جمعرات، 4 دسمبر، 2014

گو بیگم گو

گو نواز گو ۔۔ اور ۔۔ رو عمران رو ۔۔ یہ انقلابی نعرےہماری یوتھ کے ہیں ۔ ان میں کچھ نعرے ہیں اور کچھ ردعمل۔۔۔ نوجوان طبقہ اپنی اپنی جماعتی ضروریات کے مطابق ایسے نعروں پر اکثر چیختا چنگھاڑتا رہتا ہے۔ دونوں جماعتوں کے ناراض حمایتی نجی محفلوں میں چوری چھپے ایسے ہی نعرے لگاتے ہیں اور کچھ تو زیر لب گنگناتے بھی ہیں۔۔۔۔یہ نعرے صرف نوجوانوں کے ہیں اورنوجوان لااُبالی ہوتے ہیں اسی لئےہر نعرے کی عُمر ۔۔پانی کے بُلبلے جتنی ہوتی ہے۔۔مختصر ترین ۔۔۔ لیکن ہمارا تعلق نوجوانوں کی اگلی نسل سے ہے۔بڑھا پے کی طرف مائل۔۔ ادھیڑ عمری کی سوچیں پختہ ۔۔ اور۔۔ ارادے مضبوط ہوتے ہیں۔۔ اسی لئے ہم بوڑھوں اور نیم بوڑھوں کا نعرہ کئی صدیوں سے یکساں مقبول بھی ہےاور ہر شوہر کے دل کی آواز بھی ۔

اس نعرے کو لگانے کے لئے ڈی چوک جانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی کنٹینر پر چڑھنے کی۔ ۔البتہ نعرہ سننے کے لئے بیگم کی ضرورت ضرور ہے۔۔وہ چاہے آگے سے لاش بن کر بیٹھی رہے۔ نعرہ ہے۔’’گو بیگم گو‘‘ اسے کہنے کے کاپی رائٹس صرف شوہروں کے پاس ہیں۔۔سوتے ، بیٹھتے ، اٹھتے ، جاگتے گو بیگم گو۔۔ کبھی بھی کہا جا سکتا ہے لیکن نعرے کی احتیاط یہ ہے کہ دل کی بات ہونٹوں پر چاہے آجائے ۔۔ دوسروں کے کانوں تک ہرگز نہ جانے پائے۔ ۔ذاتی اہلیہ سے چوری نجی محفلوں میں اس نعرے کا والیم بڑھایا بھی جا سکتا ہے۔البتہ زیر نظر تحریر پڑھتے ہوئے ۔۔ پورے زور سے۔۔ ’’گووووو بیگم گووووو‘‘۔۔کہہ کر جذباتی تسکین حاصل کی جا سکتی ہے ۔ ۔یہCathersis بھی ہے۔۔۔۔رسم دنیا بھی ہے، موقع بھی اور دستور بھی ہے ۔ ۔
احتیاط ’’شیخ رشید جیسے پیدائشی کنوارے ایسے نعرے ،چوری ، چُھپے ، کھلے عام یا نجی محفلوں میں بھی لگانے سے پرہیز کریں۔رنڈوے کو چھوٹ حاصل ہے‘‘
سوال یہ ہے کہ ہم شوہروں کو ۔۔گو بیگم گو۔۔ کہنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے ۔؟ اس کے جواب ان مثالوں میں موجود ہیں ۔۔۔!
مثال نمبر:1
ایک عورت اپنے شوہر کوشاپنگ د کھاتے ہوئے بولی۔ یہ کپڑا میں نے آپ کے رومال کے لئے خریدا ہے ۔
شوہر : اتنا زیادہ کپڑا۔۔۔۔؟
عورت : جو باقی بچا اس کی میں ساڑھی بنا لوں گی۔
مثال نمبر: 2
ایک شوہر نے ملنگ سے کہا۔۔ بابا میں اپنی بیوی سے بہت تنگ ہوں کوئی حل بتا دو ۔۔ملنگ۔۔۔کوئی حل ہوتا تو میں ملنگ کیوں ہوتا۔۔۔؟
آہ!۔۔۔بیویوں نے ہمیں ملنگ کر کے رکھ دیا ہے ۔۔بلکہ مست ملنگ۔۔۔۔
نعرہ ےےےے۔۔۔ گو بیگم گو ۔۔۔۔۔
 ایک اور داستان غم۔۔۔۔۔مثال نمبر :3
میاں بیوی شاپنگ پر گئے واپسی پر شوہر گم ہوگیا ۔بیوی نے تھانے میں گمشدگی کی ۔۔۔ایف آئی آر درج کروادی، تھوڑے دن بعد بیوی دوبارہ تھانے گئی تو ایس ایچ او نے دیکھتے ہی کہا!۔۔۔ محترمہ ابھی آپ کا شوہر نہیں ملا ۔جب ملے گا تو بتا دیں گے ۔ ۔ بیوی تنک کر بولی ۔۔۔ ۔ ایس ایچ او صاحب ! میرا شوہر تو مل گیا تھا ۔۔۔ لیکن میرا کُتا گم ہوگیا ہے ۔ ایف آئی آر میں جہاں جہاں شوہر لکھا ہے وہاں وہاں کاٹ کر کُتا لکھ دیں۔
ہم نے تو پڑھا ہے انسان مخلوق اشرف ہے۔۔لیکن ہم نے سندھ میں انسان اور جانورکو ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے دیکھا ہے۔ہم نے وڈیرے کے ڈیروں پر انسانوں اور جانوروں کو ایک ہی کھونٹے سے بندھے بھی دیکھا ہے۔ہم نے ایک ہی ایف آئی آر میں شوہر اور کُتا کے حق برابری کی مثال بھی سنی ہے۔۔۔۔؟ بیوی کے طعنوں کی وجہ سے شوہروں کے ملنگ ہونے کا بھی ہمیں پتہ ہے۔۔ ہو سکتا ہے کچھ شوہر اس تخیل سے اختلاف کریں لیکن گو بیگم گو ۔۔کے حوالے سے میرے پاس معروف پنجابی شاعر زاہد فخری کی دلیل بھی ہے۔یہ ان کا Cathersisبھی ہے۔۔وہ کہتے ہیں۔
کدی تے پیکے جا نی بیگم۔۔۔۔۔آوے سُکھ دا ساہ۔ نی بیگم۔۔۔۔۔۔کٹھیاں رہ رہ اَک گئے آں ہن۔۔۔۔۔۔لاگے بہ بہ تھک گئے آں ہن۔۔۔۔۔ ٹینڈے وانگوں۔ پک گئے آں ہن۔۔۔۔تے پر وی نکو۔ نک گئے آں ہن۔۔۔۔ہن تے سینے ٹھنڈ پا نی بیگم۔۔۔۔کدی تے پیکے جا نی بیگم۔۔۔۔
کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔
ایک صاحب نے ایک شوہر سے پوچھا۔۔بھائی یہ خوشیاں کیا ہوتی ہیں۔۔۔؟تو اس نے دُکھ بھرے لہجے میں جواب دیا ۔۔مجھے کیا پتہ ۔۔! میری تو کم عمر میں ہی شادی ہو گئی تھی۔خوشیوں کے معاملے میں ۔۔۔ وہ لوگ خاصے خوش قسمت ہوتے ہیں جن کی شادی ادھیڑعمری میں نہیں ہوئی۔لیکن میں نے توزائد العمری میں شادی کرکے کم عمری جتنا ہی’’صدمہ‘‘جھیلا ہے۔۔ڈاکٹر یونس بٹ لکھتے ہیں کہ
۔۔ ہنسی خوشی مل جل کر رہنے کے لیے ضروری ہے کہ کبھی خاوند بیوی سے معافی مانگ لے اور کبھی بیوی کو چاہیے کہ خاوند کو معاف کر دے۔۔
جبکہ
 عطا الحق قاسمی کہتے ہیں۔۔۔ بیوی سے محبت کرنا ایسی جگہ پر خارش کرنا ہے ۔۔ جہاں خارش نہ ہو رہی ہو ۔۔۔
 قاسمی صاحب کا نظریہ اپنی جگہ درست ۔۔! لیکن ذاتی بیوی کا تعلق کسی بھی قبیل سے ہو ۔۔شوہر کو شو۔۔ یہی کرناچاہیے کہ اُسے جگہ جگہ خارش ہو رہی ہے۔ بلکہ جسم خارش زدہ ہو چکا ہے ۔
ایک دفعہ کاذکر ہے۔۔۔
میاں اور بیوی انتہائی راز و نیاز میں گفتگو کررہے تھے۔شوہر نے پوچھا۔ جان ۔!اگر میں مر گیا تو تم کیسے گذارا کرو گی۔؟ بیوی نے جذباتی آواز میں کہا اللہ رحم کرے ۔!میں ساری زندگی اپنی بہن کے ساتھ گذار دوں گی۔ اب جواب کی باری شوہر کی تھی۔ بیوی یوں گویا ہوئی۔ جانو اگر میں مر گئی تو آپ کیا کرو گے۔؟ شوہر نے جواب دیا میں بھی ساری زندگی تمہاری بہن کے ساتھ گذار لوں گا۔۔!
ڈاکٹر یونس بٹ کہتے ہیں کہ بیوی کی آدھی زندگی خاوند کی تلاش اور باقی آدھی اس کی تلاشی میں گزر جاتی ہے۔کبھی خاوند کے کئے کی سزا بیوی کو ملتی ہے تو کبھی خاوند کوکیے کی سزا ۔۔بیوی ملتی ہے۔ بیوی دن میں کم از کم ایک بار ضرور ناراض ہوتی ہے اور خاوند ایک بار میں کم از کم ایک دن ضرور ناراض رہتا ہے۔ لیکن راجہ انور کا خیا ل ہے کہ مرد ۔۔۔ عورت کی نسبت وفا کا زیادہ پیکر ہو تے ہیں۔وہ اپنی سابقہ محبوبہ کو یوں مخاطب ہوتے ہیں۔۔
۔۔۔۔تمہارے چھوڑ جانے کے بعد اک بات کا بخوبی اندازا ہو گیا کہ وہ میں تھا جس نے تمہیں محبت کا خدا بنا دیا یہ ہنر مجھ میں ہے میں جسے چاہوں اپنی محبت کا خدا بنا دوں
۔۔ہاں اگلی بار اپنی محبت کا خدا بناتے ہوئے اس بات کا خیال رکھوں گا کہ مٹی وفا کی استعمال کروں۔۔۔۔ '' جھوٹھے روپ کے درشن '' سے اقتباس ۔۔۔۔۔
میاں بیوی کی محبت جتنی بھی گہری ہو ۔ ہر بیوی کامن میکے جانے کو مچلتا ہے اور ہر شوہر من سے یہ جملہ سننے کا منتظر ہوتا ہے۔بیوی کے جانے کی امیددر اصل شوہر کی قلبی خواہش ہو تی ہے۔۔۔۔ راکھ کے نیچے دبی ہوئی چنگاری جیسی ۔۔۔۔ بیوی جونہی شوہرسے میکے جانے کی اجازت مانگتی ہے توشوہر من میں پھوٹتے لڈووں کے ساتھ اول۔ اول ناں کرتے ہیں۔۔۔آخر آخر ہاں۔۔۔ان کے دلوں میں ریج اتارنے کے لئےزاہد فخری کی باقی نظم کے شعروں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔۔
۔۔۔۔۔شام منان نوں دل کردا اے---سگرٹ پان نوں دل کردا اے---باروں کھان نوں دل کردا اے---تازے نان نوں دل کردا اے--- کردے پُورے چا نی بیگم---کدی تے پیکے جا نی بیگم ۔۔۔تے اپنی مرضی آئے جائیے ---مُنڈیاں ورگے کپڑے پائیے ---راتاں نوں سُکھ رات بنائیے ---کُج دن اسی وی عید منائیے ---بدلے ذرا ہوا نی بیگم---کدی تے پیکے جا نی بیگم
احتیاط : شوہروں کو یہ احتیاط ضرور رکھنی چاہیے کہ بیوی ایسے ہی ٹھوس شواہد اور وجوہات پر’’ گو شوہر گو‘‘ کا نعرہ بھی لگا سکتی ہے۔
مثال نمبر :4
گھر میں بیڈ پر لیٹے ہوئے مریض کو دیکھ کر ڈاکٹر نے کہا: بیگم صاحبہ میں نے آپ کے شوہر کو اچھی طرح دیکھ لیا ہے اُنھیں آرام کی سخت ضرورت ہے میں نے نیند کی گولیاں لکھ دی ہیں اسٹور سے منگوا لیں مریض کی بیوی:ڈاکٹر صاحب مریض کو دوائی کب کب دینی ہے؟ ڈاکٹر: یہ دوائی مریض کے لئے نہیں۔۔۔آپ کے لیے ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں