مسلم لیگ ن کا ایم پی اے میاں طاہر جمیل میرا پکا دوست ہے۔
اتنا پکا جتنا جھولی میں گرنے والا پھل ہوتا ہے۔پکا ہوا پھل ہمیشہ ٹوٹ کر گرتا ہے
ہماری یاری بھی کئی بار پک کر ٹوٹی۔ تب
میں اس کے لئے’’ہوئے تم دوست جس
کے‘‘ والا شعرباربارپڑھتا ہوں۔ہماری دوستی میں کئی نشیب آئے لیکن ’’فراز‘‘سارے طاہر جمیل
کے حصے میں آئے۔دوستی کی پگ ہمیشہ اس کےسرپررہی اوردشمنی میں بھی اسی کا شملہ اونچا رہا۔آسان
لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ وزیرمملکت پانی و بجلی عابدشیرعلی اس کی پگ ہےاور
صوبائی وزیرقانون رانا ثنااللہ ’’شملہ‘‘۔اسی لئے پگ اورشملے کوچھوڑکرجب قندیل بلوچ نےمفتی قوی کی ٹوپی پہنی تواسےبرا لگا اورجب مولانا فضل الرحمن نےپنجاب اسمبلی
کو زن مریدکہا تومیاں طاہر جمیل نےقرارداد جمع کروا کرثابت کیا تھاکہ وہ حقوق مرداں
کاعلم برداربھی ہے۔
مفتی عبدالقوی اورقندیل بلوچ کے’’سیلفی معاشقے‘‘پر اُس نے
دوسری بار قرارداد جمع کروا کرمردانہ وارکیا تھا۔قرارداد میں
کہا گیاتھا کہ فحش حرکات پرقندیل بلوچ
کےخلاف کارروائی کی جائے۔قندیل۔قوی تنازعہ پرمجھےایک پنجابی گانایادآگیا۔میری لگدی کسےنےنہ دیکھی تےٹوٹدی نوں جگ
جاندا(ترجمہ:مجھےعشق ہواتھا تو کسی کوپتہ بھی نہ چلاعشق ناکام ہواتوجگ
ہنسائی ہوئی)
کہتےہیں کہ حیا دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتی ہے اور
سیلفی انتہائی سلیفیانہ معاملہ ہے۔حالانکہ حیا کی وجہ سے قندیل بلوچ نے سرٹوپی سےڈھانپ بھی رکھاتھالیکن اللہ جانےطاہر جمیل کی آنکھوں میں پیمانہِ حیا کیاتھا کہ انہیں
سیلفی میں بے حیائی نظر آئی ۔قوم نہیں جانتی کہ مفتی اورقندیل میں پگ کب بٹی
تھی لیکن جگ ہنسائی تب ہوئی جب
تعلق’’شملے‘‘میں بدلا۔میرا دوست مریدکہتا ہےکہ’’پاکستان کےکم وبیش تمام علما
کانظریہ غذابالجبر ہےلیکن مفتی قوی نےاس میں’’ادا بالجبر‘‘ کابھی اضافہ کیا ہے شائد
روح کی غذا کا‘‘۔نسوانیت سے لبریز مذہب
کا ہر پہلوانہوں نے اجاگر کیا۔حسنِ
جاناں کی تعریف کےکئی دینی رازانہیں حفظ ہیں۔تیز رفتاری عموماحادثات کا سبب بنتی
ہے اور مفتی قوی بھی راہ نسوانیت پراوندھے منہ گرے ہیں بالکل جیسے سانپ سیڑھی کھیلتے ہوئےکوئی کھلاڑی 99 سے نیچے آگرے۔
بستر مرگ پر لیٹاایک آدمی اپنی بیوی سے:جب میری نوکری
چھوٹی تو تم نےسہارا دیا۔ جب کاروبار
ڈوباتم نے ہمت بندھائی۔جب قرضے چڑھا توبھی تم ساتھ تھی۔تمہیں پتہ ہے۔
بیوی (تعریف کےانتظار میں):کیا جانو۔؟
شوہر:تم میرے لئےانتہائی نحس ہو۔
مفتی قوی کےلئےبھی قندیل نحس ثابت ہوئی تھی۔قندیل نامور ماڈل ہے اورنہ ہی کوئی آئیٹم سانگ کیا۔کوئی مقبول ڈرامے کیااورنہ ہی فلم میں اداکاری۔قندیل کو شہرت۔2014 میں ایک وائرل ویڈیو سےملی تھی۔جس میں وہ پوچھتی ہے۔’’میں کیسی لگ رہی
ہوں۔؟۔اب بندہ جھوٹ کیوں بولے وہ پٹاخہ
لگ رہی تھی۔قندیل کا اصل نام فوزیہ عظیم ہے اور وہ
ڈی جی خان کی رہائشی ہے۔2003 میں اسے آٹھویں جماعت میں پہلاعشق ہوا ۔وہ گھر سے بھاگ نکلی لیکن محبوب
گھر ہی رہا۔بے وفائی کا تمغہ لےکرفوزیہ ملتان آگئی وہاں بس ہوسٹس کی نوکری
کی۔پھروہ قندیل بلوچ بن کرشوبزکےنئے
سفرپرروانہ ہو گئی۔بے وفائی کا بدلہ نوجوانوں سے لینےکےلئےاس نے ادا بالجبر کا
منصوبہ تیارکیا۔فیس بُک پر بیہودا۔ ویڈیو پیغام
نشر کئے۔
پانچ لاکھ لوگوں نےفیس بُک پیج کوپسند
کرکےپیغام دیا کہ ’’قدم بڑھاؤ قندیل بلوچ ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘۔لیکن وہ عمران خان
سےشادی کرنا چاہتی ہے۔
لو
میرج کی خواہش
مند ایک لڑکی مولوی سے: اگر میں
کسی رشتہ دار سے پیار کروں تو
مجھےآخرت میں کیا ملے گا ؟ وہ بولے دوزخ ۔
لڑکی:
اور اگر میں کسی غیر مرد سے پیار۔۔ تو ؟
مولوی
صاحب :استغفراللہ ۔یقیناً دوزخ ۔
لڑکی بولی : اور اگر میں آپ سے پیاررر۔۔ ؟
مولوی
( داڑھی پر ہاتھ پھیر کر) :شریر ۔۔ سیدھا جنت
جانا چاہتی ہو۔؟
قندیل پکی
دوزخن تھی۔ وہ مفتی قوی سے یہ پوچھنے گئی تھی کہ میں عمران خان سے پیار کرتی ہوں ۔شادی کیسے ہوگی۔اور مولوی صاحب اسے جنتی بنانے
پرمُصر تھے ۔سو مشاورت شروع ہو گئی۔قندیل جانتی تھی کہ مفتی عبدالقوی خوبصورت
خواتین کی تلاش میں رہتے ہیں تاکہ ان سے اپنے لئے دعاکروا سکیں۔ وہ نامحرم عورت کے
ساتھ جنسی تعلقات رکھنے کو بھی حلال کہہ چکے
تھے۔ قندیل تو ویسے بھی نامحرم تھی۔ وہ ’’بہشتن ‘‘ توکہتی ہے کہ ہوٹل داخل ہوتے ہی
اندازہ ہو گیا تھاکہ مفتی صاحب کے
ارادے کچھ اور ہیں انہوں نےمجھے شادی کی آفر
بھی کی ۔
ہوٹل میں کھانے پر لڑکے نےلڑکی سے پوچھا:کیا تم واقعی مجھ سے شادی نہیں کر سکتی
لڑکی:نہیں مجبوری ہے
لڑکا(چیختے ہوئے): ویٹر
بل الگ الگ لانا ۔
دونوں ہوٹل سےباہرآئے توسارےبھیدکھل گئے۔راز راز نہ
رہا۔قندیل نے’’عمرانی‘‘مجبوری ظاہرکرکے
شادی سےانکارکر دیا۔مفتی صا حب کہتے ہیں کہ ملاقات محترمہ کی خواہش پرہوئی۔میں ان کی اصلاح کرنا چاہتا تھا اور۔ وہ
عمران خان سے ملاقات کاتعویزلینےآئی تھی کیونکہ میں پی ٹی آئی علما ونگ کا صدر
ہوں۔ہوٹل میں ہماری ملاقات افطاری پر
ہوئی۔پھرمیں اپنی ویسٹ کوٹ اورٹوپی اتارکر
وضوکرنےچلاگیا۔واپس آیا توویسٹ کوٹ اورٹوپی قندیل نےپہن رکھی تھی۔اُسی حُلیے
میں قندیل نےسیلفی اورویڈیوبھی بنالی۔’’وہ
سلیمانی ٹوپی تھوڑاہی تھی جگ نے سب کچھ دیکھ لیا‘‘۔جبکہ قندیل کہتی ہےکہ مفتی صاحب نےافطاری پریہ کہہ کےبلایاکہ میں عیدکےچاندسےپہلےآپ کاچہرادیکھنا
چاہتا ہوں۔وہ1شادی اور17نکاح کرچکے ہیں۔مجھ سے 18واں نکاح چاہتے تھے۔میراچھوڑا ہوا سگریٹ اورمشروب بھی پیا۔مجھے
ایک پنجابی محاورا یادآگیا۔
رُل تاں گئے آں۔۔پرچس بڑی آئی اے
(اردوترجمہ:بربادتو ہوگئے لیکن مزا آگیا۔)
دنیا
میں سستی شہرت حاصل کرنےکےکئی طریقے ہیں۔ایک طریقہ قندیل کےپاس بھی ہے۔جس میں عورت کسی مردکی عزت لوٹ سکتی ہے۔وہ اس
شعوری کوشش کے بعدشائد پاکستان کی
پہلی سوشل میڈیا’’ سٹار‘‘ بن گئی ہے۔البتہ مفتی قوی کا دعوی ہے کہ قندیل نےمجھ سےمعافی مانگ لی ہے۔وفاقی وزیرمذہبی
امورسرداریوسف نےتحقیقات تک مفتی قوی کومرکزی رویت ہلال کمیٹی سے نکال دیا ہے۔بلوچ
قبیلے نےقندیل کےساتھ لکھا ہوا بلوچ ختم کرانےکےلئےعدالت سے رجوع کررکھا ہے۔میاں
طاہر جمیل کےقراردادپربحث ہونا بھی۔ابھی باقی ہے۔اوراُس نےتوقندیل کےخلاف کارروائی کا مطالبہ کررکھا ہے۔ کیونکہ وہ حق مرداں کا علم بردار ہے۔ مجھےتواکبر الہ
آبادی کا شعر یاد آ رہا ہے۔
خلاف شرع شیخ تھوکتا بھی نہیں
مگراندھیرے اجالےمیں چوکتابھی نہیں۔!
جناب عالی!
جواب دیںحذف کریںدکھ تو یہی ہے کہ ہم نے مونچھیں بھی منڈوا رکھی ہیں لیکن قندیل بلوچ نے ٹوپی پھر مولوی ہی کی پہنی ہے
میں آپ کے دُکھ میں برابر کا شریک ہوں۔۔۔ حالانکہ آپ کا تبصرہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ داڑھی میں نے بھی رکھی ہے۔ لیکن قندیل مفتی قوی کے پاس کیوں ہے۔۔۔ ؟
حذف کریںمحترم سر، حسین چہروں کے شیدائی مفتی قوی نے بھی سوچا ہو گا، کہ فیس بک پر دی گئی تصویروں میں سے نصف بھی اصل ہوئیں تو قدرت کے بخشے حسن و جمال سے قربت اور وصل کے چند لمحے تو کشید کر ہی لیں گے۔ان کی نظر میں تو طرح دار قندیل بلوچ کا چرچا بھی کچھ ایسا ہی تھا۔
جواب دیںحذف کریںکوئی رسوا، کوئی سودائی ہے
اک جہاں آپ کا شیدائی ہے
ہر ادا میں ہے حیات جاوید
ہر اشارہ میں مسیحائی ہے۔
۔۔۔۔ لیکن ہوا اس کے الٹ اور مسیحائی کی تمنا لیے در قندیل پر پہنچنے والے مفتی قوی کو چاند جیسا چہرہ دکھا کر سیلفی گرل نے ان کے چودہ طبق روشن کر دئیے۔
جواب دیںحذف کریںہر سو ناشاد محبت کا چرچا ہونے پر مفتی قوی نے یہ کہتے ہوئے انگور کھٹے ہونے کا شکوہ کیا کہ
دیتی رہی فریب تیرے پیار کی نظر
تو نے میری وفا کو تماشا بنا دیا۔
لیکن سنا ہے کہ مفتی قوی معافی تلافی اور عہدے چھن جانے کے بعد اپنا مشاورتی دفتر کھولنے کی تیاری کر رہے ہیں، جہاں وہ حسینوں سے ملنے ملانے اور ان کی قاتل اداوں سے دیگر مرد حضرات کو بچانے کے لیے کوشاں رہتے ہوئے اپنی ناکام محبت کا تاوان ادا کریں گے۔۔۔۔۔۔۔ وزٹنگ کارڈ پر تحریر کیا جانے والا شعر قبل از وقت ان کے ہونٹوں کا ورد بنا پھرتا ہے۔۔۔ کہ
جواب دیںحذف کریںکوئی دھوکا نہ کھا جائے میری طرح۔۔۔
ایسے کھل کے نہ سب سے ملا کیجئے۔۔۔