بچپن بھی کیا خوب
تھا۔کسی دوست سے کچی ہوجاتی تو چھوٹی انگلی
بھڑا کرقطع تعلق کرلیتے اورپکی کرنی ہوتی
تو شہادت کی انگلی ملا لیتے۔کچی کھلے عام ہوتی توچھپ کر ہونےوالی پکی۔جھوٹی
سمجھی جاتی تھی۔بچپن کی لڑائیوں کا مشہور
جملہ ہوتا تھا۔’’ جوکہتا ہے وہی ہوتا ہے‘‘۔ لیکن تب دوستیاں اُتنی ہی پکی ہوتی تھیں۔جتنی آج کل پاکستان اورچین کی دوستی ہے۔سمندر سے گہری، ہمالےسےاونچی اورشہد سےمیٹھی۔ بچپن کی لڑائیاں اس اضطراب سے پاک تھیں۔ جن میں معروف
ناٹک نگا رشیکسپیر کےاکثر کردارمبتلا رہتے ہیں۔شیکسپیرشائد پہلا ناٹک نگار تھا جس نے ڈراموں میں کرداروں سے خود کلامی کروائی۔
جسےانگریزی میں Soliloquy کہتے ہیں۔ جیسے۔
To be or not to be, that is the question
یہ جملہ بھی ایک خود
کلامی ہے ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے۔انگریزی دان جانتے ہیں کہ اضطرابی کیفیت ہو تو اس ضرب المثل کو بول کر
طوفان کو پیالی میں بند کیا جا سکتا ہے۔ یہ جملہ لکھا تو شیکسپیر نے تھا اور ناٹک
میں بولا ہیملٹ نے۔ ہیملٹ ڈنمارک کے مقتول بادشاہ کابیٹا ہے۔جسے ایک بھوت بتاتا ہے کہ بادشاہ کو تمہاری ماں اور چچا نے مل
کر قتل کیا ہے۔تاکہ بادشاہت حاصل کرسکے۔لیکن ہیملٹ مضطرب رہتا ہے۔ کہ بھوت کی بات
سچی ہے یا جھوٹی ۔ لیکن آج کل خود کلامی کوئی نہیں کرتا جو اضطراب میں رہتا ہے وہ سوشل
میڈیا پر سٹیٹس اپ ڈیٹ کردیتاہے ۔جیسے عالمی شہرت یافتہ باکسر عامر خان کی بیوی
فریال مخدوم نے کیا ہے۔
فریال کہتی
ہیں کہ’’سسرالی مجھ پرتشددکرتے ہیں۔مرضی سےکپڑے نہیں پہننے دیتے۔میرا شوہرعامر
امیر آدمی ہے لیکن میں کیٹ واک کرکے اپنا کماتی ہوں پھربھی براسلوک ہوتا ہے۔ساس بھی تشددکرتی ہے۔آپ کی بیٹیاں ڈوپٹہ نہ لیں توخیرہےلیکن بہو کا لباس مسئلہ بنا دیا گیا ہے‘‘۔
ایک بہو (اپنی سہیلی سے) :پرسوں میری ساس کنوئیں میں گر گئی۔بیچاری
کو بہت چوٹ لگی ۔ بہت دیر تک چیختی رہی ۔
سہیلی:اب وہ کیسی ہے ؟
بہو:اب تو ٹھیک ہے کنوئیں سے آوازیں نہیں آرہیں۔
سہیلی:اب وہ کیسی ہے ؟
بہو:اب تو ٹھیک ہے کنوئیں سے آوازیں نہیں آرہیں۔
فریال بھی منظوم
بہو ثابت ہوئی ہے ۔اس نے کنٹینرکے علاوہ ساس سے نجات
پانےکا ہر۔ حربہ آزما لیا ہے۔ لیکن مسئلہ ختم نہیں ہو رہا۔عامر کے گھر میں نوبت بھی کنوئیں
والی ہے۔کیونکہ ہر بیوی تاج محل کی
نہیں۔ممتاز محل بننے کی خواہش مند ہوتی ہے۔اس خواہش کی بنیاد وہ انتظار ہے جولڑکیاں شادی سے پہلے یہ سوچ کر کرتی ہیں کہ
دنیا کے کسی نہ کسی کونے میں کوئی بے وقوف
ان کے لئے ڈاکٹر اور انجنیئر بن رہا ہوگا ۔اور مزے کی بات یہ ہے کہ شوہر بنتے ہی مرد میں بے وقوف بننے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔اسی لئے
وہ بے روزگاری سے بچنے کے لئے شوہر کے عہدے پر فائز ہو جاتے ہیں۔بانو قدسیہ لکھتی ہیں کہ ’’ایسے مردسےکبھی شادی نہ ہو جسے اپنی ماں کی
کُچھڑ کا شوق ہو۔ بڈھے پھونس ہو جائیں گے لیکن گودی کا شوق نہیں جائے گا۔ ویسے تم
مانو نہ مانو ساری مرد ذات ماں کی خصم ہوتی ہے۔لڑکی کو بھی ماں سے پیار ہوتا ہے
لیکن جب وہ خود ماں بن جاتی ہے پھر ماں پر کیوں مرے‘‘۔راجہ گدھ سے اقتباس
فریال
جب سے ماں بنی ہیں۔ عامرباپ کے بجائے ’’ ممنون
حسین‘‘ بن گیا ہے۔اس نے خود مانا ہے کہ ’’ میں گھر پر اکثر
خاموش ہی رہتاہوں اور بیگم کا حکم مانتا ہوں ‘‘۔ہمارے ہاں شوہروں کی دو اقسام ہیں ۔پہلے وہ جو ہر چیز کو بیوی کی نظر سے
دیکھتے ہیں اور دوسرے وہ جنہیں بیوی ہر
چیز اپنی نظر سے دکھاتی ہے۔عامرمیں دونوں خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ وہ باکسنگ چیمپئن
کے علاوہ ۔ رن مریدی کا ٹائٹل بھی جیت چکے ہیں۔لیکن میرا دوست شیخ
مرید۔ اعلی درجے کا لائی لگ ہے ۔خاموش طبع ۔اپنی زوجہ
کا’’ذاتی ممنون حسین ‘‘۔ کہتا
ہےمیں اور عامر خان ۔انڈور کھیلوں کے شوقین ہیں ۔ہم دونوں اپنے اپنے رِنگ میں
کھیلتے ہیں۔ دونوں کھیلوں کا تعلق مُکوں
سے ہے۔وہ کہتا ہے کہ’’ شوہر اپنے گھر کا سب سے بڑا بچہ ہوتا ہے۔کیونکہ
شوہروہی کچھ کرتا ہے جو بیوی کہتی ہے ‘‘۔
ماہر
فلکیات ( خاتون سے): کیا آپ اپنے شوہر کا مستقبل بھی جاننا چاہتی ہیں۔
بیوی: جناب
۔!اس کا مستقبل میں خود فیصلہ کروں گی آپ ان کا ماضی بتائیں۔
فریال نے بھی عامر
کے مستقبل کا فیصلہ کر لیا ہے۔ کہ’’ ہم امریکہ میں رہیں گے‘‘۔وہ نیویارک میں پیدا ہوئیں اور شادی کرکے برطانیہ آ گئیں۔شادی سے پہلے فریال کا چہرہ خواتین نما تھا
۔پھر سرجری کروا لی۔ اب وہ ڈک(Duck)
فیس ہیں۔ لندن میں ماڈلنگ کرتی ہیں۔ دیسی
لڑکیوں کو یوٹیوب پر میک اپ اور
ملبوسات پہننے کی ٹپس دیتی ہیں۔وہ مزید لکھتی ہیں کہ’’ میری نند میری کامیابی اور خوشی سے جلتی ہے حالانکہمیں صبح 7 سے رات 12بجے تک کام (کیٹ واکس)کرتی ہوں۔ عامربھی
گھروالوں کی وجہ سے سخت ذہنی دباؤ کا شکار
ہیں‘‘۔
خواتین کویوں تو صنف نازک کہا جاتا ہے لیکن عجب حقیقت ہے کہ
سمندروں سے اٹھنے والے ہر طاقت ور طوفان کا نام خواتین کے نام پر ہے۔’’نیلوفر تو آ چکا ہے اب اگلی باری نرگس، لالہ، نیلم، وردا، تتلی اور بلبل کی ہے۔فریال
بھی ایک طوفا ن کی طرح اٹھی ہے۔ مرید کہتا ہے کہ داماد کی سسرال
میں عزت ہی اس لئے ہوتی ہے کیونکہ اس مرد
مومن نے طاقت ور طوفان سنبھالا ہو تا
ہے۔
کہتے
ہیں کہ دھند اور محبت انسان کو اندھا کر دیتی ہے۔عامر نے محبت تو فریال سے کی تھی لیکن شادی بطخ سے کر نا پڑی ۔اب ٹائیں
ٹائیں ہو رہی ہے۔سرجری کے دوران شائدDuck کے دماغ کی سرجری بھی ہو گئی ہے ۔عامر کے گھر کی کہانی بھی گھر گھر کی کہانی نکلی۔ساس بھی کبھی بہو تھی والی کہانی۔ لیکن عامر کے والدسجاد خان کہتے ہیں کہ فریال جھوٹ بولتی ہیں۔انہیں کبھی نہیں مارا۔البتہ انہیں
قابل اعتراض تصویروں اپ لوڈ کرنے پرمنع کیا تھا۔اگر ان
پر تشدد ہوا تھا تو پولیس کو رپورٹ کیوں
نہیں کیا؟۔ عامر کی والدہ کہتی ہیں کہ فریال ہماری کہاں سنتی ہے۔ہمیں تو پینڈو کہتی
ہے۔عامر بھی کہتا ہے کہ ’’ وہ میری ایک نہیں سنتی‘‘۔
عامر مجبور ہیں ۔ ایک طرف محبوبہ ہے اور دوسری جانب محبوب
والدین۔گھر باکسنگ رنگ بن چکا ہےاور۔ وہ ناک آوٹ ہو چکے ہیں۔فریال مسلسل پنچ ما ر رہی ہے۔
برطانوی اخبار ڈیلی میل کا تو دعوی ہے کہ عامر فریال کی وجہ سے امریکہ منتقل ہو سکتے ہیں۔ عامر نے ساری لڑائی
کے بعد ٹویٹ کی ہے کہ ’’والدین اور اہلیہ
دونوں میرا نام بدنام کر رہے ہیں۔ شائد وہ
ایک بیٹا اور ایک خاوند کھو دیں‘‘۔مرید کہتا ہے کہ’’ غصہ آنا مرد کی نشانی ہے اور
غصہ پی جانا شادی شدہ مردکی نشانی ۔اب انگلی سے پکی کرنے کی گنجائش نہیں رہی ۔ عامر بیوی کی کچُھڑ چڑھ گیا ہے۔خود کلامی کر لیتا تو
۔ ٹوئیٹ کی ضرورت بھی نہ رہتی ۔وہ تو باکسر ہے۔اتنا تو جانتا ہی ہو گا کہ
’’لڑائی کے بعد
یاد آنے والامکا اپنے منہ پر مار لینا چاہیے‘‘ ۔مجھے تو ہیملٹ یاد آ رہا ہے۔
To be or not to be, that is the question
Zabardast sir..... literary terms ka is tarah ka istemal readers ki dilchaspi bharra deta hy.....aur aap literary info blog k be-taj badshah hain...... shadi shuda mard o khawateen ki behtreen tarjumani ki hy aap ny..
جواب دیںحذف کریں