ہفتہ، 17 ستمبر، 2016

شیطان سے مک مکا ہو چکا ہے۔؟

اظہار عشق کے کئی طریقے ہیں ۔لیکن میرا ۔وسوسہ ہے کہ عشق مجازی ۔کا اظہار۔جانوروں کی جبلت، خصلت  اورعادات کی تشبیہ سے بڑھ کرکسی طریقے سےنہیں ہو سکتا۔وسوسہ ایسےخیالات اورشکوک وشبہات کا نام ہے جو شیطان دل میں ڈالتا ہے۔ممکن ہے عشق مجازی کی بنیاد کسی شیطانی خیال پرہی رکھی گئی  ہو۔کیونکہ عشق۔دل میں مروڑکی طرح اٹھتا ہے۔اور۔رقیب ۔وسوسہ کی زندہ مثال ہے۔۔بلکہ رقیب تو ایسا سرکشگھوڑا ہے جومنزل مراد پر پہنچنےسےپہلے ہی عاشق کو تھکا مارتاہے۔فریب ِنظرتواسےکہا نہیں جاسکتا۔وسوسہ ہیہوگا۔کہ محبوبہ ہمیں مورنی لگتی ہے۔
اس کی چال ہرنی اورآنکھیں غزال۔۔بولی۔ کوئل سی اور۔ زلفیں ناگن لگتی ہیں۔ ہم نے گھوڑے سمیت کئی جانوروں کے خصائل کو عشقمیں مستعار لیا ۔حتی کہ وفا بھی کُتے سے منسوب کر دی ہے۔میرا دوست شیخ مرید تو کہتا ہے کہ ابتدائے عشق میں  حسن جاناں کے جتنے بھی  وسوسے۔اٹھتے ہیں۔غروب عشق میں وہ سارے بُت بن کرسامنے کھڑے ہوتے ہیں۔اسی لئے عشق جب غروب ہوتا ہے تو محبوب ہمیں  اُلو۔اس کی عقل گدھے جیسی۔جسامت ہتھنی جیسی۔اور۔آنسو مگر مچھ جیسے دکھائی دیتے ہیں۔عشق کے یہ سارے تغیر۔۔سماجی، ازدواجی اور انفرادی۔وسوسے کی بنیاد پرجانِ جاں کو اچانک مور سے اُلواور ہرن سے گدھے میں بدل دیتے ہیں۔جنسِ مخالف کی قصیدہ گوئی کے علاوہ بھی خانگی حیوانات نے امورِزندگی میں اپناحصہ برقرار رکھا ہے۔

ایک گدھےنے دوسرےکو بتایا کہ میرا مالک مجھے بہت مارتا ہے۔
دوسرا گدھا:تم بھاگ کیوں نہیں جاتے۔ ؟
پہلا گدھا:مالک کی ایک بیٹی مور جیسی خوبصورت ہے۔وہ  جب بھی شرارت کرتی ہے۔تو مالک کہتا ہے تیری شادی کسی گدھے سے کروا ۔دوں گا۔ بس اسی امید پر ٹِکاہوا ہوں۔
گدھےنے بلاوجہ دولہا بننے کاوسوسہ پیداکر لیا تھا ۔کیونکہ  یہاں صرف دولہےکوگدھابننے کا حق حاصل ہے اور جملہ حق محفوظ بھی ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ ہمارے بڑوں نے درجنوں باربچپن میں  ہمیں  گدھا کہا ۔ جس کا بدلہ  ہم آج بھی اپنے بچوں سے لے رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ تمام گدھے ایک ہی  رنگ اور نسل کے ہوتے ہیں اس لئے تمام شوہر ایک جیسے لگتے ہیں۔گدھے کے علاوہ  بھینس،گھوڑا،گائے،  کُتا،بکری اور بھیڑبھی صدیوں سے ہمارے پیچھے دم ہلا رہے ہیں۔حتی کہ جانور خراماں، خراماں غیرعشقیہ بول چال کا حصہ بھی بن گئے ہیں۔اونٹ کے منہ میں زیرہ۔بھیڑ چال۔سانپ سونگھ  جانا۔ بندر بانٹ۔ آ بیل مجھے مار۔ اپنا الو سیدھا کرنا۔کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔دو مُلاؤں میں مُرغی حرام۔عقل بڑی کہ بھینس۔ اورہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں ۔۔جیسے محاورے  ہمارے ادب کا حصہ ہیں ۔جبکہ غیر ادبی گفتگو کے لئے ہم نے ۔اللہ میاں  کی گائے۔ کولہو کا بیل۔ بھاڑے کا ٹٹو ۔ دھوبی کا کُتا۔  گدھے کو  باپ بنا نا۔ برساتی مینڈک ۔ بھیگی بلی۔آستین کاسانپ۔ مگر مچھ کے آنسو۔مینڈکی کو  زکام۔ بوڑھی گھوڑی لال لگام۔بندر کیا جانے اَدرک کا سواد۔جیسے محاوروں کا سہارا لے رکھا ہے۔حتی کہ ہم نے شرارتی بچوں کو  شیطان کہناشروع کر دیا۔
ڈاکٹر یونس بٹ کہتے ہیں کہ ’’شیطان سب سے اچھا فرشتہ تھامگر بُرا تب بنا جب وہ بول پڑا۔اسی لئے پیدا ہونے والے بچے فرشتے ہوتے ہیں کیونکہ انہیں بولنا نہیں آتا۔ اور جونہی وہ فر فر بولنے لگتے ہیں ماں باپ کہتے ہیں۔ یہ شیطان ہو گئے ہیں‘‘۔شیطانیاں سے اقتباس
مجھےیقین کامل ہےکہ شیطان کبھی انسان نہیں رہا۔لیکن میں زیادہ یقین سے نہیں کہہ سکتاکہ انسان بھی کبھی شیطان نہیں رہا۔ ہمارےگھروں میں گدھے اور شیطان ۔ایک ساتھ پرورش پاتے ہیں۔ان میں سےکچھ بڑے ہوکر شادی کرلیتے ہیں اورکچھ شادی کے بعدبھی شیطانیوں سےبازنہیں آتے۔ حتی کہ شیطان ایک  وسوسےکی بنیاد پرہمیں فردوس  سے جلا وطنی کروا چکا ہے۔دنیا میں شیطان کے بارے میں بہت سےنظرئیےموجودہیں۔انگریزی شاعرجان ملٹن اپنی نظم (Paradise lost) میں کہتے ہیں کہ’’شیطان ایک زبردست شخصیت کا مالک ہے۔ جو اتنا ہیبت ناک ہے کہ دوزخ اس کےقدموں تلے کانپتی ہے۔اس نےخدا سے شکست کھائی ہے۔لیکن ہمت نہیں ہاری‘‘ ۔مسلمان  مفکر حسین بن منصورالحلاج کہتے ہیں کہ’’ابلیس خدا کے ارادوں کی مشیت کا ایک ایسا کارندہ ہےجس کے فرائض سب سے زیادہ تلخ، ناگوار،کڑے اور نازک ہیں‘‘۔ جبکہ حضرت ِاقبال نے ابلیس کی مجلس شوری سمیت کئی نظموں میں اپنا تصور پیش کیا ہے۔عرب اخبار’’عکاظ‘‘ توشیطان کے بارے میں لکھتا ہےکہ’’45سالہ  مصری حاجیہ آمنہ نے  مِنیٰ میں دوران ِرمی ۔شیطان کے بجائے اپنے شوہر کو کنکریاں مار دیں۔اور میڈیا کو بتایا کہ  میرا شوہر ہی  شیطان  ہے۔ وہ  مجھے کئی بار  دھوکہ دے چکا ہے۔ اس لیے اُسے کنکریاں ماری ہیں‘‘۔
وسوسہ یہ ہےکہ۔ رمی کے دوران  جوکنکریاں  آمنہ نے شوہرکو ماری تھیں وہ  شیطان تک پہنچی یانہیں۔؟۔لیکن ایک وہم توختم ہواکہ شیطان  کی شکل۔آمنہ کےشوہرجیسی ہوگی۔والدین جب بھی  اپنے بچوں کوشیطان کہتے ہیں تو اکثر وسوسے پیدا ہوتے ہیں کہ شیطان  بڑے ہوکرکیسا دِکھتا  ہوگا۔جواب ہے۔’’آمنہ کے شوہر جیسا‘‘۔گدھے کے بعد زندگی کا یہ دوسرا وسوسہ ہے جس نےدل میں اٹھنے والے مروڑکا گلا دبا دیا ہےلیکن  ابھی وسوسےکے کئی امتحان اور بھی ہیں۔وسوسہ یہ بھی ہو سکتا ہےکہ  اگلے دھرنے کے بعد حکومت نہیں رہےگی۔اب مجھے  وزیراعظم بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔کے پی میں دودھ کی نہریں بہہ جائیں گی۔میرے علاوہ ساری آف شورکمپنیاں  خلاف قانون ہیں۔ شائد ۔خود پسندی۔افضل ترین وسوسہ ہو۔
ٹیچر:کلاس میں جو سب سے نالائق ہے وہ کھڑا ہو جائے ۔طویل خاموشی اور انتظار کے بعدآخرپپوکھڑا ہوگیا
ٹیچر:اوہ۔پپو۔میری جان کیا تم سب سے زیادہ بے وقوف ہو۔؟
پپو:نہیں مس مجھے بُرا لگ رہا تھا کیونکہ آپ اکیلی کھڑی ہیں۔
پپواورٹیچرمیں جو مکالمہ ہوا۔اُس نےنیا وسوسہ جنم دیا ہے۔سیاسی وسوسہ۔ایک دوسرےخلاف بیان بازی کرکےکنکریاں مارنےوالا وسوسہ۔کیونکہ موجودہ سیاست تذکیہ نفس کانہیں  بلکہ نفسانی تسکین کا راستہ دکھاتی ہے۔وفاقی وزیر اطلاعات ۔پرویز رشید کہتے ہیں کہ’’عمران خان اس لئےحج پرنہیں گئے،شائداُن کا شیطان سے مک مکاہوگيا ہو‘‘۔جبکہ جوابی کنکر پی ٹی آئی کے رہنما علیم خان نے مارا ہے وہ کہتے ہیں کہ’’پرویز رشید۔شیطانی قوتوں کےسردارہیں ۔عمران خان  اگلے سال  حج پرجائیں گے۔پرویز رشیدبھی ان کےساتھ چلے جائیں تاکہ اُن کےگناہوں کی کچھ تومعافی تلافی ہوسکے ‘‘۔ٹیچراورپپو۔والا۔واقعہ  اگرعمران خان اورپرویز رشیدسے جوڑکردوبارہ پڑھا جائےتوشائدآپ وسوسے۔سےنکل کر کسی نتیجے پر پہنچ جائیں۔میں تواُس نتیجےپرپہنچاہوں جس کا ذکرعلامہ اقبال نےاپنی نظم ’’جبریل اورابلیس‘‘کے آخری جملے  میں کیا ہے۔
؎ میں کھٹکتا ہوں ۔ دل یزداں میں کانٹے کی طرح۔

1 تبصرہ:

  1. سر آپ کی نذر صرف یہ ایک شعر۔۔۔ کیونکہ الفاظ کا جادوئی استعمال صرف آپ کا خاصا ہے۔۔شیطان کی جتنی اقسام اور تشبیہات آپ نے بلاگ میں شامل کی ہیں، آخر سینہ پھلا کر اپنے نائبوں کو بتایا تو ہو گا اس نے۔۔۔۔۔

    یوں تیری ذات کے گنبد کا یہ کرتے ہیں طواف۔۔۔۔
    لفظ ہوں زائر مشتاق، تو کعبہ ان کا۔۔۔۔۔۔۔۔
    ۔۔۔نورالامین۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں