگ اکثر کام مینگنیاں ڈال کر تے ہیں ۔احساس ندامت چھپانے کا ڈھنگ
بھی اسی محاورے میں مدفن ہے۔ دودھ میں مینگنیاں ڈالنا دانستہ فعل ہے۔ وگرنہ دودھ تو ایسا جنتی میوہہےجس میں دوزخی
مینگنیوں کی ملاوٹ ممکن ہی نہیں۔دودھ
پینے کا ایک شوقین منڈی پہنچا اورپوچھا:یہ
بھینس کتنے کی ہے۔ ؟
کسان:1
لاکھ کی ۔روزانہ 10 لیٹر دودھ دیتی ہے اورکٹا بھی ساتھ ہے۔
گاہک:اور
یہ والی۔؟
کسان:یہ
دو لاکھ کی ہے۔لیکن نہ دودھ ہے اور نہ ہی بچھڑا۔
گاہک(حیرت
سے):اس کاریٹ کیوں زیادہ ہے۔؟
کسان
:جناب کردار بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔
ہمیں
یہ ماننا پڑے گا کہ کردار سازی میں دودھ کاکردار بہت اہم ہےا ور مشکوک کردار والا
انسان مینگنی ہوتا ہے۔ہمارے ہاں مشکوک کردار وں کی منڈی کو اسمبلی کہتے ہیں۔جہاں تخت اچھالنے کی آڑ میں کرداراچھالے جاتے ہیں۔اُن
منڈیوں کی سب سے بڑی جنس خود بکاو سیاستدان ہوتے ہیں بِن پیندے کے سیاستدان ۔جو بیان دینے کی آڑ
میں جگتیں مارتے ہیں۔قائم علی شاہ، عابد شیر علی ، منظور وسان اور ۔راجہ ریاض
ہماری سیاست کے امانت چن ہیں۔یہاں چوہدری
نثار جیسے سنجیدہ اور مولانا جیسے رنجیدہ کردار بھی ہیں۔ اسحاق ڈار جیسے کریکٹر ایکٹر اور شیخ رشید
جیسے اوور ایکٹر ز بھی۔ لیکن حُسن کارکردگی کا ایوارڈ خواجہ آصف کے پاس ہے کیونکہ وہ بکھی سے بولنے میں کاریگر
ہیں۔
مالی سے اس کی بیوی نے پوچھا : وہ کون سی شے ہے جو تم روزانہ دیکھتے ہو
لیکن توڑ نہیں سکتے۔
مالی :تمہارا منہ
خواجہ آصف قومی اسمبلی کے
نیم اُجڑے باغ کے مالی ہیں۔وہ دل
سے اپوزیشن کا منہ توڑنا چاہتے ہیں۔ ان کی
زبان بکھی میں ہے ۔وہ بجٹ پر بحث کر رہے
تھے اور شیریں مزاری جھوٹا وزیرکے نعرے
لگا رہی تھی۔ خواجہ آصف کی حسِ منہ توڑ جاگی اور بولے’’یا ر اس ٹریکٹر
ٹرالی کو تو چپ کر ائیں اورسپیکر صاحب اس
مردانہ آوازکو ٹھیک کرائیں۔ میں کنفیوز ہوجاتاہوں کہ آواز مردانہ ہے اور شکل سے
زنانہ‘‘۔خواجہ آصف نے ایک طرف تو ٹریکٹر ٹرالی کی گرہ لگا کر شرم و حیا کادامن تارتار کردیا تھا اور دوسری
جانب شیریں مزاری کی آواز سرکاری خزانے سے ٹھیک کرانے کا مطالبہ کرڈالا تھا ۔ صد
شکر کہ اسمبلی میں ہنگامہ آرائی ہو گئی
اور خواجہ آصف کو الفاظ واپس لینا پڑے۔
امریکہ میں ڈیموکریٹس
کا انتخابی نشان گدھا ہے۔ ایک دفعہ
ری پبلیکن ممبرنے کہہ ڈالا کہ ’’اس ہاوس کے آدھے ممبر گدھے ہیں ‘‘۔جس پر ایوان
میں ہنگامہ مچ گیا تو ری پبلیکن ممبرنے الفاظ واپس لے لئے اورکہا’’اس
ہاوس کےآدھے ممبر گدھے نہیں ہیں‘‘۔ یہ
جملہ دودھ میں مینگنیوں کے برابر تھا ۔خواجہ
آصف کے پاس بھی چند مینگنیاں تھیں۔ سو انہوں نے بھی ٹریکٹر ٹرالی واپس لے لی اورکہا ’’میں نے
جو کچھ کہا تھا اس پر افسوس ہے۔یہ ردعمل
فطری تھا۔ مجھے ایوان میں ایسا رویہ نہیں اپنانا چاہیے تھا تاہم میں معافی کا طلب گار ہوں‘‘۔ شیریں مزاری نے معافی مسترد کردی او رکہا کہ میرا نام نہیں لیا گیا لیکن سپیکر نےغیر
پارلیمانی الفاظ کوکارروائی سےحذف کرا دیا۔
پارلیمانی الفاظ کی
ڈکشنری بالکل ہی الگ تھلگ ہوتی ہے۔لیکن2013 سےشروع ہونے والی ڈکشنری توبالکل
ہی نیا ایڈیشن ہے ۔ گلوبٹ کا تذکرہ تو
آکسفورڈ تک رہا۔لیکن پاکستان میں ڈیزل، ڈینگی براداران،بلو رانی،تبدیلی، 35
پنکچر، شرم و حیا، فراری، پانامہ، کنٹینر، جوتا کلب، پٹواری، اے ٹی ایم، تیلی
پہلوان، پاگل خان،یوٹرن،انگلی، جنگلابس،میسنا اور ٹریکٹر ٹرالی کا اضافہ ہو چکا
ہے۔ہر لفظ ایک داستان ہے اور قوم بے دھڑک ڈکشنری کا استعمال کر سکتی ہے کیونکہ اسےگریجوایٹ
اسمبلی نے مرتب کیا ہے۔
میرا دوست مرید کہتا
ہے کہ جب تک اسمبلی کی کارروائی سنسر
بورڈ سے پاس نہیں کرائی جاتی میں نے تو بچوں کو اسمبلی کا اجلاس دیکھنے سے روک دیا ہے۔وہ تو کہتا ہےکہ
بیوی اور ٹی وی ڈکشنری کے دو ایسے الفاظ ہیں۔ جو ٹِچ بٹن کی طرح جُڑے ہوئے ہیں کیونکہ ٹی وی کی صنعت کو جتنی ترویج جہیز نے دی ہے
اُتنی تو فنکاروں نے بھی نہیں دی۔ پرانے دور میں ٹی وی موٹے ہوتے تھے اور خواتین سمارٹ۔آج خواتین پرانے
ٹی وی جیسی ہو چکی ہیں اور ٹی وی سمارٹ ہو
چکے ہیں۔ مرید تو کہتا ہے کہ 2008 میں لاہور سےتحریک انصاف نے جوتبدیلی شروع کی
تھی ۔ اس تبدیلی مہم میں شامل سمارٹ خواتین کو قوم نے سمارٹ
ٹی وی پردیکھا لیکن جب اسمبلی میں شیریں
مزاری پہنچی تو خواجہ آصف نے منہ توڑ الفاظ ڈکشنری کا استعمال کیا اور ٹریکٹر ٹرالی جیسے الفاظ بول دئیے۔
خواجہ آصف کےبیان پر
کئی تبصرے ہوئے۔جیسے۔شیریں مزاری کوٹریکٹر
ٹرالی کہنا توہین ہے وہ ٹینک
ہے۔آخرٹریکٹر ٹرالی کی
بھی کوئی عزت ہوتی ہے۔عمران خان ڈیزل ڈیزل
کررہے تھےانہیں ٹریکٹرٹرالی مل
گئی۔مولانا ڈیزل کہنا ثواب ہے اور ٹریکٹر
ٹرالی کہنا گناہ۔ ٹرالی کی ابتدا شیخ رشید نے کی تھی اور انتہا خواجہ
آصف نے۔مجھےشیریں مزاری کو دیکھ کرٹریکٹر ٹرالی کی یاد آئےگی۔لیکن طلال چوہدری کہتے ہیں کہ ملک میں زراعت نے بہت ترقی کی ۔اسی وجہ سے خواجہ آصف نے انہیں ٹریکٹرٹرالی کہا۔یہ بات
سچ ہےتوملک میں حقیقی ترقی سیالکوٹ کی فٹ بال انڈسٹری نے کی۔طلال چوہدری کےفارمولہ درست ہےتوخواجہ
آصف نےشیریں مزاری کو فٹ بال کہنے کا
چانس مس کیا۔
خواجہ آصف سیالکوٹی ہیں۔ان کےجملے کو جگت نہیں کہا جا سکتا کیونکہ جُگتیں تو فیصل
آباد ی مارتے ہیں اورعابد شیرعلی فیصل
آباد ی ہیں۔ سیاست کے حقیقی امانت چن ۔
وہ کہتے ہیں کہ’’ٹریکٹر ٹرالی کسانوں کا نشان ہے
اور کسان خوش ہیں کیونکہ ٹریکٹر بھی ان کاہے اور ٹرالی بھی‘‘ ۔ خواجہ آصف این اے 110سیالکوٹ سے ایم این اے ہیں۔این اے
110 ان 4حلقوں میں شامل ہے۔جن کےتھیلے کھولنے کا مطالبہ عمران خان نے کیا تھا اور قوم جانتی تھی تھیلوں سےجوبلی باہر
نکلی اس نے کئی چوہے بھگابھگا کے مارے۔این اے 110 کے 227 میں 26 پولنگ
سٹیشن کا ریکارڈ آج تک نہیں ملا۔خواجہ آصف کی جیت21 ہزار ووٹوں سے ہے اور 30 ہزار ووٹ
گُم ہیں۔یہ چیلنج پی ٹی آئی کے امیدوار عثمان ڈارکا ہے۔
ٹریکٹر ٹرالی پر پی ٹی آئی کا ردعمل خاصا جارہانہ تھا۔شفقت محمود بولے خواجہ
آصف میں 50 سالہ کمزوری ہے اورایسے الفاظ سے ان کی شخصیت میں کمی آتی ہے۔نعیم الحق نے کہا خواجہ آصف کو صبح شام جوتے
لگنے چاہیں۔شیریں مزاری نے تو ٹریکٹر ٹرالی کہنے پرخواجہ آصف کو لیگل نوٹس بھجوا دیاہے۔جس میں کہا ہے
کہ خواجہ آصف نےمعافی نہ مانگی تو دس
کروڑ ہرجانہ ادا کرنا ہوگا۔لیکن شاہ محمودقریشی
خاصےدوراندیش ہیں وہ کہتے ہیں کہ خواجہ آصف دباؤ کا شکار ہیں کیونکہ این اے110
کا فیصلہ آنے والا ہے۔ان کامعافی نامہ دودھ میں مینگنیاں ڈالنے کےمترادف
ہے ۔ مجھے خدشہ ہےکہ شیریں مزاری عدالتی
جنگ جیت گئی توخواجہ آصف کو دودھ کے بغیردس کروڑ مینگنیاں دینی پڑیں گی۔آخر کردار کی بھی قیمت ہوتی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں