ڈکار
دراصل ہاضمے کی ایسی کیفیت کو بیان کرتا ہے۔جس میں لنگوٹ فیلوزاور رشتہ دارتُکا لگاتےہیں کہ آپ کےمعدےمیں کتنا تیز دھار گرائینڈر فٹ ہے۔؟ہاضمےکی اہمیت وہ لوگ زیادہ جانتے
ہیں جن کا ڈھکار پھنس جاتاہے۔ڈکارآنا،لینااورپھنسنا۔تینوں حالتوں میں بسیارخور کا منہ پیدائشی سانچےکے بجائےنئی ساخت میں ڈھل جاتاہے۔مشاہدہ تو یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ ڈکاربھی نہیں لیتے۔سیاستدان،دھنوان
اور افسران اس مشاہدےکی تجربہ گاہیں
ہیں۔یہاں سیاسی اور معاشی کئی ڈکار رائج
ہیں۔ان ڈکارئیوں کو نہ تو اپھارا ہوتا ہے اور نہ ہی طبیعت سیر۔انہیں تبخیرمعدہ کی
شکایت ہوتی ہے نہ ہی السرکی۔ان کے شکم سےگڑوم گڑوم کی آوازیں کبھی نہیں
آتیں۔زبان کوچسکااور چٹخارہ لگا ہوتاہےیہ ضروری نہیں کہ ان کی توندیں دریائی گھوڑے جیسی ہوں لیکن ان کے ضمیر اور معدےلکڑاور
پتھر ہضم ہوتے ہیں۔ہائی سپیڈ گرائینڈر والے۔انہیں سیاسی اور انتظامی۔بدہضمی کی
شکایت کبھی نہیں ہوتی۔
استاد:مُنےاگر
دو میں سے دو نفی کریں تو کیا بچے گا۔؟
نالائق
مُنا:پتہ نہیں۔
استاد:چلویہ
بتاؤ۔ اگرتمہارے پاس دو روٹیاں ہوں اور دونوں کھالو۔ تو باقی کیا بچے گا۔؟
مُنا:سالن
گذری
چار پانچ دھائیوں سے ہمارے مُنے سالن
مُکانے پرلگے ہیں۔چُنے بھی شریک جرم ہیں۔ وہ سالن کی تگاریاں بھر بھر کےمُنوں کوپکڑارہے ہیں۔سالن قارون کا خزانہ تھوڑا ہی تھا ۔جو مُکنے میں نہ آئے۔پچھلےتقریبا68 سال
سے خزانہ اور ادارے ڈکارنےکی اجتماعی دعوت جاری ہے۔عوام کوچوسنےاورچونا لگانے
والےسارےچُنے مُنےہاتھ صاف کررہے ہیں۔ٹیکس ڈکارنے اور مراعات لینے والے بھی ساتھ ہیں ۔ہرڈکارئیہ۔دریائی گھوڑا ہے۔کھانے اور
سستانے کے علاوہ اسے کوئی کام نہیں۔ہڑپنے کی لذت ان کی اشتہا بڑھارہی ہے۔وہ مسلسل
ڈپھےجا رہے ہیں اورہمارے چہرہ پھنسےڈکار جیسے ہوچکےہیں۔ہمارے پیٹوں میں گرائینڈر
نہیں چوہےدوڑتے ہیں۔ ہمارے ڈکار السری ہیں۔ دالیں کھا کھا کر ہمارا معدہ کُکڑ ہو
چکاہے۔ہم اسیلوں کی طرح بانگ رہے ہیں۔وہاں روزانہ
شیرازی دعوتیں چلتی ہیں۔چینی اوراطالوی کھانےاترتےہیں ان کےدسترخوان
مغلیائی ہیں۔وہاں شاہی کوفتے،شاہی بریانی، شاہی قورمےاور شاہی ٹکڑے چلتے ہیں۔ہم
شاہی چھولے کھاتے ہیں۔وہاں الحمداللہ ڈکار لینے والے بھی ہیں۔استغفراللہ اورنعوز
باللہ ڈکار۔ والے بھی اور ہم مرغا بھی تب کھاتے ہیں ہم جب بیمار ہوں یا مرغا بیمار ہو۔
بیوی:(بیمارشوہرکا سر دباتے ہوئے) آج میں آپ کو دیسی مرغ کی یخنی پلاؤں گی۔
بیوی:(بیمارشوہرکا سر دباتے ہوئے) آج میں آپ کو دیسی مرغ کی یخنی پلاؤں گی۔
مرغا:(دیوارکے اوپرسے)۔باجی ایک بار پیناڈول دے کے دیکھ لو۔
ہم
دال کھاکرگوشت کا ڈکار۔لینے والےعہد میں زندہ ہیں۔میرے دوست مریدکو اس کی بیوی جب بھی پوچھتی
ہےآج کیا کھائیں گے۔؟مرید سمجھ جاتا ہےکہ’’آج دال ہی ملے گی‘‘۔ہم سارے مرید
ہیں۔بھگاری دال پرٹرخ جاتے ہیں۔شائدوہ مریدی مرغا ہی تھا جو۔پینا ڈول کا مشورہ دے
کر کسی کُڑک کی تلاش میں پھُر ہوگیا۔کم
بخت تب لوٹے گاجب نڈھال صحت بحال ہوچکی ہوگی۔’’انسائیکلوپیڈیا
غلطانیکا‘‘سےماخوذ ہے کہ’’کھانے کےبالآخر اختتام پرمعدے اور سانس میں بچی کُھچی
ہوا کے اخراج کو ڈکار کہتے ہیں۔ ڈکار خود کار بھی ہوتے ہیں اور زور لگا کر بھی
مارے جاتے ہیں۔ سر محفل ڈکار لینے کو معیوب سمجھاجاتا ہے۔ رشوت خور افسران اور
پولیس والوں کو عموما کٹھے ڈکار اور میٹھے خواب آتے ہیں جبکہ مالِ مفت کو آسانی سے
نگل لینےکو’’ڈکارنا‘‘کہتے ہیں۔ بسیارخورجگالی کے درمیان وقفوں میں خوب ڈکارتے ہیں اور بعض اوقات ان کا ڈکار شہہ رگ کے
قریب پھنس جاتا ہے ۔اگردو ہتڑ کھانے کے بعد بھی ان کا ڈکار خارج نہ ہو ۔پھر وہ
آخری ہچکی لیتے ہوئے دنیا سے منہ موڑ لیتے ہیں۔‘‘
آسٹریا
کے دارالحکومت ویانا میں آخری ہچکی سے پہلے ایک شخص کو ڈکار آگیا۔بلکُل جب اس کی
کیفیت جان کنی والی تھی۔اس عجیب واقعے کا کردار۔ایدین نامی ترک باشندہ ہے۔جو ہوٹل میں اپنا پسندیدہ ڈونر کباب کھانے آیا تھا لیکن
کھانے کے بعدایسا زوردار۔ ڈکار مارا کہ لوگ
خوفزدہ ہو گئے۔پولیس ڈکار سن کر موقع پر پہنچی۔ایدین کو مزیدنہ۔ڈکانےکی وارننگ دی اور تقریبا8 ہزار روپے جرمانہ بھی
کردیا۔ کباب بنانے والی ترک کمپنی کو یہ جرمانہ بہت ناگوار گذرا۔اس کمپنی نےایدین۔ کو۔دو۔ روزہ
سیاحتی دورےپرویانا سے استنبول بلالیا۔
ہوائی جہاز کا ٹکٹ، ہوٹل کا کرایہ اور شہر کی سیر کے اخراجات کمپنی نےخود ادا کیے۔واپسی پرپولیس جرمانے کے
برابر8 ہزار روپے کا چیک بھی پیش کیا۔
ڈکارنے
پرجرمانہ پاکستان میں رکھ دیا جائے توشائدجمع ہونے والی رقم سےملکی قرضے اتر جائیں۔کیونکہ یہاں لوگ کروڑوں، اربوں
ڈکارے بیٹھے ہیں۔مفت میں توکوئی ڈکاربھی نہیں لیتا۔قومی خزانے کوایسے بسیار خور
چپٹےہیں۔جن کےمعدوں میں بڑے گرائینڈرفٹ ہیں۔ بدہضمی کی صورت میں وہ۔ این آر او کی تصدیق شدہ پھکیاں
لیتےہیں۔بیماری جب سر اٹھانے لگتی ہے۔وہ پھکی کوگڑپ کرکے گڑوُم گڑوُم کرلیتے ہیں۔ طبی
ماہرین کہتے ہیں کہ’’بہت زیادہ کھانا اور کھانے کی ہر وقت طلب ہونا ایک ذہنی
بیماری ہے۔اس بیماری میں انسان کچھ شرمناک یادوں۔یا پھر احساس جرم کو چھپانے کی
کوشش کرتاہے‘‘۔شائد یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں لوگ دھڑا دھڑ کھا رہے ہیں۔احساس
جرم اور شرمناک یادیں ان کے حال اور ماضی سے جڑی ہیں۔وہ دماغی اور سماجی ہر طرح کے
بیمار ہیں۔ستم یہ ہے کہ اوپر والے سارے بیمار ہیں اور نیچے والے سارےبے زار۔وہ
جانتے ہیں کہ ڈکار رجے کی نشانی ہے۔ نِرنےکالجے۔کا۔ڈکارالسر ہے۔سُناہے جن کے پیٹ
میں کیڑے ہوتے ہیں وہ بھی زیادہ کھاتے ہیں
لیکن مرید کہتا ہے۔جن دماغ میں کیڑا ہوتا ہے ان کے پیٹ میں بھی ہوتا ہے۔جوسالن ختم
ہونے سے پہلےمزید بسیار خوری کی ترغیب دیتا رہتا ہے۔
یہ
مردوں کا معاشرہ ہے۔مشرقی معاشرہ۔یہاں تو لڑکی کوڈکارتک مارنےکی اجازت نہیں ہے۔کم ازکم میں نےتو کسی خاتون کو
ڈکار لیتےنہیں دیکھا۔مریداس مردانہ معاشرےمیں۔پکا۔رن مرید ہے۔کہتا ہے کہ’’میری بیوی
کوکچھ پکانے کےلئے کچن میں جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔وہ باتوں سےبھی اچھاخاصاپکاسکتی ہے‘‘۔کان پکانےوالی بیویاں ہراس گھر میں پالی جاتی ہیں جہاں شوہر ازدواجی
زندگی کے خیراتی مزےلوٹتے ہیں۔وہاں مقام ذوجیت فالتو کے بجائے پالتو ہوتا ہے۔جن
گھروں میں کان پکتے ہیں۔ فاسٹ فوڈہوٹل انہی کے دم سے چلتے ہیں۔فاسٹ فوڈہوٹل پروہ لوگ
زیادہ جاتے ہیں جن کے پاس سالن بچاپڑا ہوتا
ہے۔مرید کہتا ہے کہ’’خواتین طے شدہ شادی سے پہلے ممکنہ بہو میں دو چیزوں تلاش کرتی
ہیں۔حُسن کرینہ کپور جیسااورگُن زبیدہ آپاجیسے‘‘۔جبکہ اچانک(عشقیہ) شادی میں
محبوبہ کا شیف ہونا ضروری نہیں ہوتا۔محبتی شادیوں میں بیویاں اچانک سر چڑھ کربولنے لگتی ہے۔کچے گُنوں کی وجہ سے شوہروں کوتبخیرمعدہ
ہوجاتی ہےاورلوگوں کوتبخیردماغ۔جس معاشرے میں لوگ دال کھا کرگوشت کے ڈکار لیتے
ہیں۔وہاں عشق ہضم نہیں ہوتا۔کان پکانے والی بیویوں کے شوہر رنڈوں اور کنواروں کی طرح ہوٹلوں سے شکم سیری کرتے ہیں اور ڈکار
ان کے بھی پھنسے ہی رہتے ہیں۔
پاکستان
میں بہت سے ایدین ہیں۔ وہ ڈکارتے بھی نہیں۔حالانکہ ڈکار غیر آئینی ہیں اور نہ ہی
غیر شرعی۔البتہ ڈکارنا گناہ بھی ہےاور جرم بھی ۔ویسےڈکار آنا ایک نعمت ہے۔بسیار خوروں
کے گرائینڈر آج بھی چل رہے ہیں۔ہماری پھکی اور ہاجمولا ختم ہوتا جا رہا ہےاور سالن
بھی۔اب تومعدہ صاف کرنا پڑے گا۔متلی اورقےسے کچھ نہیں بنے گا۔ گرائینڈر اتارنا پڑے
گا۔میجرسرجری ناگزیرہوچکی ہے۔’’بس پیوستہ رہ احتساب سے امید ِڈکار رکھ‘‘۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں