دو گھوڑا بوسکی کریم رنگ کا
کپڑا ہے۔جس کی قمیض لٹھے کی شلوارکے ساتھ پہنی جاتی ہے۔یہ لباس عموما تہواروں
پر زعفرانی اور کیسری پگڑی کے ساتھ پہنا جاتا ہے۔لیکن میرا دوست شیخ مرید کہتا ہےکہ’’دو گھوڑا بوسکی سے قمیض کے بجائےشلوار بنانی چاہیے کیونکہ ٹانگیں بھی دو ہوتی ہیں۔
بوسکی کی شلوارپہن کرمردکی چال بھی
دُلکی(دوٹانگوں) سے سرپٹ (چار ٹانگوں والی)ہوسکتی ہے‘‘ ۔میں
تانگے کے علاوہ جب بھی گھوڑ ے کا سوچتا
ہوں تو میرے دماغ میں پہلے گھوڑا گلی آتی
ہے اوربعد میں دو گھوڑا بوسکی۔بوسکی اور
گلی کی درمیانی مسافت میں
ایوانِ صدر،ایوب خان،آصف زرداری اورسرتاج عزیز ویسے ہی نظر آتے ہیں۔ جیسے کچے بھنے قیمے میں
موٹا موٹا ادرک نظر آتا ہے۔گھوڑا گلی کوشہرت تب ملی جب کشمیر جاتے
ہوئے انگریز فوجیوں کے گھوڑے یہاں تازہ دم ہونے لگے لیکن یہ گلی بدنام تب سے ہے ۔
جب سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ’’حلال‘‘شراب
یہاں بنتی ہے ۔ انگریز کے باقیات پر آج ہمارا قبضہ
ہے۔
ایک انگریز نےمعروف صوفی ادیب خواجہ حسن
نظامی سےپوچھا ’’انگریزوں کا رنگ ایک ساہوتا ہے۔لیکن ہندوستانیوں کا رنگ الگ الگ
کیوں ہوتا ہے‘‘۔؟۔آپ بولے۔’’گھوڑوں کے
رنگ مختلف ہوتے ہیں مگرگدھوں کےایک سے ہوتے ہیں‘‘۔
انگر
یزوں نے بر صغیر میں گھوڑوں کی کمی پوری
کر نے کے لئے گھوڑی پال سکیم شروع کی
تھی۔تب لوگوں کو ایک گھوڑی دی جاتی اور اس
کی خاطرکے لئےایک مربع ز مین الاٹ کی جاتی ۔بدلے میں انگریزتین سال میں گھوڑے کے
دو بچے لیتے تھے۔یہ سکیم بھی ثبوت ہے کہ
یہاں گدھوں کو گھوڑے ملتے رہے ہیں۔لیکن آج کل گدھے اورگھوڑے برابر
ہیں۔اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم گھوڑا گلی کو گدھا گلی کہنا شروع کر دیں۔گھوڑے میل جول اور دوستی کے شوقین ہوتے ہیں ۔وہ ہنہنا کرباتیں کرتے ہیں۔برطانوی
یونیورسٹی سُوسیکس کے ماہرین کا دعوی ہے کہ گھوڑا۔ انسان کی خوشی اور غم کوسمجھ سکتا
ہے۔شائد اسی لئے ارسطو نےانسان کو سماجی جانورکہا ہو۔
کہتے ہیں کہ جانور پالنے کے لئے انسان کو خود جانور بننا
پڑتا ہے۔یہ سچ ہے تو ارسطو بھی سچا ہے۔ورجینیا
میوزیم کی ریکارڈ بُک بھی ارسطو کی سچائی کی گواہ ہے۔جس
میں لکھا ہےکہ ایک بیماری کی وجہ سےسابق امریکی صدر جارج واشنگٹن کے تمام دانت جھڑ گئے۔توڈاکٹرز نے انہیں گھوڑے کے دانت لگادئیے۔شائدامریکی صدر کینڈی کی اہلیہ جیکوین کوبھی یہی بیماری ہو کیونکہ فیلڈ
مارشل ایوب خان نےانہیں گھوڑاگفٹ کیا تھا۔گھوڑا
تحفہ میں دینا کوئی اچنبا نہیں ہے۔مشیر
خارجہ سرتاج عزیز کو منگولیا سے گھوڑا مل
چکا ہے۔سابق ضلع ناظم گجرات چوہدری شفاعت نے دو خاندانوں میں صلح کروائی تو گھوڑاملا۔چیف جسٹس انور
ظہیر جمالی کولاڑکانہ میں گھوڑا گفٹ ہوا۔
لیکن انہوں نےمنع کردیا۔وزیر اعلی پنجاب
نے ترک وزیر اعظم کو گھوڑا بھیجا ہے۔
گھوڑا ہمارے ہاں 1500 ق م میں آریہ لےکرآئےوگرنہ ہڑپہ اور
موہنجو داڑومیں توبیل ہی تھا۔اس کےبعد
یونانی، ایرانی، افغانی اورمنگول سب گھوڑوں پرہی آئے۔اورگئے بھی گھوڑوں پرہی۔یوں
برصغیر میں دگڑدگڑ ہی ہوتی رہی۔لیکن مشتاق
احمد یوسفی نے گھوڑے کا ایک اور ۔راز بھی بتایا ہے وہ کہتے ہیں کہ ’’محبوبہ کو
اغوا کےلئے بھی گھوڑے استعمال ہوتے ہیں‘‘۔
گھوڑا تانبے کے دورسے جنگوں میں استعمال ہورہاتھا۔آج بھی دنیا پِتل دی ہے۔انسان نے جانوروں کو سدھانے کے فن
میں مہارت پائی تو کُتوں نےہمارے پیچھے دم
ہلا ئی اور گھوڑے دوٹانگوں پر ناچنے لگے۔آج کل تو گھوڑے ڈھول پر
آئیٹم سانگ بھی کرتے ہیں۔لیکن مریدکہتا ہے کہ جنگ کا خطرہ آج بھی موجود ہے۔اسی لئے دلہا گھوڑےپرہوتا ہے۔اوردشمن کے گھر کی طرف جاتے ہوئےطبل
جنگ بجایا جاتا ہے۔دشمن جب زیرہوجاتا ہے تو وہ باقی جنگ سسرال میں لڑتا ہے۔
ایک تانگہ تھوڑی دیر چل کر رک جاتا تو۔کوچوان گھوڑے کو گانا
سناتا۔اور وہ دوڑنے لگتا۔سواری نے پوچھا۔ بھئی یہ کیا قصہ ہے۔
کوچوان:بابو میرا گھوڑا بیمار تھا۔ آج میں بگھی والا گھوڑا
لے آیا ہوں۔
گھوڑے
کےبچے کوسرل کہتے ہیں۔ دوک (دو سال کا) گھوڑا ناچنے لگتا ہے۔جبکہ تین سال کا گھوڑا ۔سُربھی سمجھتا ہے۔گھوڑا جب پپو
سمراٹ جتنا ماسٹر ہوجاتا ہے تو وہ جھومر، لنگوری، ریڑھ اور دھمال۔چار ٹائپ کا
ڈانس کرتا ہےاور اس کی چالیں بھی چار ہی ہوتی ہیں۔ پہلی چال میں ہر پاؤں الگ الگ زمین پرپڑتا ہے۔ دُلکی چال میں دائیں اور
بائیں کے دونوں پاؤں آگے پیچھے اٹھتے ہیں۔ تیسری چال میں تین آوازیں
اور چوتھی چال سرپٹ ہوتی ہے۔لیکن مرید
کہتا ہے کہ گھوڑے کی پانچویں چال بھی ہوتی
ہے۔ شطرنجی چال ۔’’ شطرنج دنیا کی واحد
گیم ہے جوریاست میں شوہر کی حیثیت واضح کرتی ہے۔ بیچارہ بادشاہ صرف ایک چال چلتا
ہے اور ملکہ ۔ہاتھی، توپ، پیادے اور گھوڑے سمیت ساری چالیں چلتی ہے‘‘۔
شادی کی سلور جوبلی پر ایک دوست نے شوہر سے پوچھا آپ کی خوشحال
زندگی کا راز کیا ہے۔؟
شوہر : ہم ہنی مون پر گئے اورتمہاری بھابھی گھڑسواری کرنے لگی۔ گھوڑا تھوڑا نخریلا تھا ۔اس نے گرا دیا۔بھابھی نے
گھوڑے کو تھپکی دی اور کہا یہ پہلی بار ہے۔وہ دوبارہ سوار ہوئی پھر گر گئی۔
اور بولی ۔یہ دوسری بار ہے۔گھوڑے نے تیسری بارپھر گرا دیا۔ تو تمہاری بھابھی بولی
کچھ نہیں۔ میرا پستول نکالا اور گھوڑے کو گولی مار دی۔ میں نے اسے بہت بر ا بھلا کہا لیکن اس نے صرف
اتنا کہا : یہ پہلی بار ہے۔
خبر یہ ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار’’ایوان
صدر میں 50کروڑ روپے کی لاگت سے اصطبل بنایا
جا رہا ہے جہاں گھوڑوں کو پُرسکون ماحول دیا جائے گا ۔ان کی کسرت کے لئے تربیت
یافتہ عملہ ہو گا اورڈاکٹرز ہوں گے ۔100سے زائد
گھوڑوں کے لئے گرم اور سرد موسم کا الگ الگ انتظام ہو گا‘‘۔ایوان صدر میں بے
لگام فنڈز خرچ کرکے مردہ گھوڑے میں جان ڈالی جا رہی ہے۔اپوزیشن گھوڑے بیچ کر سو
رہی ہے۔اسے تو یہ بھی نہیں پتہ
کہ ایوان صدر کے گھوڑے ٹھمکے مارنے والے ہیں یاسکیورٹی والے۔اور گھڑ سوار کون ہیں۔
ايک پینڈو اور انگريز فلم ديکھ رہے تھے ۔اچانک ہیرو کی اینٹری ہو گئی۔ انگریز بولا: يہ گھوڑے
سے گرجائے گا۔
ديہاتی: تمہارا وہم ہے یہ نہیں گرے گا۔لیکن ہيرو گرگيا۔
انگريز:تمہیں کہا تھا ناں کہ یہ گرےگا۔
ديہاتی: ميں نے کل بھی یہ فلم ديکھی تھی اور کل بھی یہ گرا تھا۔ميں سمجھاتھا آج محتاط ہوگا۔
ملک میں صدارتی
نظام حکومت ہوتا تو ہیرو گھوڑےسےکبھی نہ گرتا۔کیونکہ اصطبل ایوان صدرمیں ہے۔ملک
کے ہرصدرنے وہاں گھوڑے رکھے ہیں۔انہیں جب اجازت ملتی تو ہنہناتے بھی ہیں۔گھوڑے کی سننے اور دیکھنے کی حس کافی تیز ہوتی ہیں۔شائدانہیں وہاں رکھنے کا مقصد 58 ٹوبی پرنظررکھنا ہو۔لیکن
مرید کہتاہے کہ ایوان صدرمیں اصطبل کا قیام ہی غیر
آئینی ہے ۔پارلیمانی نظام حکومت میں ساری ہارس ٹریڈنگ وزیراعظم کرتا ہے اس لئے اصطبل وزیراعظم
ہاوس میں ہونا چاہیے۔اسےتو شک ہےکہ گھوڑے
دہی بھلے کھا۔کھا کےبیمارہوجائیں گے۔میں مریدسے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ
حاکم کی اگاڑی اورگھوڑے کی پچھاڑی سےبچناچاہیے۔
Boht khob
جواب دیںحذف کریں