ہفتہ، 26 نومبر، 2016

مٹھائی والا ۔ایم پی اے

ہا۔ ہائے۔ یہ نگوڑ ی تو کل  پی ٹی آئی  والوں  سے مٹھائیاں  کھا رہی  تھی۔ا ٓج ن لیگ سے۔ اس  کم بخت ،  ناٹھی  کو  لت لگ گئی ہے۔ست ربٹی گیند کی طرح تھاں تھاں ٹھپے کھانے کی۔ویلی۔ناٹنکی ۔ چلو وہ تومٹھائی کی شوقن تھی۔ اِس ایم پی اے کو کیا ہوا  ۔ چور اچکا چوہدری تے لنڈی رن پر دھان ۔ ساری خواتین کو یہی کیوں مٹھائی کھلا رہا ہے۔ارے ۔چائے والا تو سنا تھا۔مٹھائی والا  بھی دیکھ لیا۔مجھے تو ایسے مرد ’’راجہ گدھ ‘‘کے قیوم لگتے ہیں۔ تمہیں یاد نہیں  آپا بانو  نےکہا تھا ۔’’محبت کی اصل حقیقت بڑی مشکل سے سمجھ آتی ہے ۔ کچھ لوگ جو آپ سے اظہار محبت کرتے ہیں اتصال جسم کے خواہاں ہوتے ہیں۔ اورکچھ آپ کی روح کے لیے تڑپتے ہیں ‘‘۔

ہفتہ، 19 نومبر، 2016

خورشید شاہ بیوٹی سیلون

یہ ان دنوں کی بات ہے جب سکولوں میں ملیشیا یونیفارم ہوتا تھا۔بال بھی کالے، جوتے اور کپڑے بھی۔تپتی دوپہروں میں سکول سے واپسی پرجسم کی ہر وہ چیزتوے کی طرح تپنے لگتی جوکالی ہوتی۔تالو۔ ڈبی دار یاسرعرفاتی رومال میں لپٹاہوتا لیکن بندہوجانے والےبھٹہ خشت کی طرح گھنٹوں تپتا رہتا۔پاؤں بوٹوں کےاندرمونگ پھلی کی طرح گرم ہورہتے۔گھرپہنچتے تواتنےضعیف ہوتے۔جسے افطاری سےقبل روزہ دار۔اماں کےپاس ساری تکلیفوں کاایک ہی تریاق تھا۔مہندی۔۔تب عام گھروں میں پلنگ کی جگہ منجھے ہوتےتھے۔اماں رات کوادوائن سے اوڑھنی ہٹاکرپیروں پراُتنی مہندی چڑھا دیتی۔جتنی چاچےجانے کے پیروں پرمٹی لگی ہوتی جب وہ کچی دیواریں لیپنےکےلئےپیروں سےگوندھتا تھا۔مہندی راتوں رات خشک سالی کا شکار زمین کی طرح پھٹ جاتی۔اگلی صبح پاؤں تربوزکی طرح سوئے لال ملتے۔کسی روزیونہی سربھی لال ہوجاتا۔

ہفتہ، 12 نومبر، 2016

راجہ ریاض تھک چکے ہیں۔ ؟

آج کل مردوں  و خواتین میں جو درد سب سے زیادہ اِن ہیں ۔وہ دردِ شقیقہ اور۔ ریح  کے درد ہیں۔ ریح  کا درد۔  کمر سے شروع ہوکرکولہے ۔اورپھرٹانگ تک جاتا ہے۔درد کا تعلق کسی  قبیلے سےنہیں  ہوتا۔لیکن بعض عمرانی ناقدین نے برگر نام  سےایک نیا قبیلہ  بنا دیا ہے۔جو دردِشقیقہ کومیگرین ۔اور۔ ریح کو شیاٹیکا کہتا ہے۔اگرچے۔برگرہردرد کوسردرد۔بنا چھوڑتے ہیں لیکن ہم کسی برگر کا دردمحسوس نہیں کر سکتے۔سالوں پہلے خواتین  درد شقیقہ  ہونےپر ڈوپٹے سےسر۔کس لیا کرتی تھیں۔بُورے( آٹے) کا سوپ پی کر گھریلو ٹوٹکے بھی آزماتیں تھیں۔شقیقہ  آدھےسر  کا دردہے۔جو رُک رُک کرہوتا ہے  اورچند روزہ وقفےکے بعدپھرہوتا ہے۔میرا دوست شیخ مرید کہتا ہے کہ  دردِشقیقہ۔سیاسی دردہے۔یہ انقلاب کی طرح کئی بار رُکتا ہےاوردھرنے کی طرح پھر ہوجاتاہے۔

ہفتہ، 5 نومبر، 2016

گل سُن ڈھولنا۔

ہمارے ہاں تفریح کےمواقعے کم ہیں۔ اسی لئے بچوں کی پیدائش کی شرح  زیادہ ہے۔اسے یوں بھی کہا جا سکتا ہےکہ تفریح کے محدود مواقعوں کی وجہ سے۔ اکثر ازدواجی  لڑائیاں صلح پر ختم ہوتی ہیں۔یوں بچوں کی پیدائش کی شرح بڑھ جاتی ہے۔مردشادی اس لئے کرتا ہے کیونکہ گھرپہنچتے ہی تنہائی کاٹ کھاتی ہے اور شادی کے بعدیہی کام بیوی بھی کرنےلگتی ہے۔شادی کےابتدائی دنوں میں جو شوہر بھاگم بھاگ بیوی کی ہر فرمائش پوری کرتے ہیں۔وہ جلد ہی فرمائش سن کر بھاگنے لگتے ہیں۔یوں لڑائی وٹ پر پڑی ہوتی ہے۔