کورونا وائرس نے سوشل ڈسٹنسنگ کے نام پر ہمیں ان لوگوں کے ساتھ رہنے پر مجبور کر دیا ہے جن کے سوشل ہونے پر بھی شک تھا اور ان سے ڈسٹنس رکھنا بھی ضروری تھا۔ ۔اورستم یہ کہ ہمارے پاس آپشن بھی کوئی نہیں ۔ہمیں بس گھروں میں ہے اور ان کے پاس رہنا ہے جن سےدور رہتے تھے ۔یہ ضروری بھی ہے اور مجبوری بھی ۔ سماج نے گذشتہ کئی سال میں ۔ ہمیں اتنا نہیں سکھایا جتنا۔ کورونا نے چند دن میں سمجھا دیا ہے۔شوہروں کوچاہیے کہ وہ بلا خوف گھر پر رہیں۔اللہ نے شادی کروا دی ہے تو حفاظت بھی وہی کرے گا۔
بیوی(شوہرسے):آپ کیا کورونا سے ڈر کے ہر وقت گھر بیٹھے رہتے ہیں۔انشورنس کمپنی سے بیمہ کی رقم لینے کاموقع آگیا ہے۔ باہربھی نکلا کر یں ۔
بیوی کے علاوہ تمام خواتین کی نفسیات ایک سی ہوتی ہیں ۔ لاک ڈاون نے ہماری سماجی زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اورازدواجی زندگی کوبہت ہی بری طرح۔شوہروں کی زندگی سےدو سوال آوٹ ہو گئے ہیں کہ کدھر ہو۔ ؟ اور گھر کب آنا ہے۔ ؟۔جبکہ بیویاں ہر وقت کچھ نہ کچھ پکانے میں لگی رہتی ہیں ۔خاص طور پر شوہر کو ۔طبی ماہر ین کہتے ہیں ۔ اگر آپ کورونا سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو گھر ر ہیں اور عمرانی ماہرین کہتے ہیں کہ اگر آپ گھرپر "محفوظ " رہنا چاہتے ہیں تو گھر کے کام بھی کریں ۔میرا دوست شیخ مرید ۔ ۔ دونوں ماہرین کے ٹوٹکے کامیابی سے آزما رہا ہے ۔ یوں وہ مصروف بھی رہتا ہے اور محفو ظ بھی۔
مستنصر حسین تارڑ لکھتے ہیں کہ لاک ڈاون کی وجہ سے گھر میں بیٹھا ہوں۔ زوجہ محترمہ جب بھی میرے قریب سے گذرتی ہیں تو اونچا اونچا کہتی ہیں "اللہ بچائے اس آفت سے "۔۔ اُن کی زوجہ ۔۔ اوربھابھی نصیبو( مرید کی بیوی)۔ دونوں کا نظریہ ایک ہی ہے۔ نصیبو کو لگتا ہے کہ شوہرہمیشہ بیمار ہوتا ہے۔ علامات کا ہونا ضروری نہیں ۔ اسے ڈسٹنس پر ہی رکھنا چاہیے ۔ اور مرید بیچارہ قرنطینہ میں ہی تھا۔ مریض ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ شوہر ہونے کی وجہ سے ۔ ! نصیبو اسے یونہی ملتی ہے جیسےتیمارداری کرنےآئی ہو۔وہ بیچارہ تو علامتی ساشوہر بن کر رہ گیاہے۔
لا ک ڈاون کی وجہ سے گھروں میں ہم ان چیزوں سے دل پشوری کررہے ہیں جن سے پہلے بور ہوتے تھے ۔شادی شدہ افراد کے لئے گھریلو مینئومیں آپشنز بھی محدود ہیں ۔ موبائل سے وہ اکتا چکے ہیں۔ ٹی وی پرمسلسل کورونا ہے اور گھر میں رونا دھونا۔۔البتہ ۔ آزاد، خوشحال اور بے فکرمردوں کا مینئو خاصا طویل ہوتا ہے ۔وہ تو۔ موبائل فون کو کوڈ بھی لگا سکتے ہیں ۔ شوہروں کی بوریت جانچنے کاپیمانہ ایک ہی ہے۔ جس کی شادی کو جتنازیادہ وقت گذرگیا ۔بوریت کی شرح اتنی ہی زیادہ ہے ۔ اور زیادہ سے زیادہ لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ کم سے کم بور کیسے ہوا جائے۔ ویلاآدمی ہمیشہ تھکا ہوا ہوتا ہے۔لیٹناان کا قومی مشغلہ ہوتا ہے۔جس گھر میں چارپانچ لوگ ویلے ہو گئے ہیں وہ گھراب وارڈ لگنے لگا ہے۔ لیکن گھروں میں زیادہ بور وہ لوگ ہو رہے ہیں۔ جوپیدائشی فارغ تھے۔کیونکہ ۔ جو فریش فریش فارغ ہوئے ہیں۔ انہوں نے ازلی ویلوں کی جگہ لے لی ہے۔ بے بسی ایسی کہ نہ بس چل رہی ہے اور نہ ہی بس چل رہا ہے ۔ ازلی فارغ لوگ اب پوچھتے پھرتے ہیں۔ اب پتہ چلا " سارا دن ویلا رہنا کتنا مشکل ہے۔؟"
نوجوان( دوست سے) : تم کیا کرتے ہوئے ۔؟
دوست : اتوار کو میں چھٹی کرتا ہوں ۔ چھ دن فارغ رہتا ہوں۔
نوجوان : ویری گُڈ ۔ یہ جاب چھوڑنا مت۔ ہو سکتا ہے بعد میں نہ ملے۔
کورونا نے جب حملہ کیاتو عام آدمی زیادہ خوفزدہ نہیں ہوا۔ اس کا خیال تھا کہ وائرس کیا بگاڑلے گا۔ میری قوت مدافعت بہت بہتر ہے۔؟ ۔پھرسرکارنے۔ قوت مدافعت میں کمی لانے کے لئے پولیس کے اختیارات میں اضافہ کیا ۔ وائرس کے حملے کی علامات تو ظاہری تھیں لیکن پولیس نےسارے حملے باطنی کئے ۔جنرل ضیا کے دور میں بھی ایک بار کرفیو لگا تھا۔ تب لوگوں کی قوت مدافعت فوج نے کم کی تھی۔ فیصل آباد کے محلہ مائی دی جھگی میں فوج نےکرفیو کی خلاف ورزی پر ایک شخص کوپکڑ لیا۔ یہ خاں صاحبان کی بستی ہے ۔ موصوف چارپائی بچھا کر گلی میں بیٹھے تھے ۔خاں صاحب نے منت سماجت شروع کردی کہ چارپائی اندر رکھ لینے دیں ۔آفیسر نے اجازت دی تو خان صاحب نے منجی اندر رکھ کے دروازہ بند کرلیا۔ افسران اسےکہتے ۔باہرنکلو ۔ خاں صاحب جواب دیتے رہے کہ "نہیں سرکار باہر کرفیو لگا ہے ۔ "
کرفیو ، لاک ڈاون اور سوشل ڈسٹنس۔جیسےاہم اقدامات پر شہروں میں ایکشن تو ہوا ۔البتہ دیہات اور اندرون محلے محروم رہے ۔ حالانکہ ۔ اندرون محلوں کی بعض گلیاں تو اتنی تنگ ہوتی ہیں کہ ایک طرف سے مرد اور دوسری طرف سے عورت آرہی ہو تو بیچ میں صرف نکاح کی گنجائش بچتی ہے۔انہی محلوں کےگھروں کی چھتیں اتنی قریب ہوتی ہیں کہ ایک شخص رات کو خواب میں جو باتیں کرتا ہے۔ دوسری چھت پر سویا شخص خواب میں انہی باتوں کا جواب دے رہا ہوتا ہے۔ ایسے محلوں میں سوشل ڈسٹنسنگ کی صرف خواہش ہی کی جا سکتی ہے ۔
رواں برس حکومت نے شدید سردی کی وجہ سے سکولوں کی چھٹیوں میں اضافہ کیاتو والدین بچوں کو لے کر برفباری دیکھنے مری چلےگئے۔ کوروناکے بعد بھی یہی ہوا۔ پہاڑی مقامات کی طرف رش بڑھ گیا۔ پولیس نے یہاں سے جانے والے بندے مرغے بنا کرواپس بھیجے تو یہ سلسلہ ٍ تھما ۔ کہتے ہیں پریشانی حالات سے نہیں خیالات سے آتی ہے۔کورونا کے قیدی تقریبا ایک ماہ کی خود ساختہ نظر بندی کے بعد گھروں سے باہر نکل رہے ہیں ۔ بیماری کا خوف توابھی ختم نہیں ہوا ۔ لوگ ۔شائد۔ وائرس ۔کے ساتھ ایڈجسٹ ہو گئے ہیں ۔
کہتے ہیں " عورت اس لئے خوش رہتی ہے کیونکہ وہ کسی کا شوہر نہیں ہوتی"۔لیکن مرید کہتا ہے کہ مرد اس لئے فکر مند ہوتا ہے کیونکہ وہ کسی کی بیوی نہیں ہوتا۔؟۔آسودگی مرد کی زندگی میں راحت اور عورت کی زندگی میں موٹاپا لاتی ہے ۔ معروف مزاح نگار ڈاکٹر یونس بٹ کہتے ہیں کہ عورت کا جسم مختلف گولائیوں سے مل کر بنتا ہے۔ لیکن مرید کہتا ہے گولائیاں مرد کے جسم میں بھی ہوسکتی ہیں اس لئے عورت اسے کہا جائے گاجس کی گولائیاں جھانک رہی ہوں ۔ آسودگی بڑھ جائے تو گولائیوں ۔ چوڑائیاں بن جاتی ہیں۔نصیبو بھی خاصی آسودہ حال تھی۔اوپر سے پارلر بھی بند ہیں۔پارلر بند ہوں تو وہی بیوی جو حسین و جمیل لگتی تھی۔ صرف جمیل لگنےلگتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ فیصلہ اب بھی شوہروں نے کرنا ہے کہ وہ وائر س کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا بیوی کے ساتھ۔؟
ڈیلی ڈان میں گذشتہ دنوں شائع ہونے والی ۔رائٹرز۔ کی ایک رپورٹ کے مطابق کورونا کے بعد طلاق ، علیحدگی اور تشدد کےواقعات میں حیران کن اضافہ ہوا ہے ۔ برطانیہ اور سائپرس میں گھریلو تشددمیں 30 فیصداضافہ ہوا۔فرانس میں تو 18 سال سے 75 سال عمر تک کی خواتین پر تشدد ہوا۔ اٹلی میں 20 ۔اور۔ برازیل میں تشدد کے کیس میں 50 فیصدتک اضافہ ہوا ۔ خواتین اور مرد دونوں گھریلو تشدد کا شکار ہوئے جبکہ سپین میں تشددکےبڑھتے واقعات کے بعد حکومت نے خواتین کو تحفظ دینے کے لئے لاک ڈاون نرم کیا ۔
پاکستان میں بھی لاک ڈاون 30 اپریل تک بڑھا دیا گیا ہے ۔یہ سلسلہ رکے گا تو کئی لوگ بھول جائیں گے کہ وہ لاک ڈاون سے پہلے کام کیا کرتے تھے۔ممکن ہے کوئی پریشان شوہر کسی سائنسدان سے پہلے کورونا کاعلاج ڈھونڈ نکالے۔
2040 میں بیٹے نے باپ سے پوچھا : ابا ۔ میرے اکثردوستوں کی سالگرہ دسمبر جنوری میں ہی کیوں آتی ہے۔ ؟
ابا : بیٹاآج سے 20 سال پہلے ایک وائرس آیا تھا۔ٍ گھروں سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ سارے کاروبار بند تھے ۔ بس کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی ۔
اچھا ہے سر
جواب دیںحذف کریںWah g wah Ajmal bhai buhat Aala.
جواب دیںحذف کریں