پیر، 28 دسمبر، 2015

حلال اشتہار ۔؟

وزیراعلی پنجاب شہباز شریف صوبے کے بہت سے انتظامی امور میں شہرت کی حد تک بدنام ہیں ۔ 2013 کےانتخابات سے قبل انہوں نے اقتدار میں آکر بجلی کی   لوڈشیڈنگ ختم کرنےکے درجنوں اعلانات کئے ہر اعلان میں  نئی تاریخ دی۔ شریفوں کی یہ تقریریں شریکوں کے ہاتھ لگیں تو انہوں نے اکھٹی کرکے ایسا اشتہار بنا کر ٹی وی پر چلایا جو دیکھ اور سن کر دشمنِ جاں کو کافی مزا آیا۔ میٹرو بس کی لائن میں کھڑے ہو کر ٹکٹ لینا۔ سیاحتی بس کا ٹکٹ لینے کے لئے خواجہ حسان سے 200 روپے ادھار لینا۔ہیلی کاپٹر سے اُتر کر موٹر سائیکل پر بیٹھ جانا۔چینی وزیر اعظم کے سامنے میاں نواز شریف کو انگریزی پڑھانا اور بارشی پانی میں لمبے بوٹ پہن کر گھس جانا۔دشمنوں کے پاس نئے اشتہار بنانے کا مناسب مواد اب بھی موجود ہے۔ ؟

جمعہ، 25 دسمبر، 2015

کون بنے گا کروڑ پتی ۔؟

کون بنےگاکروڑ پتی جسےمختصر الفاظ میں کے بی سی بھی کہتے ہیں۔انڈین ٹی وی  کا وہ پروگرام ہےجویہاں بھی یکساں مقبو ل ہے۔پروگرام کےمیزبان فلم سٹار امیتابھ بچن ہوتے ہیں۔کےبی سی کھیلنے والےامیدوارسے13سوال پوچھے جاتے ہیں۔جواب 45 سیکنڈمیں دینا ہوتا ہے۔ گھڑی کی  ٹِک ٹِک بجتے ہی سکرین پراے، بی،سی اور ڈی۔4آپشن نمودارہوتے ہیں۔میزبان  ہاٹ سیٹ سےآنے والاہرجوابسُن کرپوچھتاہےلاک کر دیا جائے۔؟ امیدوارجیت جائےتوکروڑپتی بن کرگھرجاتاہے۔ انعامی رقم 7کروڑ روپےتک پہنچ چکی ہے۔

ہفتہ، 19 دسمبر، 2015

دہی بھلے آرڈیننس۔!

1946 میں بانی پاکستان کی تحریک پر۔دو  کارباوری شخصیات  احمداصفحانی اورآدم جی  نےکلکتہ میں اورینٹ ائیرویز نامی فضائی کمپنی رجسٹرڈ کروائی۔قیام  آزادی کےوقت اسی اکلوتی مسلم فضائی کمپنی نےریلیف آپریشن کیا۔1955میں اورینٹ ائیر ویز۔پی آئی اےمیں بدل گئی۔اختیارات سرکار نےسنبھال لئے۔یہ نجی شعبہ جب دولت مندوں سےنکل کرسرکاری تحویل میں آیا توبہت عروج  آیا۔ باکما ل لوگ۔ لاجواب سروس کی عملی شکل۔ میں اکثرسوچتا تھا اسٹیج ایکٹرمرحوم مستانہ۔پرفارمینس کےدوران ائیرپورٹ انکوائری پرفون کرکے کیوں پوچھتے ہیں۔لاہور فلائیٹ کتنےبجے جانی ہے۔؟ کراچی کتنے بجے۔؟اور کوئٹہ کا کیاٹائم ہے۔؟ انکوائری نےجواب دےکرپوچھا۔سرآپ نے کہاں  جاناہے۔؟
مستانہ:جانا جُونا کہیں نہیں۔بھائی میں نےتو کبوتر چھوڑنے ہیں۔

پیر، 14 دسمبر، 2015

چندا برائے اراکین اسمبلی

ہمتقریبا کوپورا تصور کرتے ہیں اورشک کوسچ سمجھتے ہیں۔ جب سے پیدا ہوئےگذارا۔مانگےتانگے پرہے۔پیدا ہوئے تو مانگ کردائیہ کوٹیکس  دیااورکوئی مرا توشریکے کوننگا  پیٹ دکھا  کرکفن دفن  کرلیا۔بیٹے کی شادی رکھ لی تو ادھار اٹھا کر کوٹھا بنایا اوربیٹی کی شادی کی توبال بال قرضے میں ڈبوکرجہیز اکھٹا  کیا۔زندگی ایسے ہی چل رہی ہے اورصدشُکرکہ اچھی خاصی چل رہی ہے۔کہتے ہیں کہ ادھارمحبت کی قینچی ہے اوربہت ہی کم لوگ ہیں جو محبت کی  قینچی کےبغیر زندگی گذرا رہے ہیں۔ وگرنہ اُدھارنےمحبت کو کاٹ کاٹ  کرمقروض  اورمخیرکوواہگہ بارڈرجیسی آپسی دُشمنی پرلا کھڑا کیا ہے۔لوگ تو اُدھارمیں  روپیہ پیسہ مانگتے ہیں لیکن  اعتبارساجدتو کچھ اور ہی مانگتے ہیں۔

بدھ، 9 دسمبر، 2015

موک اسٹوڈیو ۔۔۔!

شہروں ہوں یا دیہات  پھیری لگا کرخوانچے اٹھا کرکچھ نہ کچھ  بیچنے  والوں کی  پھیریاں  اکثر  سنائی دیتی رہتی ہیں۔دیہاتوں میں گلی گلی پھیری لگانے سے کہیں بہترسمجھا جا تا ہے کہ’’ پھیرو‘‘مسجد میں جا کر اعلان کروا  دے  اور سارا  پِنڈ اعلان سن کر  اکھٹا ہو کرخریداری کرنے پہنچ جاتا ہے۔حتی کہ پنڈ کے قصائی کٹا ذبحہ کرکے بھی مساجد سے اعلان کرواتے ہیں۔لیکن شہروں میں حالات قدرے مختلف ہوتے ہیں۔یہاں پر کُلفی  ، آئس کریم  ، پاپ کارن ، آلو چھولے اور چھلی ، حتی کہ کلچے۔ ہر چیز گلی میں آکر بکتی ہے۔ بچپن میں ہماری گلی میں  اکثر آواز آتی تھی۔

ہفتہ، 5 دسمبر، 2015

ایان علی ہم شرمندہ ہیں۔۔ !

غدر کےبعدمرزا غالبپکڑے  گئے۔انہیں  جب  کمانڈنگ آفیسرکے سامنے پیش کیا گیا توکرنل براؤن نےپوچھا:ویل۔ٹُم مسلمان ہے؟
مرزا: جناب۔ آدھا مسلمان ہوں۔
کرنل : کیا مطلب؟
مرزا : جناب شراب پیتا ہوں۔ سؤر نہیں کھاتا۔کرنل  ہنس پڑا اور مرزا کو چھوڑ دیا۔
میں یقین سےنہیں کہہ سکتا کہ  کرنل نے جس حق حاکمیت کو استعمال کرکےمرزاکوجانے دیا۔ مرزا کی حس لطافت اس کی وجہ بنی یا  پینے پلانے کااعتراف۔لیکن   مرزاغالب کےایسے ہی درجنوں قصے ان کے شعروں کی طرح مقبول عام  ہیں۔عاشقان ِمرزا جانتے ہیں کہ وہ  رج کے پیتے تھے۔شراب مرزا کے  حواس اور کلام  دونوں پر غالب تھی لیکن غالب کا  ادبی احترام آج بھی برابر۔ برقرار ہے کیونکہ  احترام ۔کوئی  پٹرولیم پراڈکٹ نہیں وگرنہ  اب تک تو اوگرا۔ اتار چڑھاوکر چکا ہوتا ۔بقول مرز ا۔
کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
شر م تم   کو  مگر نہیں  آتی ۔

منگل، 1 دسمبر، 2015

ساس برائے فروخت ۔!

شاعر مشرق نے کہا تھا ۔
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑی بے ادب ہو ں سزا چاہتاہوں
پنجابی کہاوت ہے کہ ’’یار ۔یاراں دیاں بانہواں ہوندے نیں ‘‘(دوست ۔دوستوں کے بازو ہوتے ہیں)۔انہی بازو ں کے ساتھ دوست  اپنے  رازوں کا تبادلہ کر بیٹھتے ہیں حتی کہ ازدواجی راز ۔ اور خانگی جھگڑے بھی اُنہیں پتہ ہوتے ہیں۔حالانکہ ازدواجی راز سٹیٹ سیکرٹ ہوتے ہیں ۔ناقابل  شیئر ۔ یاروں کی  کئی اقسام ہوتی  ہیں۔۔جن میں یار مارکا درجہ اعلی ترین ہوتا ہے۔۔علامہ اقبال کے شعر  کی چلتی پھرتی تفسیر۔۔
رازدار:یارتمہیں برا نہیں لگتا  ، بیوی کے ساتھ مل کر کپڑے دھلواتے ہو۔؟
یار:  بُراکیوں۔؟ وہ بھی میرے ساتھ مل کر برتن دھوتی ہے۔

جمعہ، 27 نومبر، 2015

ہندوستان چھوڑ دو۔۔!

خلافت ۔خلفائےراشدین کےبعدبنوامیہ اوربنوعباس سے ہوتی ہوئی ترکی میں عثمانی خاندان کو منتقل ہوئی تھی۔پہلی جنگ عظیم میں ترکی نےجرمنی کا ساتھ دیا تو ہندوستانی مسلمان  پریشان تھےکہ  اگر جرمنی ہارگیا تو خلافت کا شیرازہ بکھر جائے گااورپھر جرمنی ہار گیا ۔برطانیہ بدلے لینےپر اترآیا۔ ہندوستان پر  پہلے ہی انگریز کا راج تھا۔مسلمانوں  نے خلافت بچانے کے لئے تحریک خلافت کی بنیاد رکھی،پھرتحریک ترک موالات (عدم تعاون)نےجنم لیا۔حکومتی خطابات واپس کر دئیے گئے ۔  1920میں علمانےمسلمانوں کو ہجرت  کا مشورہ دیا ۔ہزاروںمسلمان جانی اور مالی نقصان برداشت کرکےافغانستان ہجرت کر گئے۔مصطفی کمال پاشا نے اچانک ترکی میں اپنی صدارت کا اعلان کردیا۔تحریک کو شدید دھچکا لگا اور خلافت بھی دم توڑ گئی ۔

پیر، 23 نومبر، 2015

عمر اکمل ڈانس اکیڈمی

سردارجی بہکی بہکی باتیں کررہے تھے۔دوستوں نے پوچھا۔ سردار جی شراب پی رکھی ہے۔؟
سردارجی۔ نہیں ابھی لینے بھیجا ہے۔۔
شراب ایسا مشروب ہے۔جسے نوش کرنے کا الزام کسی شخص پر لگ جائے تو پولیس  موقع پر ہی ابتدائی ٹیسٹ کر لیتی ہے  منہ سونگھ کر۔شرابی  ٹیسٹ میں پاس ہو جائے دوسرا ٹیسٹ  ہسپتال میں ہوتا ہے جہاں پر ڈاکٹر زمین پر ایک لکیر کھینچ دیتے ہیں  یہ لکیر لائن آف کنٹرول جیسی ہوتی ہے۔۔ذرا سا قدم  لُڑکھا تو کھوکھرا پار۔شرابی  دوسرا ٹیسٹ بھی  پاس کرلےتو پھر تیسرے ٹیسٹ میں خون کے نمونے لئے جاتے ہیں۔۔ پہلے ٹیسٹ کے دوران شرابی کے منہ کی  بدبو۔اور۔ بعض پولیس اہلکار وں کے منہ کی بدبو ایک جیسی ہوتی ہے ۔ اسی لئے پہلے ٹیسٹ میں شرابی کو فیل قرار دے کر گھر جانے دیا جاتا ہے۔ تھانے لے بھی جائیں تو ایسے معاملات پر ایس ایچ اوہمیشہ قانون کو ہاتھ میں رکھتے ہیں۔

جمعہ، 13 نومبر، 2015

رانا ثنا اللہ مونچھوں کا خیال رکھیں ۔!

پنجابی کی ایک کہاوت ہے کہ چھج تاں بولے چھاننی کیوں بولے۔۔چھج پتلی کانیوں کا بنا ہوا ایسا برتن ہے  جس میں چھیدتو نہیں ہوتے لیکن کانیوں کے درمیان خلاہوتا ہے۔چھج گندم وغیرہ چھاننےکےکام آتا ہےاورچھاننی  میں ہزاروں چھید ہوتے ہیں جس سے عموما  آٹاچھانا جاتا ہے۔چھج میں اچھی  کوالٹی کی گندم اوپر بچ جاتی ہے اور چھاننی میں  اعلی کوالٹی آٹا چھن کر نیچے پرآت میں جمع ہوتا ہے۔۔ پچھلے دنوں وزیر مملکت عابد شیر علی نے صوبائی وزیر قانون  پنجاب  کے خلاف ایک بیان داغا کہ ’’رانا ثنا اللہ اپنی مونچھیں سنبھال کر رکھیں اور بیان بازی سے گریز کریں وگرنہ بات بہت دو ر تک جائے گی۔‘‘

جمعرات، 5 نومبر، 2015

سیاسی گفتگو منع ہے۔۔!

نصیبو کی شادی مئی 2013 میں ہوئی۔۔ وہ اچھی خاصی تیز طرار تھی۔۔منجھی پر بیٹھے بیٹھے اچانک کلاٹی مار لیتی۔یوگا ۔کا ۔۔متسی۔۔ بھوجنگ۔اور پہیہ۔۔سمیت بہت سے آسن کی  مشق  وہ با آسانی کرلیتی تھی۔لیکن اس کی کزنز’’ ٹوٹلی‘‘ ان پڑھ تھیں۔کورس میں گڑوی  بجانے والی ۔۔  انہیں  گمنامی سےشہرت تک پہنچنےکےلئے مرحوم سلیم گیلانی جیسے براڈ کاسٹر کی تلاش  ہے۔  وہ روزانہ انگلیوں میں سکہ پھساکر گڑوی کا تھلہ نئے نئے ڈھنگ سے  بجانے کی ریہرسل کرتی ہیں لیکن  آج کل  خاصی پریشان  ہیں کیونکہ ٹی وی چینلز کا فوکس انہی کی جاتی سے تعلق رکھنے والی  شادرا۔ لاہور کی رہائشی جسٹن گرلز ہیں ۔۔ گڑوی کزنز کو بھی سکہ گری کا ہر فن آتا تھا  ۔بلکہ  وہ تان توڑ کر جب کوئی نئی  لے  پکڑتی تو    کانوں میں لٹکے چاندی کے جھمکے چھمکیں مارتے ، ہلکے ہلکے ہلکورے لیتے  اور ساتھ  نِمے نِمے کولہے بھی مٹکتے۔۔ گڑوی،  سُر، جھمکے اور کولہے  یہ نئی  صنف انہی کزنز نے متعارف کروائی تھی۔ سننے والوں پر سحر یوں طاری ہو جاتا گویا کسی سنپولئے نے بین ناچتے دیکھ لی ہو۔

منگل، 27 اکتوبر، 2015

لائل پور کا امام دین گجراتی

غیر پارلیمانی الفاظ خالصتا پارلیمانی اصطلاح  ہے لیکن یہ اصطلاح ایسی گفتگو سے منسوب ہے۔جسے سن کر سامعین کھسیانے ہو جائیں اور پڑھ کر کوک شاستر کا گمان ہو۔پارلیمان ویسے تو عوام کے منتخب نمائندوں کا ایسا ہاوس ہوتا ہے جہاں وہ جمع ہوکر ایسی باتیں کرتے ہیں جوکھلے عام جلسوں، جلوسوں اورٹاک شوز میں نہیں کی جاتیں۔یا نہیں کی جا سکتیں۔ایسی باتیں جن کے سننے والے ویسے ہی ہوتے ہیں جیسےکرنے والے۔۔پارلیمان چونکہ مقدس ادارے ہے اس لئے وہاں پر غیر پارلیمانی باتوں کی گنجائش نہیں۔۔اگر ہوجائیں کارروائی سے حذف کر دی جاتی ہیں۔۔۔لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ گفتاروں کے خلاف ضابطے کی کوئی کارروائی بھی ہو۔۔
البتہ غیر پارلیمانی الفاظ کا استعمال اگر تھرڈ ڈگری تک جا پہنچے تو ان کے خالق کو بھرے ایوان میں مجبور کرکے اپنے الفاظ واپس لینے کا تکلف ضرور کیا جاتا ہے۔۔الفاظ واپس لینے کا تکلف بھی خاصا پُر تکلف ہوتا ہے یعنی اگر کسی ممبر نے کہہ دیا کہ’’فلاں آدمی گدھا ہے‘‘ اور یہ الفاظ واپس لینے ہوں تو وہ کہے گا ’’فلاں آدمی گدھا نہیں ہے‘‘

ہفتہ، 17 اکتوبر، 2015

ن لیگ کا بلدیاتی شیر ہیجڑا ہے۔۔ ؟

پچھلےدنوں بھکرسےنمائندہ ایکسپریس نیوز۔وجیہہ اللہ نیازی نے سوشل میڈیا پر ن لیگ کے بلدیاتی رہنماووں کی ایک تصویر share کی جس میں کاتب کی غلطی نے’’نامزد ‘‘امیدوار کو ’’نامرد‘‘ بنا دیا تھا۔۔بلدیاتی امیدواروں نے وہ فلیکس ایک سرکاری گاڑی پر لگا رکھی تھی اور جملہ تھا’’مسلم لیگ ن کےنامردامیدوار‘‘۔مجھے ڈاکٹر یونس بٹ کی شیطانیاں یاد آگئیں۔
’’کالج الیکشن میں ایک بار میرے مقابلے میں لڑکی امیدوارتھی، میں نے ایک نقلی چھپکلی اس کے پرس میں رکھ دی۔ جب وہ ڈائس پر آئی اور تقریرنکالنے کے لئے پرس میں ہاتھ ڈالا توچھپکلی بار نکل آئی اور وہ غش کھا کر گرگئی۔۔اس ظالم نے بدلہ یوں لیا کہ میرے الیکشن والے پوسٹروں پر راتوں رات، جہاں جہاں نامزد لکھا تھا۔ وہاں وہاں سے ’’ز‘‘ کا نقطہ اُڑا دیا۔یعنی کہ ”نامرد امیدوار”۔ میں آج تک اس کی ’’سیاسی بصیرت‘‘ پر حیران ہوں۔اقتباس

ہفتہ، 10 اکتوبر، 2015

پٹوارکلچرالوداع

گئے دنوں کی بات ہے فیصل آباد میں ایک ڈپٹی ڈائریکٹر ڈی جی پی آر عابد کمالوی تعینات تھے۔ جن کی اپنے ماتحت موجودہ ڈپٹی ڈائریکٹر سبحان ملک سے ایسی دوستی تھی جسے ہم جیسے دوست لڑائی سمجھتے تھے ۔۔ اس سرد جنگ کا بھانڈا ۔قمر بخاری پی آ ر او ۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد نے پھوڑا تھا۔۔ ایک بار عابد کمالوی علیل ہو گئے اور قمر بخاری عیادت کے لئے پہنچ گئے ۔
قمر بخاری:کمالوی صاحب کیسی طبیعت ہے ۔؟
کمالوی:بس ۔بخاری صاحب کسی پل چین نہیں پڑتا۔
بخاری :دوائی وغیرہ لی۔ ؟
کمالوی:جی روزانہ پھکا مارتا ہوں۔۔پھربھی فرق نہیں۔
بخاری : آپ صبح شام ’’یاسبحان‘‘ کی تسبیح کیا کریں
قمر بخاری کے اس غیر طبی مشور ے پر کمالوی صاحب کی جو کیفیت تھی وہ مزید بیان نہیں کی جا سکتی ۔۔ کیونکہ قمر بخاری کےیا سبحان کا مطلب ۔۔ سبحان ملک تھا۔

ہفتہ، 3 اکتوبر، 2015

مودی گردی بند کرو۔۔!


محلوں میں عموما ایسی خواتین ہوتی ہیں جن کے پیروں میں موٹر لگی ہوتی ہے۔۔ وہ سُو لینے کے لئے ہر گھر کی خاک چھانتی ہیں۔۔ محلے دار خواتین اُسے ماسی کہتی ہیں اور۔ ماسی سے وہ ایسی باتیں بھی با آسانی کرلیتی ہیں جو شوہر کے ساتھ کرنے سے بھی ہچکچاتی ہیں۔لیکن ماسی سب جانتی ہے  کہ کون سی بات اگلے گھر جاکر بتانی ہے۔خصوصا شریکے میں ۔۔محلے کے شرفا ایسی ماسیوں سے پرہیز کرتے ہیں۔د روازے بند رکھتے ہیں اور نظر آجائے تو راستہ بدل لیتے ہیں۔آج کل یہاں شریفوں کا دور ہے لیکن ۔میں چونکہ غیر شریف ہوں اس لئے ماسی سرا ہ مل جائے تو سلاما ۔علیکی ہو جاتی ہے۔ماسیوں کے پاس محلے کے ہر گھر کی زچگی سے لے کربستر مرگ تک۔۔کنجوسی سے لے کر کمیٹی تک۔۔ رشتوں سے طلاق تک۔۔ٹوٹی پیالیوں اور نئی چارپائیوں تک سمیت ہر چیز کا علم ہوتا ہے۔۔ ہرماسی کا نام مختلف ہوتا ہے ۔۔ ہمارے ہاں ماسی کانام ماسی گوگل ہے۔لیکن وہ گُگلی جیسی ہے۔۔نہ سمجھ آنے والی ۔۔پلک جھپکتے ہی پلٹنے والی۔۔ سارے محلے کی معلومات ماسی گوگل کے پاس ہوتی ہیں اور ماسی گوگل کی افواہ ساز اطلاعات سارے محلے کے پاس۔۔

جمعرات، 24 ستمبر، 2015

اپنی کھالیں جماعت اسلامی کو دیں

عید قرباں کے لئے گھر میں چھترا۔بکرا۔بچھڑا یا اونٹ بعد میں آتا ہے۔گوشت کی بکنگ پہلے شروع ہوجاتی ہے۔گوشت کی بکنگ کے لئے آنےوالےہر مستحق کی ڈیمانڈ مختلف ہوتی ہے۔لیکن ان میں ایک قدرمشترک ہوتی ہے کہ سب مریض بن کرآتے ہیں اورانہیں  ڈاکٹر نے بتایا ہوتا ہےکہ بکرے، بیڑے یا اونٹ کے گوشت کا فلاں حصہ کھاؤگےتو شفا ملے گی۔شوربا میں روٹی بھگو کرثریدبنا کر کھانا ہے۔بونگیں چاہیں۔لحمیات کی کمی ہے۔جسم کا ٹمپریچر نارمل نہیں ۔اونٹ کا  گوشت دے دیں۔بواسیرہوگئی ہے۔۔کلیجی چاہیے کیونکہ کو لیسٹرول کم ہے۔ ہڈیوں میں گودا نہیں بن رہا۔۔ دل کو تقویت دینی ہے۔گردن کا گوشت کھاناسنت ہے۔۔مجھے پائے دے دیں ۔

جمعہ، 18 ستمبر، 2015

ہرکوئی گائے کے گن گائے

نصیبو آج پھر اپنےشوہر  شیخ مرید سے روٹھ کر میکے چلی آئی۔کچھڑ میں دو ما ہ کا مُنا شیخ تھا۔ ماں  اُسے جب بھی  ناراضی کی وجہ پوچھتی تو نصیبو کے روٹھنے کا جوازانتہائی دلچسپ ہوتا۔یہ جواب نصیبو کےلئےدکھ بھراتوہوتاتھا لیکن  سننےوالےکی بکھیاں ہس ہس دوہری ہوجاتیں۔ اس بارکا جواب توانتہائی۔ لاجواب تھا۔جسے سن کرروٹھا توجا سکتا تھا لیکن ہنسی روکنا ناممکن تھا۔
نصیبو:اماں کیا بتاؤں۔۔
اماں:اچھا ۔؟چل پھر رہنے دے ۔!
نصیبو:اماں تُوبھی کہیں۔ اُس نگوڑے کے ساتھ تو نہیں مل گئی۔؟
اماں:ہائے اللہ رحم کرے۔تیرا نصیب اچھا کرے۔اچھا اب بتا بھی دے ۔؟
نصیبو:یہ پاجی۔بہت ستاتا ہے۔گجنی کےسنجےسنگھانیا کی طرح اس کا حافظہ اچانک گُم ہو جاتا ہے ۔۔ انسان اور جانورکی تمیز بھول جاتی ہے۔ابھی  کل  کی بات ہے۔ بچوں نے ضدیں کرکر کےقربانی کا بیل خریدا۔اوربیل کی سجاوٹی  چیزیں بھی ساتھ لے آئے۔اب یہ مغز بریدہ شخص ۔!مجھے کہتا ہے کہ ساری  چیزیں  تم پہن کر دکھاؤ۔

بدھ، 16 ستمبر، 2015

سنگل کالم بکرا

زندگی میں دو ہی گھڑیاں مجھ پر گزری ہیں کٹھن
اک تیرے آنے سے پہلے،اک تیرے جانے کے بعد
یہ شعر ۔ امام دین گجراتی کا ہے ۔ انہوں نے جانےکس پیرائے میں کہا تھا لیکن ابا کا دامن چھوڑکر جب سے میں نے خود کام دھندہ شروع کیا ہے  مجھے یہ گجراتی شعر اپنا اپنا سا لگتا ہے۔ بیوی بچے ، بجلی ، گیس اور فون کے بل ، سکولوں کی فیس، دال،  روٹی ، دوا ۔۔ دارو۔اُجلے پہناوے، موبائل کے دکھلاوے، ٹمٹماتی موٹر سائیکل اور بنیادی ضروریات ۔ مجھے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ عید الفطرابھی چند روز پہلے ہی گذری تھی کہ عید الالضحی سیدھی کنپٹی پر آ کر لگی ہے۔خرچے پہ خرچہ اور عید کا چرچہ۔انتہائی کٹھن حالات۔شعر کے دوسرے مصرے
اک تیرے آنے سے پہلے ، اک تیرے جانے کے بعد ۔۔کی طرح

ہفتہ، 12 ستمبر، 2015

شیر بہ مقابلہ مئیر گروپ


گوگل پر آپ شیر علی اور مہر علی لکھ کر سرچ کریں تو فیصل آباد  کے رہائشی  دو قوال بھائیوں کا نام سامنے آتا ہے جن کا گھر  نڑوالا روڈ پر بڑے قبرستان کے قریب واقع ہے۔لوگ گھروں کے باہر ماشااللہ و غیرہ  کی تختی لگاتے ہیں ۔ انہوں نےنازک نگر کی تختی لگا رکھی ہے۔ نگر۔۔شہر،بستی  یا قصبہ کا مترادف ہے۔۔ میں نے تو آج تک بہاولنگر، احمد نگراور جوالا نگروغیرہ  کا نام سنا تھا۔ نازک نگر پہلی بار سنا اور اس کے بعد نگری بھی سامنے آگئی۔عیسی نگری۔مریم نگری اور۔ اندھیر نگری۔نازک  اور نگرکو اکھٹا کیا جائے تو اس کا مطلب ہے۔ نازک لوگوں کے رہنے کی جگہ۔۔ ممکن ہے وہ شیشے کے گھر میں  ہی رہتے ہوں گے۔۔لیکن گھروں کے نازک ہونے کا مطلب قطعی نہیں کہ انسان بھی نازک ہی ہوں گے۔
مولوی صاحب  اپنی بیوی کے ساتھ حجلہ عروسی میں بیٹھے تھے
بیوی:آج میرےکان میں کچھ نرم سا کچھ گرم سا کہو
مولوی سرگوشی کرتے ہوئے:حلوہ

بدھ، 9 ستمبر، 2015

اردو ۔اب مطلوب بھی ہے یا نہیں۔؟


تحریکیں جب ناکام ہو جائیں تو سازش  کہلاتی  ہیں اور کامیاب ہو جائیں تو انقلاب ۔۔پاکستان میں تازہ ترین انقلاب اگست 2014 میں لانے کی کوشش کی گئی ۔۔انقلاب مارچ کے ذریعے ۔۔ اسلام آباد فتح نہ ہوا تو ۔۔۔ اسے  سازش قرار  دے دیا گیا۔۔اسی انقلاب کے دوران قوم نے ملک کے اعلی ترین ادارے  کی دیوراوں پر شلواریں بال کھولے سوتے دیکھیں۔۔ملکی سیاست سے آگاہی رکھنے والوں نے ایک عدالتی اصطلاح سنی ہوگی ۔۔نظریہ ضرورت ۔۔یہ قصہ ملک کی پہلی اسمبلی کو توڑنے کا ہے۔۔جس کے سپیکر مولوی تمیز الدین تھے۔۔عدالت عظمی کے اس فیصلے کے بعد ملک میں عوام کا منتخب ہاوس  ہار گیا تھا۔ ۔انصاف نظریہ ضرورت  کو جنم دیا تھا ۔۔ریاست آدھا تیتر اور آدھا بٹیر میں بٹ گئی تھی۔ تب  اعلی ترین ادارے کی دیواروں پر شلواریں تو نہیں لٹکائی گئی تھیں لیکن منٹو کا افسانہ کالی شلوار۔ ہٹ ہو چکا تھا ۔۔۔

ہفتہ، 5 ستمبر، 2015

پاکستان کھپے ۔۔۔!


جسم پرکوئی پھنسی نکل آئے تو ہم فورا۔ڈرماٹالوجسٹ سے رجوع کرتے ہیں۔۔کیونکہ حُسن داغی ہوجائے تو مداح باغی ہو جاتے ہیں۔۔
خوبصورت رہنے کے لئے ہم لاکھ جتن کرتے ہیں۔۔ کیونکہ خوف یہ لاحق ہوتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔۔ سماجی دباؤ ہمیں وہ سب کچھ کرنے پر مجبور کردیتا ہے جو ہم کرنے کے خواہش مند نہیں ہوتے۔۔
مہمانوں کے آنے سے قبل ہم گھروں کو رگڑتے ہیں اور دیواروں سے پرانی سفیدی باہرنکال لیتے ہیں۔ خواتین تھریڈنگ کرتی ہیں اورفاونڈیشن سے چہرے کے چِب۔لیول کرتی ہیں جبکہ مرد منہ پراُگی جھاڑیاں الٹے سیدھے اُسترے سے کاٹتے ہیں۔۔۔سلوٹ۔۔ لیس سوٹ پہنتے ہیں اور برانڈڈ پرفیوم سےکپڑوں، گردن اور بغلوں کو معطر کرتے ہیں۔۔
بچپن میں ہمارے گھر میں جب مہمان آتے توماں کا طواف

ہفتہ، 29 اگست، 2015

اس حمام میں سب گوالے ہیں۔۔!

سُرخیاں عام طور پر دو طرح کی ہوتی ہیں۔۔ پہلی ہونٹوں کی  اور دوسری اخباروں کی۔۔ ہم چونکہ پہلی سُرخی کے ہی مداح ہیں۔۔ اسی لئے ۔۔اگر کوئی  دوسری سُرخی کاتذکرہ  بھی کرے تو ہم پہلی ہی سمجھتے  ہیں۔۔البتہ کچھ لوگوں کو دونوں سُرخیاں ایک جگہ پر  بھی دکھائی ہیں ۔۔ بقول شاعر ۔۔
؎      دیر تک پڑھتا رہا میں ہونٹوں کی سُرخیاں
ایک مہ جبیں کے ہاتھ میں اخبار دیکھ کر
لیکن جب  اخبار میرے ہاتھ میں آیا تب بھینسوں کی سُرخی دکھائی دی۔۔ یہ 26 اگست کی بات ہےایک  اخبار میں سرخی چھپی  تھی کہ 27 اگست کو لاہور یوں کو   دودھ نہیں ملے گا۔ سرخی پڑھ کر مجھے لگا کہ شائد دودھ کٹا پی گیا ہو۔۔  کیونکہ بچپن میں جب کبھی ماں بتاتی تھی کہ آج دودھ نہیں ملے گا تو اس کا مطلب ہمیشہ یہ ہوتا تھا کہ آج  سارا  دودھ کٹا پی گیا ہے۔۔ مجھے کٹے پر خاصا غصہ آتا کہ یہ اچھا خاصا ۔۔ہٹا کٹا ہے۔۔ اسے مزید دودھ کی ضرورت کیوں رہتی ہے ۔۔؟

بدھ، 26 اگست، 2015

کھانے میں کچھ میٹھا ہے۔۔۔ ؟


 اگرچے میں کبھی بھی سیاسی نہیں رہا لیکن  ۔۔ رونا اور گانا جس طرح ہر شخص کو آتا ہے ۔اسی طرح سیاست بھی ہر پاکستانی کے بس کی بات ہے۔۔۔یہ الگ بات ہے کہ وہ سیاست کے اسرار۔ و۔رموز سے  بخوبی واقف ہو یا نہ ہو ۔۔۔پاکستان وہ ملک ہے جس کی آبادی کئی سالوں سے شمار میں نہیں ہے  لیکن ہم جتنے  بھی ہیں ۔سب کے سب سیاستدان  ہیں۔۔۔چونکہ میں  بھی پاکستانی ہوں ۔۔سو مجھے بھی  کبھی کبھار سیاسی باتیں سننے کو مل جاتی ہیں۔
کہتے ہیں کہ لوگ سن کر سیکھتے ہیں۔۔میں نے ان سیاسی  باتوں سے جھوٹ، مکاری، دھوکہ بازی اور قرضہ نوشی  وغیرہ سیکھی ہیں ۔یہی کچھ ہمارے بڑوں نے سیکھا تھا اور آج ہمارے بچے بھی وہی کچھ سن رہے ہیں۔

جمعرات، 20 اگست، 2015

شریفے غیر سیاسی ہوتے ہیں۔۔۔!

یوم آزادی پر جب ملک بھر میں جگہ جگہ اور دنیا بھر میں وہاں وہاں۔۔جہاں پاکستانی آباد ہیں۔سبز ہلالی پرچم سر بلند ہو رہا تھا تب فیصل آباد میں ن لیگ کے دو رہنما ایک دوسرے کے خلاف علم بغاوت بلند کر رہے تھے۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ فیصل آباد میں مسلم لیگ ن سالہا سال سے سابق ایم این اے چوہدری شیر علی اور وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ کے مابین دو دھڑوں میں تقسیم ہے۔۔دو لخت جماعت ۔۔۔ ایک طرف بھٹو اور دوسری طرف عوامی لیگ کے شیخ مجیب الرحمن والی تقسیم۔۔اُدھر تم اور اِدھر ہم والی تقسیم۔۔۔ اقتدار کے بجائے چوہدراہٹ کی لڑائی۔۔ ضلع پر راج کرنے کی خواہش۔۔۔ پہلے چوہدری شیر علی کی گفتگو

اتوار، 16 اگست، 2015

سانوں اک پل چین نہ آوے

یہ بات تو طے ہے کہ ہماری موسیقی کی عمارت ٹھیٹھ راگوں اور راگنیوں کی بنیاد پر کھڑی ہے.
میوزک کی کئی شکلیں ہو سکتی ہیں۔ جیسے کلاسیکی، نیم کلاسیکی، فوک راک، پاپ کلاسیکل اور نیم کلاسیکل ہر روپ، رنگ اور سُر میں کسی نہ کسی گھرانے سے منسوب ہے جبکہ فوک، راک اور پاپ تو چلتا پھرتا سا کام ہے۔۔۔ کلاسیکل والے اس فارم کو بری بھی سمجھتے ہیں بلکہ اسے موسیقی بھی نہیں سمجھتے ان کا خیال ہے کہ یہ باتھ روم میں ہونے والی گلوکاری کی کوئی شکل ہو سکتی ہے جسے ہر کوئی گا سکتا ہے
پچھلے دنوں کل پاکستان موسیقی کانفرنس کے بارے میں ایک تحریر پڑھنے کو ملی سمجھ تو نہیں آئی لیکن لکھ اس لئے رہا ہوں شائد موسیقی کے کسی دلدادہ کی حس لطافت میں اضافہ ہو جائے

جمعرات، 13 اگست، 2015

مُنا آخر کہاں جائے۔۔۔ ؟

مُنا یوم آزادی پر صرف 11 سال کا تھا۔سفید زمین والی دھاری دار قمیض۔۔چاک گریبان، ٹوٹے بِیڑے، ڈولوں تک بازو،کمر پر لنگوٹ، پیروں ننگا، ٹخنوں پر آزادی کی دھول، پب پہ چھالے، دل میں لالے، آنکھوں میں امید، ہونٹوں پر نغمے، جوش ولولہ اور آزاد وطن میں کٹے پروں سے اونچی اڈاریاں بھرنے کی خواہش۔۔۔ کٹے ہوئے پر۔۔ کیونکہ۔۔مُنا پرانے جالندھر(انڈیا) کے گاؤں علی محلہ سے والدین کے ہمراہ دنیا کی سب سے بڑی ہجرت پر نکلا تھا۔وہاں سے اندریش نگر پہنچا تو چھوٹا بھائی چھوٹ گیا۔۔بستی باوا خیل میں زاد راہ جاتا رہا۔۔کھوجے والا میں کُچھڑ سے بہن نکل گئی۔۔ کپورتھلہ اسٹیٹ کے قریب ابا نے بیمار دادو کو کنیڑے اٹھایا۔تو دادی نے ازخود نیچے اُتر کر ابا کو رخصت دے دی۔۔بھاونی پور میں سر سے گٹھڑی چھن گئی۔۔بھاگا تو جوتے پیچھے رہ گئے، سدھوان میں ماں بچھڑ گئی

بدھ، 12 اگست، 2015

قصور بلھے شاہ کا ہے۔۔۔!

بچے، زیادتی، ادویات، انجیکشن، اوباش، ویڈیو، بلیک میلر، بکاو پولیس، سرد مہری، بے حسی، بے غیرتی، لاقانونیت، پردہ پوشی، پشت پناہی، رسہ گیری اور بہت سے الفاظ جب ذہن میں آئیں تو قصور سکینڈل یاد آتا ہے۔۔
 بچوں سے بدفعلی کا۔۔ملکی تاریخ کا سب سے بڑاسکینڈل۔۔ گناہ کی خود رو منڈی۔۔پولیس نے قصور کے گاوں حسین خان والا میں چند روز قبل بچوں سے بد فعلی والے مجرم چھوڑے تو جُتیاں کھائیں۔۔ جتیاں اور ٹھڈے عام طور پر ان اوباشوں کا مقدر ہوتے ہیں جو دیہاتوں میں زیادتی کرنے کے جرم میں پکڑے جاتے ہیں۔۔۔ لیکن وہ جوتے اوباش کا منہ کالا کرکے ۔۔ہار بنا کر گلے میں لٹکائے جاتے ہیں۔۔

منگل، 4 اگست، 2015

یہاں ایک یار مرید دفن ہے۔۔۔


 مرد عام طور پر رن مرید ہوتے ہیں لیکن میرا شوہر وحید ماں مرید ہے۔۔جب یہ مرے گا تو میں اس کے کتبے پر لکھواں گی یہاں ایک ماں کا یار دفن ہے۔۔ اور اگر پہلے میں مر گئی تو ۔۔۔ یہ عاشقی معشوقی جو ماں بیٹے میں چلتی ہے اس سے چُھٹی ملے گی، رج رج کے جھپیاں ڈالیں ایک دوسرے کو۔۔’’بانو قدسیہ کے ناول راجہ گدھ سے اقتباس‘‘
اب مجھےکیا پتہ کہ ماں مرید ہونا۔شوہروں کی کونسی نسل ہے۔لیکن رن مرید اور ماں مریدکےعلاوہ بھی مریدوں کی کئی نسلیں ہوتی ہیں۔جیسےیار مرید، افسر مرید، دھن مرید اور اقتدار مرید وغیرہ۔میرا تعلق مریدین کی اُس قبل الذکرجاتی سے ہے۔جن کےبارےمیں یہ واقعہ مشہور ہے۔

ہفتہ، 25 جولائی، 2015

مینگو ڈپلومیسی

آم پاکستان کا قومی پھل ہے۔۔جسے انگریزی میں مینگو اور پنجابی میں امبھ کہتے ہیں۔۔۔ امبھ کھانے کے شوقین بہت ambitious ہوتے ہیں
 Ambitious کو آہستہ آہستہ پڑھیں تواس میں امبھ بھی آتا ہے۔
آم پھلوں کا بادشاہ ہے۔ایسا بادشاہ جس کا سارا سال رہتا ہے لیکن آم بہت خاص ہوتے ہیں۔تبھی تو اسکی گٹھلیوں کے بھی دام ہوتے ہیں۔
شائد 26 سال پہلے۔۔۔ایام جوانی میں ادکارہ انجمن ایک پنجابی گانے پر نچ نچ کے ہلکان ہوگئی تھی
میں امبھ چوپن لئی گئی باغ وچ پھڑی گئی۔۔۔(میں آم چوسنے باغ میں گئی تھی لیکن پکڑی گئی)
اُنہی دنوں دوسرا پنجابی گانا۔۔۔ چوپاں گی چوپاں گی امبھ لنگڑا (میں لنگڑا آم چوسوں گی) بھی کافی ہٹ تھا۔۔۔

جمعہ، 17 جولائی، 2015

مسلم لیگ ن: اُدھر تم اور اِدھر ہم۔۔۔


گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہارچلے۔۔ چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
مہندی حسن کی گائی یہ غزل خاصی مقبول تھی۔۔وہ کسی نئے کلام کے الاپ تیار کر رہے تھے اور غزل کے خالق جنابِ فیض احمد فیض بیروت میں تھے۔
1980 کی بات ہےجب فیض صاحب پی ایل او کےجریدے لوٹس کے ایڈیٹر بنے۔فلسطینی رہنما یاسر عرفات کی درخواست پر۔ان کی نوکری بیروت میں تھی۔
فیض صاحب اس سے قبل بھی ضیائی مارشل لا کی وجہ سے کئی سال پاکستان سے باہر رہے۔۔
فیض صاحب بیروت پر اسرائیلی یلغار کی وجہ سے پریشان تھے اور ان کے دوست۔۔ پاکستان میں عدم دستیابی کی وجہ سے پریشان تھے
شائد مرحوم حمید اختر صاحب نے ایک ٹی وی انٹرویو میں ذکر کیا تھا کہ فیض صاحب جب بیروت میں تھے تو

ہفتہ، 11 جولائی، 2015

ابلیس کی مجلس شوری۔۔ ؟


بھائیو میرے سمیت بہت سے انسان شریف شائد اس لئے ہیں کہ ہمیں موقع نہیں ملا اور نیک وہ ہے جس کا داو نہیں چل رہا۔
وگرنہ معاشرے میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ناقابل بیان ہے چند مثالیں
ناپ تول میں ہم ڈنڈی مارتے ہیں۔۔
ہماری فیکٹریاں دودھ کے بغیر ہی دودھ تیار کررہی ہیں
جائیداد کے نام پر ہم بہنوں کا حق کھا رہے ہیں ۔
یتیموں کے مال پر نظریں گڑھ بیٹھے ہیں
لکڑی کے برادے کو ہلدی اور مرچ بنا کر بیچ رہے ہیں
آڑو اور لیچی کو رنگ کر کے بیچتے ہیں
سبزیوں کو ہرا اور تازہ رکھنے کے لئے سینتھٹک رنگ استعمال کرتے ہیں
لوکی، کریلا، تربوز، کھیرا وغیرہ کو کیمکل لگا کر جلدی جوان کر لیتے ہیں۔
پھلوں میں سیکرین ڈال کر میٹھا کرتے ہیں۔
چنے کے چھلکے پیس کر چائے کی پتی بناتے ہیں۔۔
ہلدی میں میدہ اور چاول کا آٹا رنگ کرکے ڈالتے ہیں

ہفتہ، 27 جون، 2015

بجلی استاد

شائد بےنظیر بھٹو کے دور حکومت کی بات ہے ہم ٹی وی کمرشل دیکھا کرتے تھے۔ میرے گاوں میں بجلی آئی ہے۔ آج کل نواز شریف کی حکومت ہے اس لئے بجلی مردانہ سی ہوگئی ہے۔’’بجلی استاد‘‘
معروف بیٹری برانڈ کے ٹی وی کمرشل میں کام کرنے والے عزیزی سہیل احمد کی طرح۔۔۔
لیکن جنس کا تعلق تو انسانوں سے ہوتا ہے۔۔۔ اجناس کو ماورا قرار دیا جا سکتا ہے۔۔
ہمارے ہاں تو کوثر نام کے ایک مولانا بھی رہے ہیں۔۔۔اور اے این پی کے سابق رہنما اعظم ہوتی بھی یاد ہیں جو وہ ہوتے تھے لوگ تب بھی انہیں ہوتی کہتے تھے
جیسے ہم گھروں میں آیا رکھتے ہیں لیکن وہ آئی ہوتی ہے۔۔

بدھ، 17 جون، 2015

میرا۔۔۔شوبز کی راجہ ریاض


وزیراعلی پنجاب شہباز شریف جب 2008 میں بھی اسی تنخواہ پر کام کر رہے تھے۔تب پیپلز پارٹی اتحادی بن کر ہمراہ کھڑی تھی شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پی رہے تھے کیونکہ راجہ ریاض سینئر صوبائی وزیر تھے۔۔ گاڑی پر جھنڈا لگ جائے تو ایم پی اے کو اورکیا چاہیے۔۔راجہ ریاض کی گاڑی پربھی اتحادی جھنڈا لگا تھا۔ پروٹوکول پورا تھا۔ وزارت کے مزے تھے۔ روٹی کپڑا اور مکان کی آس پر جیالے پیچھے پیچھے تھےاور ٹھیکوں و نوکریوں کے خواہش مند افسران آگے پیچھے۔۔وزیر کے باوجود راجہ ریاض۔۔ مسلم لیگ ن سے پوری خار کھاتے تھے۔کئی بار ایسا بیان داغتے کہ سننے والا پانی پانی ہوجاتا۔آخر وزیر آب پاشی جو تھے۔۔۔
راجہ ریاض نجی محفلوں میں ہمیشہ میاں شہباز شریف کو رنگیلا وزیراعلی کہا کرتے۔ساری وزارتیں خود رکھنے کا الزام لگاتے۔ ۔ن لیگ سے اتحاد ٹوٹا تو یہی باتیں عوامی محفلوں میں بھی ہونے لگیں ۔بطور سینئر وزیر ان کی حیثیت۔سینئر سٹیزن سے زیادہ نہیں تھی۔۔

منگل، 9 جون، 2015

وزیر مملکت برائے پانی و سیلفی


وزیر مملکت پانی و بجلی عابد شیر علی میرا اتنا ہی دوست ہے جتنا وہ صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ کا ہے
وہ دونوں ایک دوسرے کو زہر لگتے ہیں اور مجھے زہر خورانی۔۔ و۔۔ زہر خوری دونوں سے نفرت ہے۔۔ تبھی تو ہماری۔۔ گاڑھی نہیں چھنتی۔۔میں ان دنوں کے لئے ایسا زہر مار بنانے کا خواہش مند تھا جو ہمارے ہاں صرف جنسی مریضوں کے لئے مشہور ہے۔بے جان میں جان ڈالنے والا کُشتہ۔۔۔
امید اور خواہش دلانے والا کُشتہ
لیکن کُشتہ مارنے کے لئے کشت ابھی پورا کٹ بھی نہ پایا تھا کہ وہ سنکھیا کے عادی ہوگئے ۔۔ نفرت اور ناامیدی کا کُشتہ

ہفتہ، 30 مئی، 2015

اوباما۔ کا داماد۔۔۔ ؟


پولو رائیڈ کیمرا نیا نیا ایجاد ہوا تو مغرب نے شادیوں کے فنکشن پولو رائیڈ پر شفٹ کر دئیے کیونکہ تصویریں دھل کر آنے تک طلاق ہو چکی ہوتی تھی۔
امریکہ میں طلاق کی شرح تقریبا 50 فیصد ہے۔دیگر ممالک سے نسبتا زیادہ۔۔۔
کیونکہ وہاں extra marital affairs کی گنجائش ہے۔بیوی کے علاوہ گرل فرینڈ کا آپشن۔۔extra marital affairs یعنی’’ماوورائے شادی تعلق‘‘ نیو فارم آف لو آفئیر۔۔نیو ورلڈ آرڈر کی طرح۔۔ بالکل extra judicial killing ماوورائے عدالت قتل جیسا۔
دنیا کےکئی ممالک میں قانونی سازی کے بعد ایسے آفئیرز کی اجازت ہے لیکن پاکستان میں سب سے زیادہ پاپولر آفئیر۔کرنٹ آفئیر ہے۔

جمعرات، 21 مئی، 2015

پپو ناچ نہیں سکتا

پپو کی گاڑی تیز ہے، پپو کُڑیوں میں کریز ہے، پپو کی آنکھیں لائیٹ بلیو، پپو دکھتا انگریز ہے۔ ۔ But pappu can't dance saala! ۔۔۔ پپو ناچ نہیں سکتا۔
اس گانے میں پپو کے دو پرابلم ہیں ایک تو ڈانس نہیں کر سکتا اور دوسرا وہ سالا ہے۔۔۔
پپو پتہ نہیں سالا ہے یا نہیں لیکن سالا۔۔ پپو ہے۔۔ ممکن ہے وہ پپو سمراٹ (کوریو گرافر) ہی ہو۔۔ لیکنBut pappu can't dance saala!
پپو سالے کا دو سال قبل ریلیزہونے والا ایک ویڈیو گیت بالی وڈ میں خاصا مقبول ہے۔۔لیکن لالی وڈ (پاکستانی فلم انڈسٹری) چونکہ آغوش گور میں ہے۔۔ اس لئے پاکستان میں پپو سیاسی ہو گیا ہے حالانکہ پپو غیر سیاسی ہوتے ہیں۔ ادویات کے پنے پر لکھے پیغام کی طرح۔۔ ’’تمام دوائیاں پپو کی پہنچ سے دور رکھیں۔۔‘‘
ہم جب سننے اور سمجھنے کی عمر کو پہنچتے ہیں تو اپنے محور میں گردش کرنے والے کسی نہ کسی رشتہ دار کا نام ۔۔۔پپو ضرور سنتے ہیں۔۔شعوری عمر میں ہم سوچنے لگتے ہیں کہ شائد پپو ایسا ہی ہوتا ہو گا لیکن زمانے کی ہوا ہمیں پپُووں میں فرق دکھاتی ہے۔۔ویسے تو بچپن میں ہم سارے ہی پپو ہوتے ہیں لیکن ہم میں سے کچھ بڑےہو کر ڈبو بن جاتے ہیں اور کچھ پپو۔۔ رہ جاتے ہیں۔۔پپو ظاہری حسن کی اصطلاح کا نام ہے۔۔یہ غیر صنفی لفظ ہے۔۔کیونکہ بچی بھی پپو ہو سکتی ہے۔۔صاحبو۔۔! ہم نے تو کئی لونڈوں سے سنا ہے۔۔ وہ دیکھو پپو بچی۔۔۔! سالے۔۔ پپو۔! پپی کے متلاشی

جمعہ، 15 مئی، 2015

’’ میڈم کسی چیز کی ضرورت تو نہیں۔۔؟‘‘

ہم نے سنا بھی دیکھا اور پڑھا بھی کہ جب انسان نے شکار کرنا اور کھانا چھوڑا تو جانور پالنے کی روایت نےجنم لیا۔انسان نے ترغیب دی تو کئی جانور دم ہلا ہلا کر پیچھے چلنے لگے۔پھرتو شیر بھی اپنی درندگی سمیت کتوں کی طرح گھروں میں پلنے لگے۔بکری، بھینس،گائے اور گھوڑے جنگل کی دہلیز پار کرکے آدی واسی ہو گئے۔۔بلی کو ہم نے خود گھر کا راستہ دکھایا۔کیونکہ غلے پر چوہے قابض تھے۔ٹام اینڈ جیری کا کھیل آج بھی جاری ہے۔بلی نے چوہے کھائے اور ہم غلہ۔پھربلی گوداموں سے ڈرائینگ روم میں آگئی۔۔ ہم نے اسے چُلو چُلو دودھ پلا کر سدھایا۔ اس کی مونچھوں کاٹیں، بالوں کے spikes بنائے۔پھر بلی ڈرائنگ روم سے کچن میں گھس گئی۔۔

بدھ، 6 مئی، 2015

زلزلہ تو آنا ہی تھا ۔۔۔

 شنکر پچھلے کچھ دنوں سے کافی پُرجوش تھا۔۔ مجھے اکثر پکارتا۔ اوئے مُسلے۔۔۔! بھگوان کی کرپا سے گڈھی مائی کا میلہ ٹھیک ٹھیک پدھار گیا۔۔۔ ’’مجھے تو گھنی چنتا تھی‘‘
محمد مسلم ہمارا سانجھا دوست ہے۔۔ وہ اکثر چیختا رام کی اولاد۔۔ شنکر۔۔ مجھے مسلم کہا کرو ۔۔۔محمد مُسلم۔۔ لیکن۔۔۔ وہ تو کتے کی دم کی طرح ہے۔۔۔ناقابل اصلاح۔۔۔مسلم اکثر مجھے گلہ کرتا۔۔شنکر نیپالی ہندو ہے اور مسلم پاکستانی ۔۔وہ اکثر بحثتے۔۔۔
گڈھی مائی کا میلہ نیپالی ہندووں کی اجتماعی قربانی کا تہوار ہے۔۔ ہر 5 سال بعد 2 دن کاجشن۔۔۔ لاکھوں جانوروں کی قربانی۔۔ جب قربان گاہ خونی تالاب اور میلہ بوچڑ خانہ بن جاتا ہے۔ بھینس، کٹے، بکری، مرغی، سؤر، کبوتر، چوہے، بلیاں وغیرہ۔۔ بھینس سے چوہے تک سب طاقت کی دیوی کی نذر۔۔ تلوار بردار ہندو دھرم چاری بھارتی سرحد کے قریب بڑیاپور گاؤں آتے ہیں۔۔ کھٹمنڈو سے 160 میل دور جنوبی نیپال میں۔۔ اپنے جانوروں سمیت۔۔۔ڈیرے ڈالتے ہیں اور طاقت کی دیوی کو جانوروں کے خون کا چڑھاوادیتے ہیں۔۔۔۔شنکر یہ سب کچھ بولتا رہتا تھا۔۔

ہفتہ، 25 اپریل، 2015

ایک بوتل ووڈکا ۔۔۔


پاکستان اسلام کے نام پر بنا اور اسلام آباد پاکستان کے نام پر۔۔اس مقدس خطے کے حصول کی محض ایک ہی وجہ تھی کہ آزاد فضائوں میں لاالہ الا اللہ کی صدائیں بلند ہوا کریں گی۔۔ لیکن
تازہ خبر آئی ہے کہ اسلام آباد نے ایک بوتل شراب اور چرس کی اجازت دے دی ہے۔ماتحت پولیس سے کہا گیا ہے کہ ایک بوتل شراب اور چرس برآمد ہونے پر پرچہ نہ کاٹا جائے۔۔ نئے احکامات۔۔۔احکامات شریعہ کے متضاد ہیں۔۔۔ اور یہ حکم اطلاع کے بجائے دعوت جیسا ہے۔۔دعوت گناہ جیسا۔۔۔
بھارتی گلوکار یویو ہنی سنگھ نے کچھ عرصہ قبل ایک گانا گایا تھا۔۔