ہفتہ، 29 اگست، 2015

اس حمام میں سب گوالے ہیں۔۔!

سُرخیاں عام طور پر دو طرح کی ہوتی ہیں۔۔ پہلی ہونٹوں کی  اور دوسری اخباروں کی۔۔ ہم چونکہ پہلی سُرخی کے ہی مداح ہیں۔۔ اسی لئے ۔۔اگر کوئی  دوسری سُرخی کاتذکرہ  بھی کرے تو ہم پہلی ہی سمجھتے  ہیں۔۔البتہ کچھ لوگوں کو دونوں سُرخیاں ایک جگہ پر  بھی دکھائی ہیں ۔۔ بقول شاعر ۔۔
؎      دیر تک پڑھتا رہا میں ہونٹوں کی سُرخیاں
ایک مہ جبیں کے ہاتھ میں اخبار دیکھ کر
لیکن جب  اخبار میرے ہاتھ میں آیا تب بھینسوں کی سُرخی دکھائی دی۔۔ یہ 26 اگست کی بات ہےایک  اخبار میں سرخی چھپی  تھی کہ 27 اگست کو لاہور یوں کو   دودھ نہیں ملے گا۔ سرخی پڑھ کر مجھے لگا کہ شائد دودھ کٹا پی گیا ہو۔۔  کیونکہ بچپن میں جب کبھی ماں بتاتی تھی کہ آج دودھ نہیں ملے گا تو اس کا مطلب ہمیشہ یہ ہوتا تھا کہ آج  سارا  دودھ کٹا پی گیا ہے۔۔ مجھے کٹے پر خاصا غصہ آتا کہ یہ اچھا خاصا ۔۔ہٹا کٹا ہے۔۔ اسے مزید دودھ کی ضرورت کیوں رہتی ہے ۔۔؟

بدھ، 26 اگست، 2015

کھانے میں کچھ میٹھا ہے۔۔۔ ؟


 اگرچے میں کبھی بھی سیاسی نہیں رہا لیکن  ۔۔ رونا اور گانا جس طرح ہر شخص کو آتا ہے ۔اسی طرح سیاست بھی ہر پاکستانی کے بس کی بات ہے۔۔۔یہ الگ بات ہے کہ وہ سیاست کے اسرار۔ و۔رموز سے  بخوبی واقف ہو یا نہ ہو ۔۔۔پاکستان وہ ملک ہے جس کی آبادی کئی سالوں سے شمار میں نہیں ہے  لیکن ہم جتنے  بھی ہیں ۔سب کے سب سیاستدان  ہیں۔۔۔چونکہ میں  بھی پاکستانی ہوں ۔۔سو مجھے بھی  کبھی کبھار سیاسی باتیں سننے کو مل جاتی ہیں۔
کہتے ہیں کہ لوگ سن کر سیکھتے ہیں۔۔میں نے ان سیاسی  باتوں سے جھوٹ، مکاری، دھوکہ بازی اور قرضہ نوشی  وغیرہ سیکھی ہیں ۔یہی کچھ ہمارے بڑوں نے سیکھا تھا اور آج ہمارے بچے بھی وہی کچھ سن رہے ہیں۔

جمعرات، 20 اگست، 2015

شریفے غیر سیاسی ہوتے ہیں۔۔۔!

یوم آزادی پر جب ملک بھر میں جگہ جگہ اور دنیا بھر میں وہاں وہاں۔۔جہاں پاکستانی آباد ہیں۔سبز ہلالی پرچم سر بلند ہو رہا تھا تب فیصل آباد میں ن لیگ کے دو رہنما ایک دوسرے کے خلاف علم بغاوت بلند کر رہے تھے۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ فیصل آباد میں مسلم لیگ ن سالہا سال سے سابق ایم این اے چوہدری شیر علی اور وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ کے مابین دو دھڑوں میں تقسیم ہے۔۔دو لخت جماعت ۔۔۔ ایک طرف بھٹو اور دوسری طرف عوامی لیگ کے شیخ مجیب الرحمن والی تقسیم۔۔اُدھر تم اور اِدھر ہم والی تقسیم۔۔۔ اقتدار کے بجائے چوہدراہٹ کی لڑائی۔۔ ضلع پر راج کرنے کی خواہش۔۔۔ پہلے چوہدری شیر علی کی گفتگو

اتوار، 16 اگست، 2015

سانوں اک پل چین نہ آوے

یہ بات تو طے ہے کہ ہماری موسیقی کی عمارت ٹھیٹھ راگوں اور راگنیوں کی بنیاد پر کھڑی ہے.
میوزک کی کئی شکلیں ہو سکتی ہیں۔ جیسے کلاسیکی، نیم کلاسیکی، فوک راک، پاپ کلاسیکل اور نیم کلاسیکل ہر روپ، رنگ اور سُر میں کسی نہ کسی گھرانے سے منسوب ہے جبکہ فوک، راک اور پاپ تو چلتا پھرتا سا کام ہے۔۔۔ کلاسیکل والے اس فارم کو بری بھی سمجھتے ہیں بلکہ اسے موسیقی بھی نہیں سمجھتے ان کا خیال ہے کہ یہ باتھ روم میں ہونے والی گلوکاری کی کوئی شکل ہو سکتی ہے جسے ہر کوئی گا سکتا ہے
پچھلے دنوں کل پاکستان موسیقی کانفرنس کے بارے میں ایک تحریر پڑھنے کو ملی سمجھ تو نہیں آئی لیکن لکھ اس لئے رہا ہوں شائد موسیقی کے کسی دلدادہ کی حس لطافت میں اضافہ ہو جائے

جمعرات، 13 اگست، 2015

مُنا آخر کہاں جائے۔۔۔ ؟

مُنا یوم آزادی پر صرف 11 سال کا تھا۔سفید زمین والی دھاری دار قمیض۔۔چاک گریبان، ٹوٹے بِیڑے، ڈولوں تک بازو،کمر پر لنگوٹ، پیروں ننگا، ٹخنوں پر آزادی کی دھول، پب پہ چھالے، دل میں لالے، آنکھوں میں امید، ہونٹوں پر نغمے، جوش ولولہ اور آزاد وطن میں کٹے پروں سے اونچی اڈاریاں بھرنے کی خواہش۔۔۔ کٹے ہوئے پر۔۔ کیونکہ۔۔مُنا پرانے جالندھر(انڈیا) کے گاؤں علی محلہ سے والدین کے ہمراہ دنیا کی سب سے بڑی ہجرت پر نکلا تھا۔وہاں سے اندریش نگر پہنچا تو چھوٹا بھائی چھوٹ گیا۔۔بستی باوا خیل میں زاد راہ جاتا رہا۔۔کھوجے والا میں کُچھڑ سے بہن نکل گئی۔۔ کپورتھلہ اسٹیٹ کے قریب ابا نے بیمار دادو کو کنیڑے اٹھایا۔تو دادی نے ازخود نیچے اُتر کر ابا کو رخصت دے دی۔۔بھاونی پور میں سر سے گٹھڑی چھن گئی۔۔بھاگا تو جوتے پیچھے رہ گئے، سدھوان میں ماں بچھڑ گئی

بدھ، 12 اگست، 2015

قصور بلھے شاہ کا ہے۔۔۔!

بچے، زیادتی، ادویات، انجیکشن، اوباش، ویڈیو، بلیک میلر، بکاو پولیس، سرد مہری، بے حسی، بے غیرتی، لاقانونیت، پردہ پوشی، پشت پناہی، رسہ گیری اور بہت سے الفاظ جب ذہن میں آئیں تو قصور سکینڈل یاد آتا ہے۔۔
 بچوں سے بدفعلی کا۔۔ملکی تاریخ کا سب سے بڑاسکینڈل۔۔ گناہ کی خود رو منڈی۔۔پولیس نے قصور کے گاوں حسین خان والا میں چند روز قبل بچوں سے بد فعلی والے مجرم چھوڑے تو جُتیاں کھائیں۔۔ جتیاں اور ٹھڈے عام طور پر ان اوباشوں کا مقدر ہوتے ہیں جو دیہاتوں میں زیادتی کرنے کے جرم میں پکڑے جاتے ہیں۔۔۔ لیکن وہ جوتے اوباش کا منہ کالا کرکے ۔۔ہار بنا کر گلے میں لٹکائے جاتے ہیں۔۔

منگل، 4 اگست، 2015

یہاں ایک یار مرید دفن ہے۔۔۔


 مرد عام طور پر رن مرید ہوتے ہیں لیکن میرا شوہر وحید ماں مرید ہے۔۔جب یہ مرے گا تو میں اس کے کتبے پر لکھواں گی یہاں ایک ماں کا یار دفن ہے۔۔ اور اگر پہلے میں مر گئی تو ۔۔۔ یہ عاشقی معشوقی جو ماں بیٹے میں چلتی ہے اس سے چُھٹی ملے گی، رج رج کے جھپیاں ڈالیں ایک دوسرے کو۔۔’’بانو قدسیہ کے ناول راجہ گدھ سے اقتباس‘‘
اب مجھےکیا پتہ کہ ماں مرید ہونا۔شوہروں کی کونسی نسل ہے۔لیکن رن مرید اور ماں مریدکےعلاوہ بھی مریدوں کی کئی نسلیں ہوتی ہیں۔جیسےیار مرید، افسر مرید، دھن مرید اور اقتدار مرید وغیرہ۔میرا تعلق مریدین کی اُس قبل الذکرجاتی سے ہے۔جن کےبارےمیں یہ واقعہ مشہور ہے۔