دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے
ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے
یہ غزل جانےنذیر
قیصر کی ہے یا قیصر الجعفری کی۔پہلاشعر
میں نے کئی بار سنا اورہربارسوچا کہ
دیواروں سے باتیں کیسے کی جاسکتی ہیں اورپھر یہ اچھی
کیسے لگ سکتی ہیں۔اس قبیل کے لوگو ں پر مجھے پاگل والا دوسرا مصرعہ زیادہ
فٹ ہوتا نظر آتا تھا۔دیواروں کے کان ہوتے ہیں یہ مفروضہ اگر درست مان لیا جائے توغزل کا پہلامصرعہ لغوی معنی میں سچا
ہوسکتاہےلیکن سوال یہ ہےکہ کیاسنتی
دیواریں۔گونگی ہوتی ہیں۔حواس خمسہ کےباقی خواص ان کےپاس کیوں نہیں ہوتے ۔؟
میڈیکل سائنس گواہ ہے کہ ہر وہ چیز جو سنتی ہے وہ زندہ ہے۔یوں تو پھردیوارں میں بھی زندگی کی علامت موجود ہے۔انسانی تاریخ ایسی فصیلوں سے بھری پڑی ہے جہاں پر نظریہ
ضرورت نے دیوار کو جنم دیااور دیواروں نے زندگی دی۔ سنتی دیواروں کے بعد انسانوں اور
املاک کا تحفظ دیواروں کی دوسری خوبی بھی ہے اور اُن کے زندہ ہونے کی دوسری گواہی بھی۔اور دیواروں کی زندگی کا میرے پاس تیسرا ثبوت بھی ہے۔وہ ہے بولتی بلکہ
چیختی دیواریں۔ ’’ظالمو جواب دو ۔خون سے انقلاب
آئے گا۔گو نواز گو۔ رو عمران رو۔دلہن ہم سے تیار کروائیں ۔مرد کبھی بوڑھا نہیں ہوتا ۔محبوب
آپ کے قدموں میں ۔ساس کوقابو کریں ۔ شوہر کو راہ راست پر لائیں ۔کیل مہاسے ،
چھائیوں کا خاتمہ ۔ کوڑا پھینکا منع ہے۔کتے کا بچہ پشاب کر رہا ہے۔ بظاہر یہ ساری بازاری گفتگوہے لیکن یہ دیواری گفتگو بھی ہے ۔
دنیا
بھر میں تہذیبی ارتقا کے ساتھ ہی محافظ دیوار کے تصور نے جنم لے لیا تھا۔مصر ،
میسوپوٹیمیا، چین اور انڈس ویلی ۔ ہر قدیم تہذیب میں بھی دیوار موجود تھی اور جدید میں بھی ہے۔ جنوبی کروشیا میں’’سٹون
کی دیوار‘‘ کی تعمیر کامقصد بھی شہری دفاع
تھا اور ترکی میں واقع افسانوی شہر ٹرائے کی دیوار۔کا مطلب بھی دفاع تھا۔دیوار برلن ۔نفرتی دیوار تھی ۔اور۔دیوار گریہ مذہبی دیوار ہے ۔یہودیوں
کی اہم مذہبی یادگار ۔جس کی تاریخ ہیکل سلیمانی سے جا ملتی ہے ۔مسلمان اسے دیوارِ براق کہتے ہیں۔شب معراج آقائے دو جہاں کی سواری براق یہیں آ کر رکی
تھی ۔21ہزار196 کلو میٹر طویل دیوار چین دنیا کی سب سے لمبی دیوار ہے مقصد اس کا بھی بیرونی حملہ آوروں سے
حفاظت ہی تھا۔بشکریہ گوگل ۔
دیواریں سامنے سےتو حفاظتی لگتی ہیں لیکن پس دیوار کیا ہوتا
ہے۔؟ اس کو سمجھناہےتومعروف صحافی، سیاستدان
اور خطیب آغا شورش کاشمیری کی کتاب ’’پس
دیوار زنداں ‘‘پڑھ لیں۔ تحریک آزادی کے دوران اس بے تیغ مجاہد کوجو ستم سہنے پڑے وہ الفاظ میں سمیٹے نہیں
جا سکتے۔غلامی سے نفرت آغاصاحب
کا وہ جرم تھا جو انہوں نے کئی بار کیا اور جیل یاترا کا تمغہ ہر بار سینے پرسجایا لیکن ناخداوں
سے رہائی کی بھیک نہیں مانگی۔ناصر کاظمی
نے ’’
گھر کی دیواروں پر اداسی ناصر ۔۔بال کھولےسو رہی ہے‘‘۔والا شعر شائدانہی کے لئے ہی تھا۔آغا صاحب لکھتے
ہیں ’’ میں نے اس تنگ دستی
بلکہ فاقہ مستی کے زمانے میں بھی اپنا ہاتھ کسی شخص، ادارے یا فرد کے سامنے
نہ پھیلا اور آج جب ان دنوں کی غیرت مندی کا خیال آتا ہے تو جی خوش ہو ا ہے کہ
قدرت کاملہ انسان کو کیسی کیسی مشکلوں سے نکال کر لے جا تی ہے۔ گز ر بسر کا یہ حال
تھا کہ روٹی گھر سے کھاتا ، پکڑا جھوٹا مل جاتا ، جیب خرچ تھا نہیں کچھ لوگ
اشتہاروں کے مضمون لکھوا لیتے جس سے سفید پوشی کا بھرم قائم تھا ‘‘۔ غزل کا دوسرا
شعر ہے ۔
اس بستی میں کون ہمارے آنسو پونچھے گا
جس کو دیکھو اس کا دامن بھیگا لگتا ہے
جس کو دیکھو اس کا دامن بھیگا لگتا ہے
شورش اگر آج زندہ بھی
ہوتے تو بھی کسی سے مہربانی کی توقع نہ رکھتے ۔مہربانی کے اندر ایسااعتراف احسان
مدفن ہے جوکسی شورش کے لئے قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ سالوں سے ہمارے اور خواص کے درمیان
نفرت کی ۔ دیوار چین کھڑی ہے لیکن دیواریں
اب گرنے لگے ہیں ۔ایران کے شہر مشہدمیں پہلی دیوار مہربانی کی بنیاد رکھ دی گئی
ہے۔دیوار
کے قریب انجان لوگ روز مرہ استعمال کی وہ
چیزیں چھوڑکرجاتے ہیں جن کی انہیں مزید ضرورت نہیں ہوتی اورضرورت مندوہ انمول اشیا
بے مول لے جاتے ہیں۔لباس،لحاف،کھانا پینا اور جوتے وغیرہ سب دیوارمہربانی پر رکھا
نظر آتا ہے۔تپتی سردی میں جب دیوار
مہربانی نے لوگوں کو گرم ملبوسات اور
کھانا دیا تو بہت سے لوگوں کو زندگی ملی۔یہ توسبھی جانتے ہیں کہ کوئی بے جان۔کسی جاندارکو زندہ نہیں کرسکتا ۔دیوار
کے زندہ ہونے کا یہ چوتھا ثبوت ہے۔دیوارپھرتہران سے دنیابھر تک لمبی ہونے لگی۔پاکستان میں پہلی
دیوار مہربانی کراچی میں15جنوری 2016کو بنائی گئی۔پھراسلام آباد،پشاور، راولپنڈی ،
کوئٹہ، لاہور، ملتان اورفیصل آباد میں بھی
دیواریں بن گئیں۔جہاں ضرورت مند اب ہاتھ پھیلانے کے بجائے ہاتھ بڑھا کر
اپنی ضرورت کی چیز لے جاتے ہیں ۔بالکل غزل کےتیسرےشعر کی طرح ۔
دنیا بھر کی یادیں ہم سے ملنے آتی ہیں
شام ڈھلے اس سُونے گھر میں میلہ لگتا ہے
شام ڈھلے اس سُونے گھر میں میلہ لگتا ہے
امریکی شاعررابرٹ فراسٹ کی نظم Mending walls کاآخری مصرعہ ہے۔good fences make good neighbours۔جس
کالغوی مطلب ہےکہ’’اچھی دیواریں۔اچھے ہمسائیوں کی ضمانت ہیں‘‘۔اردو ادب
کایہ شعر’’دیوارکیا گری میرے کچے مکان کی۔لوگوں نےمیرےصحن میں رستے بنالئے‘‘ْبھی فراسٹ کےمکتب فکر جیسا ہی ہے۔معروف
مزاح نگار انورمقصود سےکسی نے پوچھا۔
سیاستدانوں کوکیسے چننا چاہیے۔وہ بولے جیسے اکبر نے انارکلی کو
چنا تھا۔ انورمقصودکےنظرئیے سے میں تواتفاق
کرتاہوں کیونکہ پاکستان کا موجودہ سیاسی نظام حاکموں اورمحکموں کےدرمیان ایسی
دیوارہے۔جس میں ہلاکو
خانوں نےمحکوم دیوارکےساتھ لگا رکھے ہیں اورحاکموں کےسر کھوپڑیوں کے میناروں کی طرح دیواروں کےاوپرسے جھانک رہے ہیں۔
اقتدارکےایوانوں کی فصیلیں تودیوارگریہ ہیں۔جن کےسامنےرویاتوجاسکتا ہےلیکن فائدہ کچھ نہیں ہوسکتا۔مظاہرین جوبھی چیخیں
۔حاکموں کوعبرانی زبان میں سنائی دیتا ہے۔ایسےمیں دیوارمہربانی کی بنیادرکھ دی گئی ہے یہ دیوارایسا
جذبہ ہےجس نےنفرت کوٹھوکر ماری ہے۔ممکن ہے
’’قیصروقصری‘‘کےمحلوں میں دراڑیں نہ
پڑیں اورغربت بھی ختم
نہ ہو۔لیکن یہ سوچ اس سماجی شعورکی طرف اشارہ ہےجومعاشروں کوبیداری اورانقلاب
فرانس کی طرف لے جاتا ہےاورغزل کا آخری شعر ہے۔
کس کو پتھر ماریں قیصرؔ کون پرایا ہے
شیش محل میں ہر اک چہرہ اپنا لگتا ہے
شیش محل میں ہر اک چہرہ اپنا لگتا ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں