اتوار، 3 مئی، 2020

پاکیزہ خواب

ہیکنگ ایسا پیشہ ہے۔ جسے مہذب معاشرےمیں اچھانہیں سمجھا جاتا۔   اس  کا یہ مطلب  نہیں کہ  ہیکنگ ’’ویسا پیشہ‘‘ہے۔جس کے بارے میں منٹو نے کہا تھا ’’ہمارا معاشرہ ایک عورت کو کوٹھا چلانے کی اجازت تو دیتا ہے لیکن تانگہ چلانے کی نہیں‘‘۔   ہیکنگ اور  منٹو کا نثری  فیوژن شائد پہلی بار  ہوا ہے۔؟۔ لیکن اس فیوژن سے مراد یہ نہیں   کہ    ہیکنگ تانگے پر بیٹھ کر کی جا سکتی ہے۔  کوٹھے پر بیٹھ کر نہیں ۔ کوٹھا ہویا ہیکنگ  دونوں دھندے ہیں  ۔ ہیکنگ    کرنے والے ہیکرز کہلوا تے ہیں اور کوٹھے پر جانے والے چیکرز۔
۔ ہیکرز  دوسروں کےکمپیوٹرپاس ورڈ توڑکر نجی معلومات چراتے ہیں۔ اور سافٹ وئیرز کے کریکس تیار کرتے ہیں ۔ اتنی محنت کے بعد ظاہر ہے ہیکر۔  بلیک میل کرتا ہے۔یہیں سے وہ دھندہ شروع ہوتا ہے جسے   اچھا نہیں سمجھا جاتا۔  ہیکر کمپیوٹر پرو گرامنگ کا سپیشلسٹ ہوتا ہے۔  ڈاکٹر یونس بٹ کہتے ہیں۔’’ سپیشلسٹ وہ ہوتا ہے جو کم سے کم کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جانتا ہو‘‘۔۔۔ لیکن ہیکنگ میں۔ ہیکر کی مہارت سے زیادہ ہماری حماقت کا دخل ہوتا ہے۔ انسان حماقت کا پتلا ہے اور حماقت کو چھپانے کے لئے مزید حماقتیں کرتا ہے۔شفیق الرحمن  مزید حماقتیں میں لکھتے ہیں کہ’’ حکما کا اصرار ہے کہ اپنے آپ کو پہچانو لیکن تجربے سے ثابت ہو ا ہے کہ اپنے آپ کو مت پہچانو۔ ورنہ سخت مایوسی ہو گی ۔‘‘
سردار  فون پر: ہیلو۔بے بے۔ خوشی دی خبرآ
بےبے: ہاں پُت دس
سردار: ہم دو سے تین ہو گئے
ہیں
ماں:
بدھائیاں ہون پُتر۔ منڈا  ہویا کہ کُڑی ۔ ؟
سردار: نہیں بے بے  میری
 پتنی نے دوسری شادی کر لتی۔
خوشی اورمایوسی کے پیمانے الگ الگ ۔ لیکن وجہ ایک ہو سکتی ہے۔ بے بے کی مایوسی ۔ سردار کی خوشی پر ہاوی نہیں ہوسکتی۔ ہیکنگ بھی ایسا ہی عمل ہے۔  ہم مایوس ہوتے   ہیں اور ہیکرز تقریبا اتنے ہی خوش جتنا سردار اپنی پتنی کی دوسری شادی  پر  تھا۔ ۔میرادوست شیخ مرید کہتا ہے  کہ انسان کو مایوس نہیں ہونا چاہیے زندگی کہیں سے بھی شروع ہو سکتی ہے۔ انسان عموما اس وقت مایوس  ہوتا ہے جب اُس کے دِل میں کسی بڑے مقصد کے حصول کی خواہش ہو، لیکن اُس کے مطابق صلاحیت نہ ہو۔ اطمینان  کے لیے ضروری ہے کہ  خواہش کم کی جائے یا صلاحیت بڑھائی جائے۔ وگرنہ  خواہشیں  خواب بن جاتی ہیں ۔
سردار:(پریشانی میں  ڈاکٹر سے)۔مجھے خواب میں گدھے فٹ بال کھیلتے نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر:آپ یہ دوائی کھائیں۔اور دو دن بعددوبارہ چیک کروائیں۔ 
سردار:ڈاکٹر صاحب میں  دوائی کل  نہ کھا لوں۔؟۔
ڈاکٹر:وہ کیوں۔ ؟
سردار:کیونکہ آج گدھوں کا فائنل ہے۔۔
خواب نیند کے روشن دان ہوتے ہیں۔جن میں سےبےخواب   سوچیں باہر جھانکتی ہیں۔۔ کتنا عجب  ہو کہ سردار جی خواب دیکھ رہے ہوں اور گدھے فٹ بال فائنل کی ٹرافی اٹھائے  روشن دان سے   باہر نکل آئیں۔۔ہم دال کھا کر گوشت کےڈکار لینے والے معاشرے میں رہتے ہیں۔جہاں بدہضمی کی وجہ سے کٹھے ڈکاراور خوش فہمی کی وجہ سے  میٹھے خواب آتے ہیں۔بچے پریوں کے خواب دیکھتے ہیں۔۔نوجوان۔  جنس مخالف  کے  خواب دیکھتے ہیں اور ۔سیاستدان  اقتدارپر مبنی  خواب دیکھتے ہیں۔شوہر اکثربے خوابی کا شکار  رہتے ہیں۔پھر ۔ بیچاری بیویاں ۔شوہر کے خوابوں کی ’’تعبیر‘‘ ڈلیور کرتی ہیں ۔ ۔آزمودہ نسخہ تو یہ ہے کہ میاں بیوی کی جتنی مرضی  لڑائی ہو جائے ۔صلح  کے بعد   وہ۔     آؤٹنگ پر نہیں ’’خوا ب‘‘دیکھنے جاتے ہیں ۔مرید کہتا ہے کہ    میکہ  ہر عورت کا اٹوٹ انگ ہوتا ہے اور سسرال    متنازعہ ریاست ۔۔  ہر عورت ریاستی حکمرانی کا خواب دیکھ کر بابل کی دلیز پار کرتی ہے۔ شوہر کٹھ پتلی بن کر اس خواب کو تعبیر فراہم  کرتا ہے ۔
خواب تین  قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جوانسان خود دیکھتا ہے  ۔دوسرے وہ جو دوسرے  دکھاتے ہیں اور تیسرے وہ جو تیسرے آپ کے بارے میں دیکھتے ہیں۔ ۔ جو خواب ہم خود دیکھتے ہیں۔ وہ’’مزےدار‘‘ہوتے ہیں ۔ جو۔خواب  دوسرے دکھاتے ہیں ۔ وہ  دلفریب  ہوتے ہیں  ۔اور تیسرے  خواب ۔ جو لوگ آپ کے بارے میں دیکھتے ہیں ۔فضول  ہوتے ہیں  ۔ انسان جو کچھ  دیکھتا ہے۔وہی کچھ سوچتا ہےاور جو۔ کچھ نہیں سوچتا وہ خواب دیکھتا ہے۔ کہتے ہیں کہ نیند کانٹوں کے بستر  پربھی  آجاتی ہے۔لیکن یہ صرف غریب آدمی کے لئے ہے جو سولی پر بھی سو جاتا ہے ۔ بزنس مین بستر پر بھی جاگتا رہتا ہے ۔اگر کوئی کرسی پر بھی سو جائے تو وہ سرکاری ملازم  ہے ۔
پچھلے دنوں  روزنامہ   جنگ میں ایک خبر چھپی کہ اب تک صرف کمپیوٹر ، لیپ ٹاپ، اور موبائلزکا ڈیٹا ہیک ہوتا تھا لیکن اب تیکنالوجی سے لیس ایسی ڈیوائس تیار کی جا رہی ہے۔ جس کے ذریعے  خوابوں کو ہیک کیا جا سکے گا۔   ڈور میو نامی ڈیوائس پرلیب میں  کام  جاری  ہے۔ یہ ڈیوائس  گلوزجیسی ہو گی ۔  جسے سونے سے قبل ہاتھ میں پہنا جائےگا۔ ماہرین کا کہنا ہےکہ سونے کے دوران ہم  نیند کی سیمی لو سڈاسٹیج میں ہوتے ہیں۔ جو نیند کی نیم خواندہ کیفیت ہوتی ہے۔ یہیں  ہمیں خواب آتے ہیں ۔ ان خوابوں کی  کیفیت  کو    ڈیوائس میں لگے    سینسر کی مدد سے  پر کھا جائے گا۔    اور خوابوں پر قابو پایا جاسکے گا۔
میرا دوست مرید کہتا ہے کہ سائنسی ایجادات انسانوں کے لئے  خوفناک ہوتی جا رہی ہیں۔ کیونکہ ہم بہت سے خواب ایسےبھی  دیکھتے ہیں۔ جو شرمندگی کی وجہ سے  شئیر بھی نہیں کئے جا سکتے ۔ ان کو ہیک کر لیا گیا تو سویرے اٹھنے سےپہلے ہی منہ کالے ہو چکے ہوں گے۔پھر زندگی گھناؤنا خواب  ہو سکتی ہے۔ وہ کہتا ہے  یوں بھی ممکن ہے  انسان کرپٹ خواب نہ دیکھے  مگرڈیوائس کرپٹ ہو جائے۔ ٍ
خواب ہوں یا حقیقت ۔  بنیادی طور پر    ہم سارے شیخ چلی ہیں ۔ ہمارا اپنا اپنا گدھا ہے۔ خوابوں میں فٹ بال کھیلنے والا گدھا۔ جو روزانہ ندی میں بیٹھ جاتا ہے۔۔ ہمارے انڈے بھی  روزانہ ٹوٹ جاتے ہیں۔  ہم  پھر نئے  خواب دیکھتے ہیں۔ اور آنکھ کھلتے ہی  ان  کی تعبیر کے لئے دوڑ پڑتے ہیں ۔بعض اوقات تو دل میں  لہر بھی نہیں اٹھتی۔ ۔ خواب میں  سوچابھی  نہیں ہوتا  ۔  لیکن  منزل  مل جاتی ہے۔مرید کہتا ہے کہ ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا ہے۔ ہر شخص   عثمان بزدار  نہیں ہوتا۔وگرنہ خواب تو   علیم خان  بھی روزانہ     دیکھتے ہیں  ۔ وہ  کہتا ہے  علیم خان   سیاسی طور پر بہت خوش بخت  ہیں۔ کیونکہ تبدیلی کےخواب   دیکھنے والوں کی تعبیر کبھی عثمان بزدار جیسی نکلتی ہے اورکبھی  پرویز خٹک  جیسی ۔  
مشتاق احمد یوسفی لکھتے ہیں کہ انسان کتنا ہی ہفت زبان کیوں نہ ہو جائے، گالی، گنتی، گانا اور لطیفہ اپنی زبان میں ہی لطف دیتا ہے۔اسے ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم سوچتے بھی مادری زبان میں ہیں اور خواب بھی اِسی زبان دیکھتے ہیں۔ مرید کہتا ہے کہ  ہماری مادری زبان پنجابی ہے اور’’فادری‘‘زبان انگریزی ۔  ہیکر انگریز ہویا کوئی عربی۔!  با آسانی سمجھ جائے گاکہ ہم نے خواب میں کیا دیکھا ہے۔  کیونکہ  خواب  ہم فلم کی طرح دیکھتے ہیں ۔ اور   بہت سی فلمیں آواز بند کرکے بھی دیکھ لیں تو سمجھ آجاتی ہیں۔خواب  اب ہیکرز کے ہاتھوں میں ہیں۔ ہیکنگ تو پیشہ بھی اچھا نہیں  ہے  ۔عزت سادات بھی  جا سکتی ہے  ۔پلیز پاکیزہ خواب  دیکھیں۔ وگرنہ  پتلون گری کی گری۔
سردار جی کو زوردار چھینک آئی  اور  پتلون بھی اتر گئی ۔مگر وہ شرمندہ نہیں ہوئے، مسکرا کے بولے۔ آج تو یاد کرنے والے حد ہی کر دی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں