بلو ہماری فلمی
سیاست اورغیر فلمی ثقافت کا ایسا
کردار ہے ۔جوگانوں میں ہٹ اور سیاست میں فِٹ
ہے۔مجھے جب بھی بلویاد آتی ہے۔ تو۔شیخ رشیداور۔ ابرارالحق کی یاد ساتھ
لاتی ہے۔دونوں غیر فلمی ہیں۔ لیکن پوری فلم ہیں۔ابرار الحق موسیقی کے ایفل ٹاور ہوں گے ۔ لیکن میں ان کی سیاسی بصیرت کاقائل ہوں۔انہوں نے سالوں پہلے
ہی گانوں میں بِلو کو متعارف کروا یا تھا۔جس
معراج پر شیخ رشیدتقریبا ایک
دھائی بعدپہنچے۔ابرار الحق۔اچانک بِلو کوچھوڑ گئے اوربلے سےمنسلک ہوکرسیاست
میں شیخ رشید کے پیچھے چل پڑے۔ شیخ رشید
پاکستانی سیاست کے پِیسا ٹاورہیں۔تھوڑےٹیرےسے۔ابرار
کی بِلو آج کل شیخ رشید کے پاس ہے۔اور خاصی پاپولر بھی ہے۔ لیکن میرا دوست شیخ مریدکہتا ہےکہ بِلو ایسا مرد ہے۔جس کی عوامی مقبولیت بطور عورت ہے۔ہارمونل تبدیلی کے بغیر۔
مغل شہنشاہ محمد شاہ
رنگیلا۔شائد بِلو کے جد امجد تھے۔وہ رام رنگی( شراب ) پی کر اتنے ٹن ہوجاتے کہ دربار اور حرم میں
لباس فاخرہ پہن کر ناچنے لگتے۔جنس کی یہ ظاہری شباہت
۔شائد اُن خواجہ سراؤں کی دین تھی۔
جو زنانہ کپڑے پہن کرحرم اور دربار میں کوہلو کی طرح گھومتے۔ بیگم نوازش کی طرح۔۔بیگم
نوازش دراصل علی سلیم نام کا ایک بانکا ہے جو نجی ٹی وی چینلز پر بیگم نوازش شو کرتے
ہیں اوربیگم کےکردار میں ایسےگم ہو جاتے ہیں گویا مردانگی بھی کھو گئی ہو۔ان کی عوامی مقبولیت بھی بلو کی طرح ہے۔ عورت
والی۔ مرید کہتا ہے یہ ایسے ہی ہے۔جب گھر والےآپ
کومولوی بنانا چاہیں اور آپ سلمان خان بننا چاہتے ہوں توآپ عامرلیاقت حسین بن جاتے ہیں ۔تاریخ
گواہ ہے کہ 19ویں صدی کے ایرانی بادشاہ ناصر الدین شاہ کےحرم میں جتنی بھی ملکہ تھیں۔سب نےموٹی
موٹی مونچھیں رکھی تھیں۔ کیونکہ تب معیارِ حسن مونچھیں ہی تھیں۔ وہ زنانہ لباس پہن کر اور
مونچھوں کو تاؤ دیتی تھیں۔
پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول مجھے اس لئے پسند ہے کیونکہ ہماری مونچھیں ایک جیسی ہیں۔اور میری اماں کو بلاول اس لئے پسند ہے کیونکہ اس کی شکل اور آواز بے نظیرجیسی ہے۔البتہ مجھے سابق
صدر ۔ زرداری بالکل پسند نہیں۔جس کی پہلی
وجہ ایان علی ہے اور آخری وجہ بھی۔البتہ ایان مجھےپسند ہیں۔ کیونکہ ہم تینوں(ایان، میں اور
بلاول ) میں مونچھ کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔ڈالر سمگلنگ کیس میں گرفتاری کے بعد ا
یان علی نے احاطہ کچہری میں کئی بار کیٹ
واک کی۔ لیکن میں ایک بار بھی نہیں دیکھی۔ کیونکہ مجھے زرداری اور بلاول یاد آتے تھے۔بلاول ۔ ملک کے واحد
سیاسی لیڈر ہیں۔ جنہیں پیپلز پارٹی کی قیادت
سیاست میں نہیں وراثت میں ملی ہے۔اور وہ بھی ماں سے۔ آج کی پیپلزپارٹی بلاول سے منسوب ہے۔
چیزوں کو ذہن نشین رکھنے کاآسان طریقہ یہ ہے کہ انہیں جگہوں
اورلوگوں سے منسوب کردیاجائے ۔ جیسے
پشاوری قہوہ، سندھی بریانی، وزیرآبادی چھریاں، ملتانی سوہن حلوہ، کشمیری شال، بنارسی
ساڑھیاں، پشاوری چپل اور سیالکوٹی مُنڈے۔ذہن نشینی کا یہ کلچر عربی حسب ونسب جیسا ہے۔جہاں بچوں کو ابنِ فلاں اوربنتِ
فلاں کی کُنیت سے پہچانا جاتا ہے۔لیکن تہذیبِ جدید نے ہر چیز مٹکے میں ڈال کرمدھانی چلا دی
ہے۔ایک ملغوبہ سا بن گیا ہے ۔ بلاول اب سیاسی طورپربھٹو اور خاندانی طور پرزرداری ہیں۔ بیگم نوازش کےعلی سلیم کی طرح۔ بلکہ ایرانی
ملکہ کی طرح۔جو مونچھ رکھ کرزچگی کےعمل سےمردانہ وار گذرتی
رہیں۔مرید تو کہتا ہے کہ ماضی میں نسوانی ادب ۔نرگسیت کا شکار نہیں
تھا۔خواتین شاعرات کا پرانا کلام حتی کہ ان کےتخلص بھی مذکرتھے۔البتہ پروین شاکر، نوشی گیلانی اور
فہمیدہ ریاض کی شاعری مونث تھی۔ انہوں نےشعروں
اور تخلص کو مرد کی حاکمیت سےآزاد کیا۔آج
کی خواتین شاعرات ۔نرگسیت کا شکار ہیں۔وہ اپنی فیورٹ ہیں۔ان کی مونچھیں بھی بلاول جیسی ہیں۔
یہ حسین اتفاق ہے کہ بلاول نے سندھ سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو خیبر پختونخواہ نے خواجہ سراؤں کو ووٹ ڈالنے کا حق دے دیا ۔بِلو رانی پہلی بار الیکشن لڑے گی اور ’’بِلوراجے‘‘ پہلی
بار ووٹ ڈالیں گے۔این اے 207 لاڑکانہ بے نظیر بھٹو کی آبائی سیٹ ہے۔جس پرابھی تک بلاول کی
پھوپھی فریال تالپور بیٹھی ہیں۔ بی بی فریال نے ایک جلسے میں بھٹو خاندان
کی شہادتیں گنوائیں تو فر ط جذبات میں بلاول کو بھی شہید کہہ دیا ۔ بلاول اسی سیٹ پر الیکشن لڑ کر ثابت کریں گے کہ شہید
زندہ ہوتے ہیں۔وہ پہلے عوامی
خدمت اور پھر شادی کرنا چاہتے ہیں۔ کہتے ہیں۔ 2018 میں پاکستان
کے صدر زرداری ہوں گے اور۔ وزیراعظم میں بنوں گا۔مرید کہتا ہے کہ پچھلی بار صدر
۔زرداری نے قوم کی جتنی خدمت کی تھی۔وہ قرض ابھی تک ادا کیا جا رہا ہے۔وہ ایسا دور تھا جب
ملکی سیاست میں سیاستدانوں کے بجائے ایک
غیر سیاسی جانور مشہور ہوا۔ ایک زرداری سچ میں سب پر بھاری ثابت
ہوئے۔بھٹواچھے خاصے زندہ تھے۔انہیں ہر گھر
سے نکال کردفن کر دیا گیا۔بلاول آج پھر زندہ بھٹو کا معجزہ چاہتے ہیں ۔لیکن پی
ٹی آئی کے رہنما فیاض چوہان کہتے ہیں کہ
بلاول وہ شُرلی ہے جو آسمان کے بجائے زمین پر ہی گھومتی رہتی ہے۔
شرلیاں
عموما شادی پردلہے والے چلاتے ہیں۔لیکن شادی کے بعددلہن چلاتی ہے اوردلہے چیختے
چلاتے ہیں۔بلاول بھی شرلیاں چلانا چاہتے ہیں ۔مگرکہتے ہیں ۔’’میری دلہن وہ بنے گی جو بختاور اور آصفہ کو
قبول ہوگی ۔جوبھی عورت میری دلہن بنے گی اُسےذمہ داریاں نبھانا مشکل ہوگا‘‘۔معروف
آسٹرولوجسٹ سامعہ خان کہتی ہیں کہ ’’
عمران خان کی طرح بلاول کے زائچے میں بھی
شادی نبھانا مشکل ہے ۔وہ۔پرائیوسی میں
مداخلت نہیں چاہتے۔ ایک سے زائد شادیاں کر سکتے ہیں۔انہیں 2019 سے پہلے شادی نہیں کرنی
چاہیے۔
لڑکا( نجومی سے):میرے لئے خالہ زاد
اور چچا زادکےرشتے آئے ہیں ۔میری شادی کس سےہوگی۔خوش قسمت کون ہوگی۔؟
نجومی:تمہاری شادی خالہ زاد سے ہو
گی۔اورچچا زاد خوش قسمت ہوگی۔
سامعہ کی بات کو سچ
مان لیا جائے تو شادی سے بچ جانے والی
لڑکی خوش قسمت رہے گی۔مرید کہتا ہے
کہ بلاول کی جس سے بھی شادی ہوئی ۔ دلہن کا فیورٹ گانا ۔’’بلو رانی کہو تو ابھی جان دے دوں‘‘۔ ہو سکتا
ہے۔ بلاول ۔امیچور بھی ہے اور پری میچور بھی ۔عمر کی حد کی وجہ سے وہ جلد وزیر اعظم نہیں بن سکتے البتہ مولانا شیرانی نےعائلی
قوانین میں رعایت کر دی ہے ۔وہ شوہر ضرور بن سکتے ہیں۔
پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے ایک بار کہا تھا ’’
میں پیتا ہوں مگر تھوڑی سی‘‘۔سندھ کے مہہ کدے آج بھی اسی امید پرقائم ہیں۔
کیونکہ سندھ میں بھٹو آج بھی زندہ ہے۔مرید
کہتا ہے کہ شراب پی کر انسان اول فول باتیں کرتا
ہے۔ ملک کا اگلا وزیر اعظم بننے کا اعلان ۔۔بھی کسی رام رنگی۔اثر کی وجہ سے ہے۔سندھ
ہائی کورٹ اسی لئے مہہ کدے بند
کرا نا چاہتی ہے۔اورمرحوم۔مخدوم امین فہیم نےایک
بارکہا تھا کہ بلاول ۔دوسری بے نظیر ثابت ہو گا۔میری ماں کوبھی بلاول۔ میں بے
نظیر دکھتی ہے۔شیخ رشید کووہ بِلو رانی لگتا ہے ۔وہ سیاسی طور
پر بھٹو ہے اور خاندانی طور پر زردای۔ ہماری مونچھیں بھی ایک جیسی ہیں۔گویا وہ بِلو اور بلُو کا ملغوبہ
ہے۔شائد بِلو بنت زرداری۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں