پچھلے دنوں سوشل میڈیا پرایک لطیفہ کئی بارزیرنگا ہ رہا ۔ بظاہرتویہلطیفہ
کسی دل جلے کی حالات حاضرہ پر جلی کُٹی
جیسا ہے۔کیونکہ طعنےمارنا، جملےکسنا اور انگلی اٹھانا بہت ہی آسان ہے۔ پہلے لطیفہ ۔اردوپڑھاتے ہوئے استادشاگردوں سے: میں
رو رہا ہوں۔تم رو رہے ہو۔ہم رو رہے ہیں۔؟گرائمر کی رو سے بتائیں یہ کونسا زمانہ ہے۔ ؟
بچہ : جناب ! یہ ن لیگ کا زمانہ ہے
واقعی آج کل ن لیگ
کا زمانہ ہے۔وفاق میں تیسرا زمانہ جبکہ پنجاب میں تو ن لیگی زمانہ ٹھہر ہی گیا ہے۔ استاد جی نے گرائمر کا سوال توایک بار ہی پوچھا تھا لیکن
لاہو رچھوڑ کر سارے پنجابیوں کا
جواب وہی ہے جو شاگردوں کا تھا۔میں
رو رہا ہوں۔تم رو رہے ہو۔ہم رو رہے ہیں۔؟
جبکہ جنوبی پنجاب میں توگردان کچھ ایسی چل
رہی ہے۔’’میر ےابو رورہے تھے۔ ہم رو رہے
ہیں اورمیرے بچے روئیں گے‘‘ ۔ کلاس میں گرائمر کی اچھوتی تشریح جس دل جلے نے کی تھی۔وہ بلدیاتی الیکشن جیتنے والےاُن چئیرمین یا کونسلرز جیسا تھا جن
کے اختیارات حکومت کے پاس ہیں ۔بالکل ویسے ہی جیسے پیپلزپارٹی کے چئیرمین تو بلاول
ہیں لیکن اختیارات آصف علی زرداری کے پاس ہیں۔ کہتے ہیں کہ پنجابی کی
زبان نہ چلتی ہو تو وہ گونگا ہو گا او ر ہاتھ نہ چلتے ہوں
تو بیمار۔ پنجاب میں جیتنے والے بلدیاتی نمائندے چار ماہ سے بیمار ہیں۔عوامی خدمت وہ اس
لئے نہیں کر رہے کیونکہ خادم اعلی نے یہ ذمہ داری لے رکھی ہے۔تعمیرات کے لئے ایک ٹکا بھی ملنے کی امیدنہیں کیونکہ
اورنج ٹرین چلے گی توبلدیات کی دال گلے گی۔حتی کہ گلیوں میں خاکروب بھی ان کی بات سننے کو تیار نہیں۔
چوتھی شادی کی خواہش لئےایک رنڈوے نے میرج بیورو فون کیا۔انہوں نے پوچھا
آپ کی تین بیویاں کیسےفوت ہوئیں۔؟
رنڈوا:پہلی نے زہر کھا لیااور دوسری بھی زہرکھا کرمر گئی۔
میرج بیورو:اورتیسری۔؟
رنڈوا:اس کو میں نے ماردیا کیونکہ وہ
زہرنہیں کھاتی تھی۔
پنجاب کے حکمرانوں نے تین بار بلدیاتی نمائندوں کو زہر کھلایا ہے لیکن وہ زندہ ہیں۔2013 میں ن لیگ الیکشن جیتی تو بلدیات کا شور مچ گیا ۔ الیکشن شیڈول جاری ہوا۔ کا غذات نامزدگی جمع ہوئے لیکن الیکشن
نہ ہوئے۔امیدواروں کو بننا تو’’ ماموں‘‘ چاہیے تھا لیکن الو بن گئے۔ دوبارہ شیڈول آیا ۔ دوبارہ کاغذات جمع ہوئےاور
اس بارامیدواربڑا اُلو ( چغد) بن گئے ۔الیکشن پھر ملتوی۔فیسوں کی مد میں کروڑوں
روپے خزانے میں چلے گئے ۔ سرکاری خزانہ
بھی ایسا کشکول ہے جس میں سے چیزیں کبھی
باہر نہیں نکلتیں۔تیسری بارالیکشن سے پہلےنئی حلقہ بندیوں کا شیڈول آگیا ۔ حلقہ بندیاں ہوئیں
تویونین کونسلز کا جغرافیہ ٹو ٹ گیا۔ امیدواروں کے پینل ٹوٹ گئے اور فیسیں واپس ملنے کی امیدبھی ٹوٹ گئی۔ناامیدی کی امید پر اکتوبر سےدسمبر 2015 تک حکومت نے تین مرحلوں میں الیکشن
کروا دئیے۔ جیتنے والے آج لیگی حکومت میں ’’بلاول ‘‘ بنے بیٹھے ہیں اورہارنے
والے ’’جیالے‘‘۔پنجاب میں مخصوص سیٹوں پرالیکشن کا شیڈول جاری کرکےچوتھی بار فیس
وصول کرلی گئی ہے۔امیدواروں نے پھر شوق سے
زہر مارکیا۔ اچانک آرڈیننس میں ترمیم کرکےالیکشن کے بجائے متناسب نمائندگی کا طریقہ اختیار کر لیا گیا
ہے۔امیدوارپھرسےشاگردکے جواب کی تعبیر بن گئے۔
آئیٹم سانگ فلم
انڈسٹری کا ایسا لازمی جزو ہیں ۔یہ گانے گلیمرمیں لتھڑے ہوتے ہیں۔فلم کو تڑکا لگاتے ہیں
۔ان گانوں میں ہیروئن کے بجائے بھڑکتی ۔تڑپتی
خوبروآئیٹم گرل کوسٹیج پرچھوڑدیا جاتا
ہے۔گانے کے بول تیکھے ہوتے ہیں اورماڈل۔مرچی۔جوبے ہنگم گانے پراتنا تھرکتی ہے
کہ دیکھنے والےکا انگ انگ خود۔کوریوگرافی کرنے لگتا ہے۔سینماٹوگرافی میں ایسے ایسے
پوز دکھائے جاتے ہیں جو آواروں کو مزید آوارگی پرقائل کرتے ہیں۔لڑکی کو آئیٹم کہنے
سےقبل میں نےصرف بم کےساتھ آئیٹم سنا تھا۔اب تو لوگ ماڈل کو
ہی آئیٹم بم کہنے لگے ہیں۔
پنجاب میں ن لیگ کی حکومت پوری فلم ہے۔جس
میں صوبائی وزیرقانون وبلدیات رانا ثنا اللہ آئیٹم ہیرو ہیں۔بلدیاتی فلم
انہوں نے ہی ریلیز کی ہے۔ رائٹر ، ڈائریکٹراور پروڈیوسربھی وہی ہیں۔اپوزیشن کے لئے
بھڑکتے۔ تڑپتے ڈائیلاگ بھی وہی بولتے ہیں۔فلم کی نمائش پورےسرکٹ میں کامیابی سےجاری رہی۔
آئیٹم سانگ نہ ہونے کی وجہ سےبلدیاتی نمائندے رو۔ رہے ہیں۔۔اوررانا ثنا اللہ ’’ بلدیات ٹو‘‘کی
ریلیز میں مصروف ہیں۔کھڑکی
توڑ کامیابی کےلئےمخصوص سیٹوں پر چناو اور بلدیاتی سربراہان کےانتخاب جیسی خامیوں
دورکرنا پڑیں گی۔ وگرنہ شو فلاپ رہے گا۔ پارٹ ون سے تو یہ پیغام ملا ہے کہ بلدیاتی نمائندے بھاڑ میں جائیں۔
ہم پنجابی ایسے جنگل کے باسی جہاں شیرحاکم ہیں اورشیروں نے
ہمیں الو بنا رکھا ہے۔ہم نے بلدیات میں ووٹ ڈال کر اپنے اندر سے کچھ بوم (چھوٹے
اُلو) منتخب کر لئے ہیں اور کچھ چغد(بڑے اُلو)۔نومنتخب اُلوشیروں کے لئے۔ دن رات
۔تُو ہی تُو کا راگ الاپتے ہیں۔شفیق الرحمن لکھتے ہیں کہ ’’اُلو اپنازیادہ وقت ۔ زیادہ اُلو بننے میں صرف کرتا ہے ۔ اُلو
کا محبوب مشغلہ رات بھر بھیانک آوازیں نکال کر پبلک کو ڈرانا ہے۔۔ وہ جانتا ہے کہ
پبلک کیا چاہتی ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اُلو ۔تُو۔ ہی۔ تُو کا وظیفہ پڑھتا ہے۔
اگر یہ سچ ہے تو وہ ان خود پسندوں سے ہزار
درجہ بہتر ہے جو ہر وقت میں ہی میں کا ورد کرتے رہتے ہیں۔‘‘ مزید حماقتیں سے
اقتباس۔
انسان خطا کا پتلا
ہے اوراپنی خطا دوسرے پر تھوپنا سیاست ہے ہم سارے خطاکار ہیں اوریوں ہم سیاست
دان بھی ہیں۔۔جبکہ امریکی کہاوت ہے کہ’’
میں سیاسی لطیفوں پر یقین نہیں رکھتا کیونکہ کئی لطیفے الیکشن جیت بھی جاتے ہیں‘‘۔ مجھے
تو یہ کہاوت پاکستانی لگتی ہےکیونکہ سیاسی
لطیفے پاکستان میں بھی جیت جاتے ہیں۔یہاں برےنمائندوں کوایسے ووٹرمنتخب کرتے ہیں جو ووٹ
نہیں ڈالتے ۔ پاکستانی الیکشن ناپسندیدہ
امیدواروں میں سے سب سے کم ناپسند
آدمی کے انتخاب کا نام ہے ۔ بلدیاتی ادارے
جمہوریت کی ایسی نرسریاں ہیں جہاں سے سیاسی جماعتیں مستقبل کے لیڈرز توڑتی
ہیں۔پاکستانی نرسریاں کئی سال سے بندپڑی ہیں۔شائد چئیرمین اورکونسلرزاس سال بھی گرائمرہی
پڑھتے رہ جائیں۔ ممکن ہے بلدیات پارٹ ٹو اسی سال ریلیز ہوجائے۔؟ لیکن قسمت کی
پڑیا اورنج ٹرین کی ریلیز سےمشروط ہے۔
آپ کی شادی اسی سال متوقع ہے۔نجومی نے لڑکی سے کہا۔’’ہاں
میرے لئے ماموں زاد کا رشتہ بھی ہے اورچچا
زاد کا بھی ۔ جانے کون خوش قسمت ہوگا۔؟
نجومی :آپ کی شادی چچا زادسے ہوگی اور ماموں زاد خوش قسمت
ہوگا۔
سر گورنمنٹ آف پنجاب کے بلدیاتی نظام کی بحالی میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے حوالہ سے پنجابی کی کہاوت ہے کہ "دودھ بھی دینا ہے لیکن مینگنیاں ڈال کر" ۔۔۔۔ باقی صوبائی اسمبلی کے ممبران کو ترقیاتی فنڈز دینے کا اعلان بھی ثابت کرتا ہے کہ بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات سونپنے سے قبل ایم پی ایز کی عوامی خزانے کی گنگا میں آخری اور بھر پور ڈبکیاں لگوائی جا رہی ہیں۔۔۔۔۔ محمد امین۔
جواب دیںحذف کریں