منگل، 22 مارچ، 2016

اللہ کے بندے۔

میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں ۔
یہ شعر جانےکس کا ہے لیکن ملکی سیاست کی حقیقی تشریح ہے۔حرام کی کمائی  کا مقدرپہلے نالی پھرگٹر ہوتا ہے۔سیاست  کا’’طوائف‘‘سے دامنی تعلق ہے۔طوائف چولی ہے ۔کیونکہ طوائف جب رقاصہ  تھی تب سیاست  درباروں میں تھی۔1857کےبعد’’حضوروالا‘‘درباروں سےایوانوں میں توآگئے لیکن اقبا ل  اُن کا بلند ہی رہا۔زنجیر عدل کا شوشہ ٹوٹا تورعایا اورفریادی  مزیدکھجل  ہوئے لیکن طوائف۔نادھن۔دھنا پرتھرکتی ہوئی   حضور والاکے پیچھے ہی رہی۔طوائفوں کو ایوانوں میں جگہ نہ ملی تومنڈیاں آبادہو گئیں۔حضوروالا آج بھی  چم کی چلا رہے ہیں۔وہ مالک بننےکےلئے نوکرکا پارٹ پلےکر رہے ہیں۔ایسے نوکر۔جنہیں اپنا شجرہ  نسب   بنانے کی مہلت بھی نہیں۔انہیں پتہ ہے یہ کام سیاسی مخالفین کا ہے۔یہاں جھوٹ کا ڈھنڈورا۔اتنا  پیٹا جاتاہےکہ سچ  لگے۔جھوٹےہرچارپانچ سال بعدہمیں ملتے ہیں۔ہم ان کا مان سمان کرکےسچا  مان لیتے ہیں۔

ہفتہ، 12 مارچ، 2016

بھاڑمیں جائیں۔۔بلدیاتی نمائندے۔

پچھلے دنوں سوشل میڈیا پرایک لطیفہ کئی بارزیرنگا ہ رہا ۔ بظاہرتویہلطیفہ کسی دل جلے کی حالات حاضرہ پر جلی کُٹی جیسا ہے۔کیونکہ طعنےمارنا، جملےکسنا اور انگلی اٹھانا بہت ہی آسان ہے۔ پہلے لطیفہ ۔اردوپڑھاتے ہوئے استادشاگردوں سے: میں رو رہا ہوں۔تم رو رہے ہو۔ہم رو رہے ہیں۔؟گرائمر کی رو سے  بتائیں یہ کونسا زمانہ ہے۔ ؟
بچہ : جناب ! یہ  ن لیگ کا زمانہ ہے
واقعی آج کل  ن لیگ کا زمانہ ہے۔وفاق میں  تیسرا زمانہ  جبکہ پنجاب میں تو ن  لیگی زمانہ ٹھہر ہی گیا ہے۔ استاد جی نے  گرائمر  کا سوال  توایک بار ہی  پوچھا تھا لیکن  لاہو رچھوڑ کر سارے پنجابیوں  کا جواب وہی ہے جو شاگردوں کا تھا۔میں رو رہا ہوں۔تم رو رہے ہو۔ہم رو رہے ہیں۔؟

پیر، 7 مارچ، 2016

زن مرید اسمبلی۔۔ !

مریدنےدفتر سے اپنی دلہن کو فون کیا :سنو امی آ رہی ہیں۔ کچھ بنا لینا۔ دلہن نے منہ بنا لیا۔مریددفترسےگھرپہنچا توامی کا منہ بھی بنا ہوا تھا۔ہوٹل سےکھانا منگوایا۔ماں کورسوئی میں اور دلہن  کوبیڈروم میں  پیش کیا۔رات بھرامی سےباتیں کیں ۔تازہ صبح بیدارتوہوئی لیکن دلہن کا منہ رات سےباسی  تھا۔مریداپناسامنہ لےکردفترچلا گیا۔پنجاب حکومت کانصابی نعرہ ’’مار نہیں پیار‘‘مرید نے اپنے گھرپرلاگو  کررکھا تھا کیونکہ گھرانسان کی پہلی درس گاہ ہوتا ہے۔