جمعہ، 14 ستمبر، 2018

’’نکر یا ڈائپر‘‘

یہ زریں قول کسی جہاں دیدہ، داناوبینا کے بجائے ۔کسی تجربہ ساز کا لگتا ہے کہ اگر بچے کوناک میں انگلیاں مارنےکی عادت ہوتو اسے ڈھیلے الاسٹک والی نکر پہنائیں۔ یوں۔نہ رہےگا ہاتھ نہ بجے گی ’’بانسری‘‘۔ الاسٹک ربڑ سے بنا ہوا ایک لچک دار فیتہ ہوتا ہے۔جو ’’ٹیٹھ ہڈی‘‘ بچے کی طرح وہیں آکررکتا ہے۔جہاں سے ہٹایاجاتا ہے۔جبکہ نِکر ایک ڈھیلا ڈھالا پہناوا ہے۔یہ پہناوا جتنا لمبا ہوتا جائے اتنا ہی مردانہ دکھائی دیتا ہےاور جتنا چھوٹا ہوتا جائے۔ اتناہی زنانہ۔نکرکی لمبائی اورچھوٹائی کا سلسلہ اکثر جاری رہتا ہے اورکئی بارتونکرسےشروع ہونے والا سلسلہ ’’نہ کر‘‘پر پہنچ کرختم ہوتا ہے‘‘۔ انسان برہنہ پیدا ہوتا ہے اورجب تک وہ خودپہننےکے قابل نہیں ہوجاتا۔اسےسب سےزیادہ نکرپہنائی جاتی ہے۔بلکہ سب سے زیادہ اتاری بھی نکر ہی جاتی ہے۔