میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں ۔
یہ
شعر جانےکس کا ہے لیکن ملکی سیاست کی حقیقی تشریح ہے۔حرام کی کمائی کا مقدرپہلے نالی پھرگٹر ہوتا ہے۔سیاست کا’’طوائف‘‘سے دامنی تعلق ہے۔طوائف چولی ہے ۔کیونکہ
طوائف جب رقاصہ تھی تب سیاست درباروں میں تھی۔1857کےبعد’’حضوروالا‘‘درباروں سےایوانوں
میں توآگئے لیکن اقبا ل اُن کا بلند ہی
رہا۔زنجیر عدل کا شوشہ ٹوٹا تورعایا اورفریادی مزیدکھجل ہوئے لیکن طوائف۔نادھن۔دھنا پرتھرکتی
ہوئی حضور والاکے پیچھے ہی رہی۔طوائفوں
کو ایوانوں میں جگہ نہ ملی تومنڈیاں آبادہو
گئیں۔حضوروالا آج بھی چم کی چلا رہے ہیں۔وہ
مالک بننےکےلئے نوکرکا پارٹ پلےکر
رہے ہیں۔ایسے نوکر۔جنہیں اپنا شجرہ نسب بنانے کی مہلت بھی نہیں۔انہیں پتہ ہے یہ کام
سیاسی مخالفین کا ہے۔یہاں جھوٹ کا ڈھنڈورا۔اتنا پیٹا جاتاہےکہ سچ لگے۔جھوٹےہرچارپانچ سال بعدہمیں ملتے ہیں۔ہم
ان کا مان سمان کرکےسچا مان لیتے ہیں۔