ہفتہ، 5 نومبر، 2016

گل سُن ڈھولنا۔

ہمارے ہاں تفریح کےمواقعے کم ہیں۔ اسی لئے بچوں کی پیدائش کی شرح  زیادہ ہے۔اسے یوں بھی کہا جا سکتا ہےکہ تفریح کے محدود مواقعوں کی وجہ سے۔ اکثر ازدواجی  لڑائیاں صلح پر ختم ہوتی ہیں۔یوں بچوں کی پیدائش کی شرح بڑھ جاتی ہے۔مردشادی اس لئے کرتا ہے کیونکہ گھرپہنچتے ہی تنہائی کاٹ کھاتی ہے اور شادی کے بعدیہی کام بیوی بھی کرنےلگتی ہے۔شادی کےابتدائی دنوں میں جو شوہر بھاگم بھاگ بیوی کی ہر فرمائش پوری کرتے ہیں۔وہ جلد ہی فرمائش سن کر بھاگنے لگتے ہیں۔یوں لڑائی وٹ پر پڑی ہوتی ہے۔
لیکن میرا دوست شیخ مریدکہتا ہے کہ  میاں بیوی جتنے زیادہ لڑاکے ہوں گے ان کے بچے اتنے ہی  زیادہ ہوں گے  کیونکہ وہاں صلح کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں ۔ازدواجی لڑائیوں کی صلح آئندہ کئی مہینوں کے لئے ’’سیز فائر‘‘کو  جنم دیتی ہے۔ اوربچے خانگی جنگوں میں  سب سے بڑی ڈھال  بن جاتے ہیں۔
جج :طلاق کی صورت میں جائیداد اورگھر کا سارا سامان آدھا آدھا تقسیم ہو گا۔بچے تین ہیں ان کا فیصلہ آپ خود کر لیں۔
خاتون :’’منے کے ابا گھر چلو  ہم اگلے سال آ ئیں گے‘‘۔
بچوں نے ایک سال کے لئے طلاق موخر کروا دی تھی۔بلکہ یہ لڑائی اُس صلح  میں بدل گئی تھی۔ جس کا جشن تفریح کے محدود مواقعے کی وجہ سے منایا جا تا ہے۔بچے لڑائی میں ڈھال بن گئے تھے۔’’کم بچے خوشحال گھرانہ ‘‘ کا دعوی سچاثابت ہو چکا تھا۔وہ دونوں ہنسی خوشی رہنےلگے تھے۔حالانکہ میاں بیوی ایک دوسر ے سےعمران خان ۔اورنواز شریف جتنی نفرت کرتے ہیں۔ اچانک وہ ایک دوسرے کوویسے ہی چاہنے لگےجیسے عمران۔نواز شریف کا استعفی چاہتے ہیں۔لیکن شیخ مرید کہتا ہے کہ میاں بیوی میں اگلے سال بھی طلاق کے امکانات ففٹی ففٹی ہیں۔ کیونکہ اگلے سال ان کے ہاں جڑواں بچے پیدا ہونے کا امکان ہے۔وہ تو کہتا ہے طلاق سےبچنا ہےتو بچےجفت کے بجائے تعداد میں طاق ہونے چاہیں۔معروف گلوکارہ حمیرا ارشد اورایکٹراحمدبٹ کی شادی بھی اسی لئے بچ گئی ہے۔
شوبز کے ان ستاروں  کا ملن 2004 میں ہوا۔حمیرا ارشد نے ایک بارکہا تھا کہ  وہ اپنے لباس، کھانے اورفٹنس پرکافی توجہ دیتی ہیں۔اسی لئے ماں بننے کے باوجودپرکشش نظر آتی ہیں۔مرید کہتا ہے کہ یہ سچ  ہے اسی لئے  لوگ حمیرا ارشدکےگانے سننے کےبجائے دیکھتے زیادہ ہیں۔حمیرا۔ اوراحمد 12برس تک رشتہ ازدواج سے منسلک رہے۔علی ان کی اکلوتی اولاد ہے۔ اچانک  ایک روزخبرآئی کہ دونوں میں اختلافات ہوگئے ہیں۔میڈیا نے ان اختلافات کو تقریبا’’ آف شور کمپنی‘‘جتنا بھڑکایا۔بات آپ سے اوئے تک جا پہنچی تھی۔نجی چینلز الزامات بھری نجی زندگی کو لائیونشر کر رہے تھے۔
شوہر دفتر سے اچانک گھر آگیا تو دیکھا بیوی کسی غیر مرد کے ساتھ بیٹھی ہے
بیوی: آج آپ جلدی گھر کیسے آگئے ۔؟
شوہر:تم بتاؤ۔یہ کون ہے۔ ؟
بیوی:ٹاپک بدلنے کی کوشش مت  کرو ۔
احمد بٹ اورحمیرا ارشدنےمیڈیا کےسامنےایک دوسرےپر’’ٹاپک بدلنے والے‘‘ الزامات  لگائے تھے۔نوبت طلاق تک اورمعاملہ عدالت تک چلا گیا ۔احمد بٹ نے کہا ’’حمیرا  منشیات استعمال کرتی ہیں۔ گھرمیں شراب اور سگریٹ نوشی کی بہتات  ہے۔اس نے شراب نوشی ترک کرنے کا حلف دیا تھا مگر مکر گئی‘‘۔اورحمیراارشد نے جواب دیا کہ ’’یہ جھوٹ ہے وہ 12برس چپ کیوں رہا۔احمد کو کئی بار پیسے دئیے۔ بیوی ہونے کے باوجود مجھے بلیک میل کیا گیا۔ڈرتی تھی کہ دنیا میں تماشہ نہ بن جاؤں‘‘۔ پھر دوسری خبرآئی کہ سٹار جوڑی ٹوٹ گئی۔ ستارےدم دار ستاروں کی طرح دم دبا کرنکل بھاگے تھے۔علی کی حوالگی دونوں کے مابین رابطے کا اکلوتا ذریعہ تھی۔
حمیرا اور احمد  نے محبت کی شادی  کی ہے۔لو میرج پہلی نظر میں ہونے والے پیار کانتیجہ ہوتی ہے۔ہم سماجی اور اخلاقی بندشوں کے معاشرے میں زندہ ہیں۔اسی لئے محبت چھپ کرکی جاتی ہے۔یہاں محبت آف شورکمپنی کی طرح  ناجائز اثاثہ ہے۔محبوب کو اسیربنا کر رکھا جاتا ہے۔یہاں عاشقوں کو دیکھ کرمعاشرہ اجتماعی بدہضمی کا شکار ہو جاتا ہے۔لیکن یورپی معاشرے کوقبض ہو چکی ہے۔اب وہاں پہلی نظر کاپیار بے معنی ہو چکا ہے۔ عاشق ظاہری حسن سےزیادہ پوشیدہ اوصاف دیکھ کرشادی کرتے ہیں۔مریدتو کہتا ہے کہ آف شور محبت والے معاشرےمیں اپنے محبوب سے شادی کا تصور ختم ہو گیا ہے یہاں شادی ہمیشہ دوسرے کے محبوب سے ہوتی ہے۔اورمحبت کسی روز آف شور کمپنی کی طرح بے نقاب ہو جاتی ہے۔ بلکہ یورپی تو ہم سےاس قدر آگے ہیں ۔کہ ہم بچوں کے بعد طلاق کا فیصلہ کرتے ہیں اور وہ بچوں کے بعد شادی کا فیصلہ کر تے ہیں‘‘۔
پہلی نظر میں پیار کا محاورہ ہم نے کئی بار سنا ۔ لیکن پچھلے دنوں سعودی عرب میں ایک شخص نے پہلی ہی نظر میں بیوی کو طلاق دے دی ۔ شادی کی تقریب کے دوران ہی دولہے نے گھونگھٹ اٹھایا اورپہلی نظر میں طلاق دے دی اور کہا کہ ’’یہ وہ خاتون نہیں ہے جس کی مجھے تلاش تھی‘‘۔تلاش انسان کو کھجل کرچھوڑتی ہے۔ لیکن عمران خان  آج کل تلاش کے بجائے’’تلاشی‘‘ کے لئے اصرار کر رہے ہیں۔ انہوں نے تلاشی لینے کے لئےدس لاکھ لوگ اسلام آباد بلائے تھے۔سب سے بڑی رسد پٹھانوں سےآنے کا امکان تھا۔ لیکن پولیس نے  شیلنگ کرکے پٹھان واپس بھجوا دئیے۔جس پر رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ ’’آج پٹھانوں کو پنجاب سے سیاسی طلاق ہو گئی ہے‘‘۔
حمیرا ارشد اور احمد بٹ کی طلاق بھی سیاسی ثابت ہوئی۔ اچانک احمد بٹ بولے کہ ہمارے اختلافات ختم ہو گئے ہیں بچے کی خاطرہم نے پکی صلح کر لی ہے۔اب میں قیامت تک حمیرا کا شوہر رہوں گا۔ طلاق دینے پر شرمندہ ہوں اور حمیرا سے معافی مانگتا ہوں۔صلح میں سٹیج  پروڈیوسرسخی سرور بٹ نے اہم کردار ادا کیا۔مرید کہتاہے کہ صلح ہوجانا اچھی بات ہے لیکن یہ دل کا نہیں دین کا معاملہ ہے۔
جج طلاق کا فیصلہ سناتے ہوئے:’’چھوٹے بچے‘‘کی کفالت تم کروگے۔ بیوی کو ماہانہ 25ہزار روپےدو گے۔اور وہ اپنازیور ۔و جہیزلے جانے کی مجاز بھی ہے۔
شوہر: جناب والا !سارے اخراجات میرے ذمے ہیں تو پھر طلاق کا فائدہ۔ میں مقدمہ واپس لیتا ہوں۔
بچپن میں ہم نے اکثر بادشاہ ملکہ ، جن اور پری کی ایسی کہانیاں پڑھی ہیں۔جن کا انجام اس جملے سے ہوتا تھا۔ ’’پھر وہ ہنسی خوشی رہنے لگے‘‘۔ مجھے یاد ہے۔ ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا۔ اوربے اولادبھی ہوتا  تھا۔ پھر اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوتا۔سلطنت میں کئی روز جشن ہوتا ۔شہزادے کانام گلفام رکھا جاتا۔ گلفام کو کسی پری سے عشق ہوجاتا۔ پری کسی جن کےجادوئی اثر میں ہوتی۔ جن کی جان ایک طوطے میں ہوتی۔طوطا ایک پنجرے میں ہوتا ۔پنجرہ کوہ قاف میں ہوتا۔ گلفام وہاں اڑن قالین پر بیٹھ کر پہنچتا۔ چابی ڈھونڈھتا۔تالہ کھول کر طوطے کی گردن مروڑتا۔ جن مرجاتا تھا۔یوں حمیرا ارشد اور اسد بٹ ہنسی خوشی رہنےلگے۔
مجھے ان حالات میں حمیرا ارشد کا گانا یادآ رہا ہے۔
جدوں پیارکسے نال پائی دا۔ او جوچاوے او چاہیدا۔ اوہدے نال مٹکا نئیں لائی دا۔ گل سن ڈھولنا۔ گل سن 

1 تبصرہ:

  1. واہ ملک صاحب .... پڑھ کر ایک بار تو دماغ بھی جھنجھنا اٹھا. .... لیکن مزا آگیا تحریر کا....

    جواب دیںحذف کریں