منگل، 27 اکتوبر، 2015

لائل پور کا امام دین گجراتی

غیر پارلیمانی الفاظ خالصتا پارلیمانی اصطلاح  ہے لیکن یہ اصطلاح ایسی گفتگو سے منسوب ہے۔جسے سن کر سامعین کھسیانے ہو جائیں اور پڑھ کر کوک شاستر کا گمان ہو۔پارلیمان ویسے تو عوام کے منتخب نمائندوں کا ایسا ہاوس ہوتا ہے جہاں وہ جمع ہوکر ایسی باتیں کرتے ہیں جوکھلے عام جلسوں، جلوسوں اورٹاک شوز میں نہیں کی جاتیں۔یا نہیں کی جا سکتیں۔ایسی باتیں جن کے سننے والے ویسے ہی ہوتے ہیں جیسےکرنے والے۔۔پارلیمان چونکہ مقدس ادارے ہے اس لئے وہاں پر غیر پارلیمانی باتوں کی گنجائش نہیں۔۔اگر ہوجائیں کارروائی سے حذف کر دی جاتی ہیں۔۔۔لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ گفتاروں کے خلاف ضابطے کی کوئی کارروائی بھی ہو۔۔
البتہ غیر پارلیمانی الفاظ کا استعمال اگر تھرڈ ڈگری تک جا پہنچے تو ان کے خالق کو بھرے ایوان میں مجبور کرکے اپنے الفاظ واپس لینے کا تکلف ضرور کیا جاتا ہے۔۔الفاظ واپس لینے کا تکلف بھی خاصا پُر تکلف ہوتا ہے یعنی اگر کسی ممبر نے کہہ دیا کہ’’فلاں آدمی گدھا ہے‘‘ اور یہ الفاظ واپس لینے ہوں تو وہ کہے گا ’’فلاں آدمی گدھا نہیں ہے‘‘
ہم چونکہ غیر پارلیمانی لوگ ہیں اس لئے جو کہہ دیا سو کہہ دیا۔ہمارا نظریہ فکر پنجابی شاعر سلیم کاشر کے شعر سے ملتا جلتا ہے 
؎ جو بول زبانوں نکل گیا
او تیر زبانوں نکل گیا۔
قابل اعتراض دو لفظی اتحاد ہے یہ اتحاد ٹوٹا ہو تو ان کی حیثت بے معنی ہوتی ہے اور اکھٹے ہوں تو بامعنی بلکہ ذو معنی بن جاتے ہیں۔مجھے قابل پر اعتراض ہے اور نہ اعتراض اس قابل ہے۔البتہ یہ دو حرفی غیر فطری اتحاد۔ ہم نے ہمیشہ جنسی زیادتی کی خبروں میں ہی پڑھا ہے۔۔ ایسی خبریں جن میں جنس کو جمالیات کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔۔
غیر پارلیمانی گفتگو کے لئے اسمبلی کا ہونا ضروری نہیں یہ بیک وقت اندر اور باہر ہر جگہ پر جاری رہتی ہے۔۔
ایسی باتیں کرنے والے عام طورپر گفتار کے غازی ہوتے ہیں اور کردار کے قابل اعتراض۔۔!
ایام جوانی کی بات ہے جب’’مرد مومن‘‘ ضیا الحق کے دور میں وی سی آر کرائے پر ملتے تھے تب وی سی آر چھپانے کے لئے ہم گھر سے مرحوم یاسر عرفات کے سر پر باندھنے والا رومال ساتھ لے کر جاتے تھے اور فلم شلوار کے ناڑے میں اڑوس کر۔۔
تب محلے کے کھلنڈرے مُنڈے بالے سر شام گراونڈ میں اپنی پارلیمان لگا لیتے اور ویسی ہی باتیں کرتے تھے جیسی حقیقی پارلیمان کے اندر سیاستدان ایک دوسرے سے کرتے ہیں۔۔ہماری پارلیمان کا ایجنڈا امام دین گجراتی کے شعر ہوتے تھے۔بحث ہمیشہ سرگوشیوں میں ہوتی۔ان شعروں کی تشریح مجھے کبھی سمجھ نہیؓں آئی۔۔لیکن شعر سن کر کان قندھاری انار کی پک جاتے۔اوور لوڈ ٹرانسفارمر کی طرح دماغ کی بتی بار بار ٹن ٹن کرتی۔ساری گفتگو غیر پارلیمانی ہوتی تھی۔ہاتھ پاؤں سن ہوجاتے۔۔بحث کے دوران قہقہ آتا تو کھسیانی ہنسی ہنستے۔واہ واہ کرنے کے بجائے شعر پر داد آہ۔ آہ کرکے دیتے تھے۔ خوف صرف یہ ہوتا تھا کہ کوئی سن نہ لے۔۔لیکن آج میرے پاس امام دین کا ایک پارلیمانی شعر ہے
تیری ماں نے پکائے مٹر مام دینا۔۔۔۔۔۔۔تُو کوٹھے تے چڑھ کے اَکڑ مام دینا
حسینوں کی زلفیں کہاں تیری قسمت۔۔۔تُو کھوتی کی پُوچھل پکڑ مام دینا
فیصل آباد کے بہت سے سیاستدان غیر پارلیمانی گفتگو میں مہارت رکھتے ہیں بلکہ ایم این اے طلال چوہدری تو غیر پارلیمانی اشارے کرتے بھی پائے گئے ہیں۔عمران خان کے آزادی مارچ کے دوران گھنٹہ گھر چوک میں جو کچھ طلال چوہدری نے کیا۔ سوشل میڈیا اس کا گواہ ہے۔
امام دین گجراتی کے شعر۔۔ طلال چوہدری کے اشارے۔۔ایم این اے میاں عبدالمنان کی تقریریں اور سابق ایم این اے چوہدری شیر علی کی باتیں۔۔ سب کچھ پارلیمانی، پارلیمانی سا ہے لیکن ہم اپنے اپنے مطلب نکالتے ہیں۔۔
ایک خوبصورت آفس سیکرٹری کو باس نے کمرے میں بلایا۔تھوڑی دیر بعد سیکرٹری فائلیں اٹھائے بُڑبڑاتے غصے میں باہر آئی
سٹاف: کیا ہوا ؟
سیکرٹری: باس نے پوچھا آج رات کو آپ فارغ ہیں۔؟ میں نے خوش ہو کر ہاں۔۔۔
سٹاف: پھر؟
سیکرٹری: بُڈھے کھوسٹ نے مجھے 90 پیج ٹائپنگ کے لئے دے دئیے۔
سیکرٹری نے باس کی بات سن کر اپنا ذہن بنایا تھا اسی طرح چوہدری شیر علی کی ساری باتیں پارلیمانی ہوتی ہیں لیکن کارکن اپنے مطلب نکالتے ہیں۔گذرے دنوں نے انہوں نے ایک پریس کانفرنس کرکے وزیر اعلی پنجاب شہبازشریف کی کارکردگی کو گرہن لگا دیا تھا۔ان کی ترقیاتی پالیسیوں پر تنقیدکے ایسےنشتر چلائے گویا میٹرو بس راولپنڈی کے پل سے بڑا پتھر ٹوٹ کر  راہگیر پر آ گرا ہو۔شیرعلی نے لاہورمیں وزیر اعظم کے سسرالی رشتہ دار کی ہار کا ذمہ دار بھی وزیر اعلی کو ٹھہرایا۔این اے 122 سے سابق سپیکر ایاز صادق کی کم ووٹوں سے جیت پر بھی وزیراعلی پنجاب ہی ٹارگٹ رہے۔صوبائی وزیرقانون رانا ثنااللہ کو وزیرلاقانون اور وزیرقانون شکن کےالقابات دئیے گئے20 افرادکےقاتل کا ’’خطاب‘‘ پھر دھرایا۔شیر علی کی  اپنی جماعت پر ہی چڑھائی۔تحریک انصاف کے آزادی مارچ جیسی تھی۔ انہوں نے جنگ کے دوران اپنے کمانڈر پر ہی گولی چلا دی تھی۔ یہ فائرنگ ایسے وقت پر ہوئی جب بلدیاتی الیکشن کا طُوطی بول رہا تھا۔سرکار نے پہلے مرحلے کے بلدیاتی الیکشن میں پنجاب کے ان بارہ اضلاع کا انتخاب کیا تھا جہاں ن لیگ کی سیاسی پوزیشن مضبوط تھی لیکن چوہدری شیر علی نے ایسی منجنیق چلائی تھی جس کے بعد دیواروں میں مگورے بن گئے تھے۔’’پس دیوار زنداں‘‘ باتوں کے یہ نشتر خاصے زور پکڑ رہے تھے۔فیصل آبادئیے چوہدری شیر علی کو بابائے بلدیات سمجھتے ہیں ۔ان کی باتیں شہر میں غیر پارلیمانی ’’ضرب المثل‘‘ کی حیثیت رکھتی ہیں۔انہیں لائل پور کا امام دین گجراتی سمجھا جاتا ہے۔ان کے الزامات سے پنجاب اور وفاق دونوں ایوانوں کے دروازوں پر خطرے کا سائرن  بج چکا تھا۔رانا ثنا اللہ کہہ چکے تھے کہ چوہدری شیر علی کی ذہنی صحت ٹھیک نہیں ہے۔ہم ایسے لوگوں کو سادگی سے پاگل کہتے ہیں۔امام دین گجراتی کے شعروں کی طرح اس سیاست کی سمجھ تحریک انصاف کو نہیں آر ہی۔ وہ باتیں سن سن کر کھسیانے ہو رہے ہیں۔
آپس کی بات ہے پریس کانفرنس کے الزامات سن کر مجھے تو خود رانا ثنا اللہ سچے لگ رہے تھے۔ وزیر اعظم نے پاگل پن کا علاج کرنے کے لئے کیپٹن صفدر کو فیصل آباد بھیجا۔میاں نواز شریف کا داماد۔۔چوہدری شریف کے داماد کو منانے یہاں آیا یہ جمائی بھائیوں کی ملاقات تھی لیکن صفر جمع صفر برابر صفر کے مصداق نتیجہ زیرو تھا۔وزیر اعظم امریکہ میں تھے کیپٹن صفدر نے ان سے موبائل پر بات بھی کروائی لیکن شیر۔ شیر ہوتا ہے۔اچانک گھر کے شیر لاہور میں ڈھیر ہو گئے۔ چوہدری شیر علی نے میاں شہباز شریف سے ملاقات کر لی۔یہ ملاقات ایک بہانہ ہے۔برف چاہے پگھلنے لگی ہے لیکن حالات آج بھی گرم ہیں۔زبان زد عام ہے کہ میاں برادران نے آگ اور پانی کا یکجا کر دیا ہے لیکن یہ بات پلے نہیں پڑ رہی کہ صلح کے بعد ان امیدواروں کا کیا بنے گا جنہیں وہ ایک دوسرے کے مقابلے میں میدان میں اتار چکے ہیں۔صلح ہو گئی تو چئیرمین اور وائس چئیرمین کے امیدوار کیا ٹشو پیپر بن جائیں گے گھوڑوں کی لڑائی میں گھاس کا نقصان ہو رہا ہے۔مجھے تو لگتا ہے کہ شیر علی اور رانا ثنا اللہ کی صلح شہر میں ن لیگ سیاسی موت ہے۔یہ’’قابل اعتراض خبر‘‘ہو سکتی ہے۔ایسی صلح جس کا ایجنڈا امام دین گجراتی کے شعروں جیسا ہے۔پھر گراونڈ میں بیٹھے کھلنڈرے مُنڈوں کی طرح طلال چوہدری کے غیر پارلیمانی اشارے مزید زور پکڑ جائیں گے۔میاں عبدالمنان کی تقریروں میں زہر افشانی ختم ہو جائے گی۔ایم پی اے میاں طاہر جمیل کی سیاست کا محورختم جائے گا۔موجودہ حالات میں دونوں رہنما میاں نواز شریف کی گھاٹ سے ہی پانی پیتے ہیں۔ دونوں کا نقطہ انتہا بھی ایک ہی ہے۔دونوں میاں نواز شریف کے نعرے مارتے ہیں۔پھرقیادت انہیں اکھٹا کیوں کرےگی۔؟البتہ کوئی 31 اکتوبر تک زبان بندی کی بات کرے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔سچ کہوں تو لگتا ہے کہ وزیراعظم نے دونوں رہنماووں کو نوے، نوے صفحات ٹاپنگ کرنے کے لئے دے رکھے ہیں۔
تُو کوٹھے تے چڑھ کے اَکڑ مام دینا۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں