ہفتہ، 16 جولائی، 2016

سوال 700 کروڑ ڈالر کا۔۔۔ ؟

عید الفطر پر پاکستان میں ایک فلم ریلیز ہوئی ۔’’ سوال سات سو کروڑ ڈالر کا‘‘۔ فلم کی کہانی  دو پروفیشنل چوروں کے متعلق ہے جن میں سے ایک  کمپیوٹر چپ چوری کرتے پکڑا جاتا ہے۔چور کی  جیل منتقلی کے دوران وین دریا میں گرجاتی ہے۔ پولیس اسے مردہ سمجھنے لگتی ہے۔ دوسرا چور  ایک سمگلر کا قیمتی ہیرا۔اور 700 کروڑ ڈالر چرانےکا منصوبہ بناتا ہے۔سمگلر نےساری دولت بینکاک میں چھپا رکھی  ہے۔خان۔نام کا ایک  پولیس آفیسرچورکوپکڑلیتا ہے۔ ڈرامہ، ڈانس اور عشق کےعلاوہ فلم کی ٹوٹل کہانی اتنی ہی ہے۔ملک میں جن دنوں’’سوال سات سو کروڑ ڈالر کا‘‘ ریلیز ہوئی اس کےچنددن بعدایک اور سوال اٹھا’’30 کروڑ روپے کا‘‘۔یہ کہانی بھی کافی فلمی ہے۔اور سوال پورے سرکٹ میں کھڑکی توڑ جا رہا ہے۔بلکہ یوں لگتا ہے ۔سوال سات سو کروڑ ڈالر کا۔پولیس آفسیر’’خان ‘‘۔اور 30 کروڑ روپے کا حساب  مانگنے والا خان ایک ہی  شخص ہے۔ سوشل میڈیا پرآج کل ایک سیاسی لطیفہ کافی ہٹ ہے کہ۔
میاں صاحب نےاپنے توتلے مالی کو نوکری سے فارغ کر دیا۔ کیونکہ مالی جب بھی اپنی بیوی کو رشیداں کہہ کےبلاتا۔تو میاں صاحب کو رسیداں سنائی دیتا۔
’’رسیداں۔؟‘‘دراصل سوالات کاایسا لامتناہی ’’سلسلہ‘‘ہے۔جسے تحریک انصاف کے کھلاڑیوں نےسوشل میڈیا پر’’ٹاپ ٹرینڈ‘‘بنادیا ہے۔میں بھی بطور پاکستانی اس ٹرینڈ کو فالو کر رہا ہوں کیونکہ سوال 30 کروڑ روپے کاہے۔سوشل میڈیا کی ’’رسیدی‘‘بحث کا مخاطب صرف ن لیگی ہیں۔جن کافیس بُکی نام پٹواری ہے۔اور پٹواری۔کھلاڑیوں کی بحث سے یوں لاتعلق ہیں ۔جیسے جوڑے طلاق کےبعد ہوتے ہیں۔کھلاڑی تو کہتے ہیں کہ خان کی تیسری شادی کا میڈیا پر چرچہ۔۔رسیداں والامعاملہ دبانے کی سازش  ہے۔۔ بلکہ وہاں تو نیا سوال کھڑا ہو گیا ہے کہ ’’رسیدیں بھی دکھائیں اور ٹانکے بھی۔‘‘
پاکستان ہمیشہ سےغیر ممکنہ سیاسی صورتحال  کا مرکز ہے۔یہاں ایشوز دبانے کے لئے  نئےایشوز گھڑے جاتے ہیں۔ملک میں جب حکمران خاندان کی آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کا مطالبہ ہو رہا تھا تب اچانک  وزیراعظم نواز شریف کو بائی پاس کے لئے لندن جانا پڑگیا۔ 31 مئی 2016 کو لندن میں وزیراعظم  کی کامیاب اوپن ہارٹ سرجری ہوئی۔وزیراعلی پنجاب شہباز شریف نے بتایا کہ وزیراعظم  کے 4 بائی پاس ہوئے۔تو کھلاڑیوں نےنیالطیفہ گھڑ لیا۔
وزیراعظم (شہباز شریف سے): تم لندن کیا کرنے آئے ہو۔؟
شہباز شریف:بائی پاس کا افتتاح کرنے۔
حکومت نےاس آپریشن کو خاصا سنجیدہ لیا البتہ ڈاکٹر طاہر القادری بولے کہ وزیراعظم  کا آپریشن ٹوپی ڈرامہ تھا۔امیر جماعۃ الدعوۃ حافظ  سعید کہتے ہیں کہ اللہ کرے جو دل انڈیا کے ساتھ دھڑکتا تھا وزیراعظم وہ لندن چھوڑ آئے ہوں۔ سوشل میڈیا کہتا ہے کہ’’ وزیراعظم نے آف شور آپریشن  کرایا‘‘۔۔اور میرا دوست مرید کہتا ہے کہ ایبٹ آباد آپریشن اور لندن آپریشن ناقابل فہم ہیں۔وزیراعظم  ڈیڑھ ماہ لندن میں’’بیمار‘‘رہے۔ انہیں وطن  لانے کے لئے پی آئی اے نے بوئنگ 777 طیارہ مختص کیا۔امریکا، ٹورنٹو ، پیرس اور مدینہ منورہ کی پروازیں متاثر ہوئیں۔ طیارے سےسیٹیں نکال کر بیڈ لگائے۔جراثیم کُش ادویات  کا چھڑکاؤ کیا گیا اور’’عوامی جراثیم‘‘سے محفوظ خالی جہاز لندن چلا گیا۔ وزیراعظم  چند رشتہ دار۔وزیروں مشیروں کے ساتھ پاکستان لوٹ آئے۔دوران بیماری لندن شفٹ کیا گیاوزیراعظم کا عارضی کیمپ آفس بھی لاؤ لشکر سمیت اسی جہاز میں واپس آیا۔ پی آئی اے کو وزیراعظم کی واپسی سے30 کروڑ روپے کا نقصان ہوا حالانکہ ملک ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا۔
فقیر:صوفی صاحب۔ضرورت مند ہوں۔مدد کر دیں
صوفی: میں تین بار داڑھی پر ہاتھ ماروں گا۔ جتنے بال گرے۔۔اتنے روپے دوں گا۔۔۔صوفی  نے تین بار ہاتھ مارا لیکن کوئی بال نہ گرا
صوفی :اللہ بھلا کرے۔ تمہاری قسمت میں کچھ نہیں
فقیر(جل کر): جناب۔ایسا نہ کہیں۔ داڑھی آپ کی اور ہاتھ میرا ہو تومالا مال ہو جاؤں۔
قومی خزانہ سن سنتالیس سےایسے’’صوفیوں‘‘کے ہاتھ میں ہےجن کی داڑھی ۔پیٹ میں  ہے۔فقیروں کے ہاتھ بھی خالی ہیں اور پیٹ بھی۔ ٹیکس دے دے کرقومی کمر کُبڑےعاشق  جیسی ہو چکی ہے۔’’صوفی‘‘جس شاخ پر بیٹھے ہیں اسی کو کاٹ کھا رہے ہیں۔ سونے کےانڈے دینے والی مرغی مسلسل ذبح کی جارہی ہے۔فقرا کے حمام میں سارے’’صوفی‘‘ ننگے ہیں۔جل سارے مچھلیوں نے گندے کر دئیے ہیں۔اقتدار پرستی قومی کھیل بن چکاہے۔ قومی خزانے کو چاروں شانےچِت کرنا ہی سب سے بڑی جیت ہے۔شائد یہاں 30 کروڑ روپے کاسوال کرنا حماقت ہے کیونکہ سوال 700 کروڑ ڈالر کا۔کھڑکی توڑ جا رہی ہے۔
بہو( سہیلی سے):پرسوں میری ساس کنوئیں میں گر گئی۔ بیچاری کو بہت چوٹ لگی۔ ساری رات چیختی رہی۔
سہیلی (دُکھ سے):اب کیسی ہے تمہاری ساس ۔۔؟
بہو:اب تو اُسے آرام آگیا ہے کل سے کنوئیں سے آوازیں نہیں آرہیں۔
ساس کی طرح تقریبا ساری قوم کنوئیں میں ہے۔اپوزیشن کرپشن اور دھاندلی پرتھوڑا۔بہت چیخ رہی ہیں لیکن حکومت کی خواہش ہے اسے’’آرام‘‘ آجائے۔ خزانہ’’نیچ‘‘ کی طرح مسلسل گرتا جارہا ہے۔ماضی میں بھی کئی آوازیں کنوئیں میں دابی جا چکی ہیں۔نيب کے سابق چيئرمين فصيح بخاری کہہ چکے ہیں کہ ملک میں یومیہ 8 ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔یعنی ملک کے سالانہ بجٹ کے تقریبا برابر سالانہ کرپشن۔۔ پرویز مشرف دور میں احتساب بیورو میں شریف فیملی کے خلاف۔۔(حديبيہ پيپر ملز ميں 642.743 ملين روپے  کرپشن ۔۔ رائے ونڈ محل کی تعمیر میں 247.352 ملين روپے اور نیشنل بنک  سے قرضہ لےکراتفاق فاؤنڈری کو دانستہ ڈيفالٹ کرنے) تین ریفرنس دائر ہوئےتھے۔سابق وفاقی وزیر رحمن ملک نے32 ملین ڈالرکی منی لانڈرنگ کاالزام بھی لگایا۔آف شور کمپنیاں،گندم کی درآمد، موٹر وے کا ٹھیکہ، دنیابھرمیں خفیہ کاروبار۔ اور لندن فلیٹس جیسےمیگا کرپشن سکینڈل  بھی شریفوں کے سرہی ہیں ۔30 کروڑ روپے کا سوال بالکل ہی نیاہے۔
سوال یہ نہیں ہے کہ وزیراعظم نے بائی پاس خزانے سے کرایا۔یا جیب سے سوال تو یہ ہے کہ سالوں اقتدار میں رہنے والےاپنے علاج کے لئےایک ہسپتال بھی نہیں بنا سکے۔ وزیر اعظم  علاج کے بعد واپس آئے تو جہاز کی سیڑھیاں خود اُترے ۔یہ صرف صالح ظافر کی قلم کا کرشمہ تھا کہ وہ اتنی جلدی صحت پکڑ گئے۔عمران خان نےپی آئی اے کو ہونےو الے 30 کروڑ روپے کانقصان عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔فلم’’سوال سات سو کروڑ‘‘کی طرح ’’خان‘‘ہمیشہ چور کے پیچھے رہے گا۔اللہ جانے چور پکڑنے کے لئے کوئی ’’ سندھی۔‘‘ خان  کا ساتھ دے گا یا نہیں۔؟۔البتہ اگلے چند روز کے دوران سرکٹ میں نئی فلم نمائش کے لئے پیش ہونے والی ہے۔ فقیر۔داڑھی پکڑنے کو تیار بیٹھے ہیں۔کھلاڑی  رسیدیں اور ٹانکے دیکھنا چاہتےہیں اور پٹواری خاموش بیٹھے ہیں۔ تاہم وزیراعظم کا کہنا ہے کہ قوم کی خدمت کرتا رہوں گا۔آپریشن کے بعد اب بہتر محسوس کر رہا ہوں۔قوم  پتہ نہیں کیسا محسوس کر رہی ہے۔؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں